لاوا

تحریر: انورساجدی
میڈیا کی زبان بندی کو صرف ایک دن گزرا ہے لیکن اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف سخت زبان کا استعمال جاری ہے حکومت کی یہ گردان جاری ہے کہ اس نے آرڈیننس لا کر کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا جب فیلڈ مارشل (خودساختہ) ایوب خان نے 1963ء کا پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس جاری کیا تھا تو بھی وزراء نے اسی قسم کے بیانات دیئے تھے اس قانون کے نافذ ہونے کے باوجود لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی منسوخی تک اسے ظالمانہ آمرانہ کالے قانون کے نام سے پکارتے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں برسراقتدار آ کر ایوب خان کے کالے قانون کو منسوخ کیا تھا اور اس کی جگہ آر پی پی او کا نیا قانون جاری کیا تھا ایوب خان کے قانون کے مطابق اخبار کا ڈیکلریشن ڈپٹی کمشنر کے دستخط سے جاری ہوتے تھے لیکن اس کی منظوری ریاست کے صدر دیتے تھے فی زمانہ اگرچہ ایسا نہیں ہے لیکن 18 ویں ترمیم کے باوجود پرنٹ میڈیا پر اتنی قدغن ہے کہ اس کی اے بی سی، رجسٹریشن اور پریس کونسل کی فیس سب کچھ وفاق نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے نہ صرف یہ بلکہ حکومت نے اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بے رحمی کے ساتھ شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے پرنٹ میڈیا مہنگائی کے اس دور میں آئی سی یو میں پہنچ گیا ہے جہاں اسے آکسیجن بھی مسیر نہیں ہے اس پالیسی کا مقصد پرنٹ میڈیا کو اپنے منطقی انجام یا کیفر کردار تک پہنچانا ہے لیکن یہ ایوب خان، یحییٖ خان، ضیاء الحق اور مشرف کا دور نہیں ہے پرنٹ میڈیا بہت حد تک اپنی افادیت اور وقعت کھو چکا ہے ڈیجیٹل سونامی نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے جس کی بدولت سوشل میڈیا تباہی پھیلا رہا ہے اور حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ اس بلا کو کیسے کنٹرول میں لایا جائے کیونکہ سوشل میڈیا کو زندہ رہنے کیلئے اشتہارات کی ضرورت نہیں ہے ایک انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے آپ ہر مسئلہ پیش کر سکتے ہیں کسی بھی مخالف کو تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں بلکہ اتنی دشنام طرازی اور بدتمیزی سے کام لے سکتے ہیں کہ ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اس کے جو سنگین نتائج ہیں وہ بہت بھیانک ہیں کیونکہ امریکی کمپنیاں روئے زمین کے سارے انسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں یہی ڈیٹا اس وقت سب سے قیمتی جنس ہے وہ وقت گزر گیا جب تیل آٹو موبائل اور دیگر اشیاء کے برنس مین کھرب پتی ہوا کرتے تھے فی زمانہ امازون، فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر اور ویب مالکان ہی دنیا کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں۔
کارلوس سلم ہوں، بل گیٹ ہوں یا جیف بیروز ان کی دولت میں ڈیٹا کے ذریعے ہر روز اربوں روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے غریب مگر اسمارٹ فون استعمال کرنے کی بڑی منڈیوں میں ہوتا ہے یہاں سائبر کرائم اور ہتک عزت کے قوانین تو موجود تھے لیکن ان پر عملدرآمد مشکل تھا جن کے خلاف کارروائی ہوتی تھی وہ عدالتوں سے ریلیف لیتے تھے۔
عہد حاضر میں چونکہ پروپیگنڈے کا موثر ذریعہ سوشل میڈیا ہے اس لئے دو بڑے ممالک روس اور چین نے تمام انٹرنیشنل ایپس پر پابندی لگا کر اپنے لوگوں کیلئے مقامی ایپس بناڈالے اسی طرح ایران اور سعودی عرب نے بھی سخت ریگولیٹری قوانین کے ذریعے ڈیجیٹل سونامی کو قابو کررکھا ہے۔
پاکستان چونکہ کاغذوں پر یا آئین کی رو سے ایک جمہوری ملک ہے اس کے آئین کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے بلکہ یہ ریاست کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے آئین کی رو سے اعلیٰ عدالتیں بھی آزاد اور خودمختار ہیں اس لئے ایسے قوانین جو آئین سے متصادم ہوں انہیں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ آرڈیننس کے ذریعے ”پیکا“ کا جو قانون نافذ کیا ہے اسے سیاسی رہنماؤں اور میڈیا کی تنظیموں نے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے آرڈیننس تو ویسے بھی 90دن میں ختم ہو جاتا ہے البتہ اگر حکومت اس کا بل بنا کر پارلیمنٹ سے منظور کروائے تو یہ قانون مستقل شکل اختیار کر سکتا ہے لازمی طور پر حکومت یہی راستہ اختیار کرے گی پھر بھی سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہ ہو گا کیونکہ ہزاروں لوگ بیرونی ممالک میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کا استعمال جاری رکھیں گے اس لئے ان کا کھوج لگانا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا مشکل یا ناممکن ہو گا بے شک پاکستان میں مقیم لوگوں کے لئے پہلے کی طرح آزادی کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال ممکن نہیں رہے گا اس کا واحد طریقہ وہی ہے جو روس، چین اور ایران نے کر رکھا ہے اگر جناب عمران خان موجودہ ”شیم جمہوریت“ کو چھوڑ کر مکمل آمریت کی طرف مراجعت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سوشل میڈیا پر مکمل عائد کرنا ہوگی اس کے بغیر مخالفین کی طرف سے حکومت کو ہدف تنقید بنائے جانے کا سلسلہ بند نہیں ہو گا جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو وہ یقینی طور پر حالیہ نافذ کردہ دو قوانین کی مخالفت کرے گی لیکن یہ مخالفت بھی زبانی کلامی ہوگی عملی طور پر اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اگرچہ بلاول بھٹو نے حکومت کے خلاف اس ماہ کی 27تاریخ سے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے لیکن اس مارچ کے زیادہ اثرات مرتب ہونے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ مارچ کا جو واحد ایجنڈا ہے یعنی حکومت کو گرانا وہ واضع نہیں ہے پیپلز پارتی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ایک مارچ کے ذریعے حکومت کو کیسے گرا سکتی ہے ماضی میں کئی ایسے مارچ ہوئے لیکن وہ کسی بھی حکومت کو گرانے میں کامیاب نہ ہوئے اپوزیشن کی ابتک کی ناکامی کا ایک بڑا سبب اس کی صفوں میں ہم آہنگی اور اتحاد کا فقدان ہے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے باوجود اس کی سنجیدگی مشکوک ہے کیونکہ بظاہر اپوزیشن کو اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہے ایک اور وجہ طاقت کے عناصر کا کردار ہے اور لگتا نہیں کہ وہ فوری طور پر حکومت گرانے کے حق میں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 2008ء سے اب تک تسلسل کے باوجود جمہوریت دور دور تک نظر نہیں آتی سیاسی جماعتیں غیر منظم اور عوام کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہیں چونکہ بیشتر سیاسی جماعتیں موجودہ نظام کے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لئے وہ ایک حد سے آگے بڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
ریاست اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انقلاب فرانس سے قبل کے حالات سے ملتی جلتی ہے جب فرانس کے لوگ بھوک افلاس اور فاقوں کا شکار تھے لیکن پاکستان کی اپوزیشن انقلاب لانے اور بنیادی تبدیلی برپا کرنے سے خوفزدہ ہے اس میں جرات اور عوام کی رہنمائی کے اوصاف کا بھی فقدان ہے یہ جماعتیں ”اسٹیٹس کو“ برقرار رکھنے کی حامی ہین اور ان کا واحد مقصد مخالف کو ہٹا کر اقتدار کی باری لینی ہے کسی بھی پارٹی یا لیڈر کے پاس ایسا پلان نہیں ہے کہ ریاست جس بڑے بحرانوں کا شکار ہے اسے کیسے اس سے نکالا جائے بیشتر سیاسی جماعتوں کے پاس معاشی بحران کا متبادل حل بھی موجود نہیں ہے بادی النظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں کے پاس کوئی ہوم ورک نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ کوئی بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتیں لہذا سب کو موجودہ تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
اس وقت ریاست کا ایک بڑا مسئلہ ”فیک نیوز“ کو روکنا ہے لیکن یہ کام کیسے ہو گا کوئی نہیں جانتا کیونکہ فیک نیوز اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعے ریاست میں معاشرتی اور معاشی انارکی آ چکی ہے رفتہ رفتہ یہ مکمل انارکی میں تبدیل ہو جائے گی حکومت نے آمرانہ قوانین کے ذریعے صورتحال کو کنٹرول کرنے کا طریقہ نکالا ہے لیکن یہ کوئی موثر حل نہیں ہے اس سے اظہار رائے کی آزادی کچل کر رہ جائے گی اور لوگوں کے اندر پکنے والا لاوا مزید خطرناک ہو جائے گا اگر اپوزیشن حکومت کو ہٹانے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر کیا کر رہی ہے وہ بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کی تقویت کا باعث بن رہی ہے عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کا شوشہ چھوڑ رہی ہے اور رحم طلب نظروں سے اوپر کی جانب دیکھ رہی ہے اب جبکہ عام انتخابات میں سوا سال کا عرصہ باقی ہے پارلیمنٹ سے چمٹے رہنے کا کیا فائدہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن اور تمام اسٹیک ہولڈر سیاست اور اقتدار کے ایک ہی مدار میں محو گردش ہیں اور ریاست میں مکمل جمہوریت آنے کا مرحلہ ابھی دور ہے اور کافی دور ہے۔
جس طرح ریاست معاشی میدان میں پیچھے رہ گئی ہے دنیا میں برپا ہونے والے ڈیجیٹل انقلاب کو اپنے حق میں استعمال کرنے سے بھی قاصر ہے 25کروڑ کی ریاست قرضوں امداد یا گرانٹ پر کب تک چل سکتی ہے کسی کو اس کی پروا نہیں ہے ان کے پاس مستقبل کا کوئی وژن نہیں ہے وہ پس دیوار دیکھنے اور حالات کے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں سارے لوگ حتیٰ کہ حکمران معجزوں کے انتظار میں دست بدعا ہیں کوئی تیر بہ ہدف علاج یا مداوا نہیں ہے پرنٹ میڈیا کو قتل کرنے یا الیکٹرانک میڈیا کو آختہ کرنے سے مسائل توحل نہیں ہوں گے اس سے حکومت کے عیب یا خامیاں چھپی رہیں یہ ممکن نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں