حکومت کو کھلی چھٹی

تحریر: انورساجدی
آخر وہ دن آگیا جس کا ڈر تھا صحافی محسن بیگ کی گرفتاری محض شروعات ہے ایک طویل فہرست ہے جس میں درج سینکڑوں صحافیوں اور سوشل میڈیا پر سرگرم حکومت مخالف لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آنی ہیں جب سے وفاقی وزیر مراد سعید کے حوالے سے وزیراعظم پر ذاتی الزامات لگے ہیں اور خاتون اول کے بارے میں نامناسب تبصرے پیش کئے گئے ہیں وزیراعظم زخمی شیر کی مانند بپھرے ہوئے ہیں سنی سنائی بات ہے کہ اپوزیشن اور وزیراعظم دونوں سے کہہ دیا گیا ہے کہ اپنی لڑائی خود لڑیں اس بات کو یوں سمجھا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو فری ہینڈ دیا گیا ہے آئندہ چند روز میں شہبازشریف سمیت اہم رہنماؤں کی گرفتاری کا امکان ہے اس جارحانہ اقدام کا مقصد اپوزیشن کی مجوزہ تحریک عدم اتحاد کو وقت سے پہلے دفن کرنا ہے اگرواقعی میں وزیراعظم کو فری ہینڈ ملا ہے تو ان کا قہر سب سے زیادہ میڈیا پر ٹوٹ پڑے گا اس کے بعد مخالف سیاسی رہنماؤں کی باری آئے گی نیب نے سندھ حکومت کی مبینہ بدعنوانیوں کیخلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اس کارروائی کا ہدف مراد علی شاہ اور بعض وزراء ہیں وفاقی حکومت کوشش کرے گی کہ سندھ حکومت ڈانواں ڈول ہوجائے۔
کوئی تین روز قبل مسلم لیگ ن کے ایک سوشل میڈیا پرسن صابر کو خاتون اول کے خلاف ٹرینڈ چلانے پر گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ جنگ اور جیوے وابستہ صحافی محسن بیگ کو بدھ کی صبح گرفتار کرلیا گیا ان پر سنگین الزامات ہیں جبکہ ایف آئی اے کی پارٹی پرفائرنگ پر بھی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے محسن بیگ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے وہ کافی عرصہ تک عمران خان کے ذاتی مشیر بھی رہے ہیں چند روز قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے عمران خان کو ایک ارب روپے سے زائد کے عطیات دلوائے ہیں وہ کپتان کے برسراقتدار آنے کے بعد نظرانداز تھے جس پر وہ مایوس اور دل گرفتہ تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے تبصروں میں حکومت پر سخت تنقید شروع کررکھی تھی گزشتہ دنوں جب وزیراعظم نے اپنے دس وزراء کو حسن کارکردگی کے ایوارڈ دیئے تو ایک ٹی وی چینل پر محسن بیگ نے کہا کہ عمران خان اور مرادسعید کے درمیان کیاتعلقات ہیں اس کیلئے ریحام خان کی کتاب پڑھنا ضروری ہے مذکورہ ٹی وی کے اینکر اور جنرل شعیب نے بھی معنی خیز تبصروں میں حصہ لیا۔محسن بیگ پر غصہ کس قدر ہے اس کا اندازہ علی الصبح ان کی گرفتاری کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے انہیں دہشت گردوں کی طرح گھسیٹ کر حراست میں لیا گیا اس دوران فائرنگ کا واقعہ بھی ہوا جس کا الزام محسن بیگ اور رشتہ داروں پر لگایاگیا۔
اگرچہ حکومت ابھی تک سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی قانون تو نہیں لاسکی البتہ سائبر کرائم کا سہارا لے کر ایف آئی اے کو کریک ڈاؤن کا حکم دیا گیا ہے ایف آئی اے نامور وزیر شیخ رشید کے ماتحت ہے شیخ صاحب بھی بذات خود آج کل سخت غصے میں ہیں اور انہوں نے پیشگی اعلان کررکھا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک تو نہیں آئے گی البتہ شہبازشریف اور ساتھی ضرور جیلوں میں ہونگے۔اس طرح کپتان نے ایک جارحانہ اور بے رحمانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے لگتا ہے کہ وہ تر اور خشک نہیں دیکھیں گے ان کی نئی پالیسی کے تحت سب سے برا وقت میڈیا پر آئیگا پرنٹ میڈیا تو پہلے ہی سنسرشپ کی گرفت میں ہے جبکہ اکثر ٹی وی چینل بھی تابع فرمان ہیں ایک گستاخ چینل کو آف ایئر کردیا گیا ہے باقی سارے خوف میں مبتلا ہیں۔کپتان کی پوری کوشش ہوگی کہ اپوزیشن کی ایسی خبر لے کہ وہ عدم اعتماد تو کیا سراٹھانے کے قابل بھی نہ رہے انہوں نے ق لیگ اور جہانگیر ترین کو کسی نہ کسی طرح قابو کرلیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ تحریک پیش ہونے کے بعد وہ دیکھے گی کہ کون زور ہے جو زور ہوگا اس کا ساتھ دے گی ایسی ہی بات جہانگیر ترین گروپ نے بھی کہی ہے سوچنے کی بات ہے کہ یہ کیا سیاست ہے جس کے کوئی اصول نہیں ہیں ق لیگ کی طرف سے ٹھینگا دکھانے کے بعد اپوزیشن وزیراعظم سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر غور شروع کردیا ہے تاہم حکمران جماعت کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن تحریک لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کا شوشہ جلد دم توڑدے گا البتہ بلاول اسلام آباد تک مارچ کا اعلان کرکے پھنس گئے ہیں پروگرام کے مطابق وہ جونہی پنجاب میں داخل ہونگے ان کا استقبال کانٹوں سے کیاجائیگا جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں گے تاکہ اسلام آباد تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے پنجاب پولیس کے علاوہ رینجرز کے پی کے اور آزاد کشمیر سے نفری بھی طلب کرلی گئی ہے حکومت کا ارادہ ہے کہ لاہور کا جلسہ نہ ہونے پائے یاحاضری اتنی کم ہو کہ پیپلزپارٹی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے لانگ مارچ کا اعلان کرکے زرداری نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے اگریہ مارچ ناکام ہوا تو حکومت کیخلاف تحریک نصف تو ویسے ہی ختم ہوجائے گی اگرجیالوں نے مزاحمت کی تو انکو اتنی مارپڑے گی کہ ضیاؤ الحق کا جبر بھی پیچھے رہ جائیگا کیونکہ اکیلے پولیس نہیں مارے گی بلکہ تحریک انصاف کے ”یوتھیالے“ بھی برابر کے شریک ہونگے اپوزیشن بھول گئی ہے کہ کوئی حکومت چاہے کتنے غیر مقبول کیوں نہ ہو اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اپنے جو ہر دکھائیں گے جبکہ تحریک کے کارکن جو آپے سے باہر ہیں اور اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے موقع کی تلاش میں ہیں وہ اپوزیشن کی کسی بھی مہم کو ناکام بنانے کیلئے کافی ہیں حکومت کی تمام تر ناقص کارکردگی اورمہنگائی کے طوفان کے باوجود تحریک انصاف کے وفادار کارکن کپتان کے ساتھ ہیں اور وہ ہر قسم کی کارروائی کیلئے تیار ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کو زبردست مار پڑے کیلئے تیار رہنا چاہئے اگر پارٹی کی تیاری نہیں ہے تو انہیں 1975ء کی طرح ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جوراولپنڈی میں نیب کوسامنا کرنا پڑا تھا اس تشدد اور بے رحمانہ کارروائی کے بعد نیپ پنجاب میں کبھی کوئی بڑاجلسہ نہیں کرسکی تھی اگر پیپلزپارٹی کو مارپڑے تو ن لیگ اور ق لیگ والے بھی دل ہی دل میں خوش ہونگے کیونکہ وہ ہیں تو انتخابی حریف اگر پارٹی کے مارچ میں تحریک انصاف اور طاہر القادری کی طرح بڑی بڑی کرین نہ ہوں تو کنٹینروں کو ہٹانے میں بڑی مشکلات پیش آئیں گی اگر تحریک انصاف نے کسی غیر قانونی مہم جوئی سے کام لیا تو اس کیلئے بھی اچھا نہ ہوگا کیونکہ جلوس جلوس کرنا اور ریلی نکالنا ہر کسی کا حق ہے جو حق عمران خان کو تھا وہی حق مخالفین کو بھی ہے اگر حکومت نے تشددکاسہارا لیا تو یہ عمل اس کیخلاف ایک بڑی کارروائی کے جواز کے طور پر پیش کیاجائیگا۔
ایک اور اہم بات اس سال ہونیوالی تقرری ہے جس کے بارے میں وزیراعظم نے رازداری کے ساتھ صلاح ومشورے شروع کردیئے ہیں امکانی طور پر یہ صلاح ومشورہ صدر عارف علوی سے کیا گیا ہے حتمی فیصلہ کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن ایک بے چینی اور خدشہ پیدا ہوگیا ہے زیادہ امکان یہی ہے کہ وزیراعظم قواعد اور روایات کے مطابق چلیں گے لیکن کوئی بعید نہیں کہ وہ اپنے طبع کے مطابق کوئی غیر متوقع فیصلہ بھی کرلیں اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے وزیراعظم کچھ بھی کرسکتے ہیں حتیٰ کہ ایک بہت بڑا جو بھی کھیل سکتے ہیں ان کی طاقت کا اندازہ بہت جلد پیپلزپارٹی کے مارچ کے دوران سامنے آجائیگا۔
اگر وہ مائل بہ تشدد ہوئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وزیراعظم غیر مرئی طاقت حاصل کرچکے ہیں اور اپوزیشن سے نمٹنے کیلئے انہیں کھلی چھٹی حاصل ہے لیکن غیر جمہوری اقدامات کا نتیجہ ہمیشہ زوال کی صورت میں نکلتا ہے اس سلسلے میں ایوب خان ضیاؤ الحق اور پرویز مشرف کی مثالیں سامنے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں