جواد ززرکزئی کاوزیراعلیٰ و چیف سیکرٹری بلوچستان کے نام کھلا خط

عنوان: بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں اصلاحات:-
اسلام علیکم!
امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔
محترم وزیراعلیٰ و چیف سیکرٹری صاحب!
آپ کو بخوبی علم ہے کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن ہمارے صوبہ کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے۔ اسی ادارے سے ہماری گورنمنٹ کی مشینری تعینات ہوکر آتی ہے۔ لیکن یہ ادارہ خود اب زنگ آلود ہوگیا ہے۔ اس کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ جدید دور کے تقاضوں پر پورا اتر سکے اور صوبے میں قابل و ذہین افسران کی بھرتی ممکن ہوسکے۔ بی پی ایس سی میں اصطلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پچھلے سال جو ترمیمی بل اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہوا ہے وہ بالکل نا مکمل و ناکافی ہے۔ اس سے ادارے میں نا تو میرٹ کی بحالی ممکن ہے اور نہ امتحانات میں رٹہ سسٹم کو ختم کیا جا سکتا۔
پچھلے ادوار میں ہمیشہ سے اس ادارے اور اسکے چیرمین ممبران اور سیکرٹری پر کرپشن و نااہلی کے الزامات لگے چکے ہیں اور انکی کارکردگی کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا ہے اور کئی کیسز عدالتوں انصاف کے منتظر ہیں یا تو روایتی طور طریقے سے معاملہ نمٹایا گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں سابقہ چیئرمین اور ادارے پر پی سی ایس 2018 کا کیس سپریم کورٹ میں دائر ہے۔ ایسے شرمناک چیزوں اور روٹ لرننگ سے اس ادارے کو پاک کرنے کیلئے مندرجہ ذیل اصلاحات کو یقینی بنا کر پورے صوبے پر احسان عظیم کریں۔
میرے محترم!
چونکہ اب چئیرمین بھی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں تو نئے چیئرمین کی تعیناتی سے ہی شرع کرتے ہیں۔چیئرمین، سیکرٹری اور ممبران کی تعیناتی سب سے اہم مرحلہ ہے۔ اس کو شفاف رکھنے کیلئے غیر سیاسی بنیادوں پر ایسے افراد کا چناؤ کیا جائے جن کی کیریئر میں کبھی انکی یمانداری یا قابلیت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا ہو۔ کمیشن کے ممبران کی تعداد کم از کم ساتھ سے آٹھ ہونی چائیے اور انکی سلیکشن غیر سیاسی بنیادوں پر ہو تاکہ یہ کسی کے دباؤ میں آکر نالائق و سفارشی لوگوں کو بھرتی نہ کریں۔اور اگر دوران سروس چیئرمین یا کسی ممبر پر امیدواروں کی طرف سے سوال اٹھے تو اسکی جوڈیشنل انکوائری ہو تاکہ ادارے میں شفافیت پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو۔موجودہ سیکریٹری بی پی ایس سی کو فوری ہٹا کر(PAAS) یا بی سی ایس/ بی ایس ایس (BCS/BSS) گروپ سے کسی کو سیکرٹری تعینات کریں کیونکہ موجودہ سیکرٹری میڈم کے دور میں ادارے کی سیکریسی بہت کمپرومائز ہوئی ہے اور میڈم کی بدولت ہی ادارے میں اسٹینو تعینات ہونے والے ملازم پورے صوبے کے ٹاپر نکل آتے ہیں۔ یاد رہے یہی میڈم اشرف مگسی کے وقت بھی سیکرٹری تھی اور پی سی ایس 2018 بھی اسکی کے نگرانی میں ہوئی۔موجودہ تین ممبران کو بھی کوہلی صاحب کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے کیونکہ پچھلے تین سالوں سے انکی کارکردگی پہ بھی بہت سے اعتراضات محفوظ ہیں۔دوسرے صوبے سے دو ممبران پر مشتمل ایک ایسی سرویلینس ٹیم ہر دو سال کیلئے تعینات ہو جو ادارے کے تمام افسران و اسٹاف کی کارگردگی پر نظر رکھے تاکہ کسی کو بھی کمیشن میں کرپشن کرنے کا سوچے بھی نہیں۔جیسے دوسرے صوبوں نے پی سی ایس (PCS) کو پی ایم ایس(PMS)میں تبدیل کر دیا ہے، ویسے ہی بلوچستان میں بھی پی ایم ایس لاگو کیا جائے۔ اس سے ادارے اور امیدوار دونوں کیلئے آسانیاں ہونگیں۔ تمام پوسٹس کے لئے جیسے کہ اسسٹنٹ کمشنر، سیکشن آفیسر، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز، چیف آفیسرز، ایکسائز و ٹیکسیشن آفیسر وغیرہ کیلئے ہر سال ایک مقرر وقت پر ایک ہی امتحان لیا جاتا ہے۔ اس سے نہ ادارے پر ورک لوڈ زیادہ ہوتا ہے نہ امیدواروں کیلئے کوئی مسئلہ۔ تمام پوسٹوں کیلئے جامع پالیسی مرتب کرکے نصاب جاری کیا جائے۔ امیدواروں کی بدقسمتی اور کمیشن کو چلانے والے افسران کی نااہلی دیکھیں کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن وہ واحد ادارہ ہے جس میں اتنے بڑے انتظامیہ پوسٹوں کیلئے بہت سارے سبجیکٹس کا ابھی تک آفیشل سلیبس (نصاب) نہیں ہیں۔سب سے اہم چیز سلیبس کے حوالے سے یہ ہونی چاہئے کہ رٹہ سسٹم کو بالکل ختم ہونا چاہیے۔ سلیبس اتنا جامع ہو کہ امیدواروں کی ذہنی صلاحیت کو انکے خیالات سے جانچنا چاہیے۔ مثلاً یہ سوال کہ جب 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کیا جارہا تھا تو اسٹیج پر کرسیاں کتنی تھی کو اگر اس سوال میں تبدیل کیا جائے کہ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کرنے میں ایک اہم وجہ مسلمانوں کو لیکر کانگریس کی متعصبانہ رویہ تھی۔ اس جملے کا تقابلی جائزہ لیا جائے اس سے امیدواروں کی ذہنی صلاحیتوں کو اچھے سے جانچا جا سکتا ہے۔ تمام مضامین کے سلیبس کو دور جدید کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے تا کہ روٹ لرننگ ختم ہو۔
محترم وزیراعلٰی و محترم چیف سیکرٹری!
انتظامی پوسٹوں کی تحریری امتحانات کیلئے نگران امتحان(invigilators) دوسرے صوبوں سے لایا جائے یا اگر بلوچستان سے لایا جاتا ہے تو انھیں کوئی بھی الیکٹرانک ڈیوائس موبائل وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے۔ کیونکہ سابقہ چیئرمین کے دور میں امتحانات بہت متنازعہ رہے اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کچھ نگران امتحان امیدواروں کو نقل دیتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ امتحانات کیلئے پرچہ بنانے اور چیک کرنے والے اگزامنرز بھی باہر صوبے سے ہو تاکہ اس عمل میں بھی شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔بی پی ایس سی کے تحت امتحانات میں سیٹنگ ارینجمنٹ کا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ اس مسئلے کو بھی مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے تا کہ امیدوار آرام سے بیٹھ کر اپنا پرچہ حل کر سکیں۔ جب بھی اگر کسی امیدوار کو اپنے کسی پرچہ میں کم نمبر ملنے یا غلط چیکنگ کا شبہ ہو تو ایسے امیدوار سے بیشک فی پرچہ دس ہزار فیس لیا جائے لیکن اسکے پیپر کو دوسرے کسی پروفیسر سے ری چیک کرنے کی اجازت دی جائے۔ ری چیک کیلئے زیادہ فیس رکھنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہر شخص یہ مطالبہ نہیں کریگا کہ اسکا پیپر ری چیک کیا جائے اور اگر کوئی سنجیدہ امیدوار یہ مطالبہ کرتا / کرتی ہے تو اسے خود پر اتنا یقین ہو کہ دس ہزار دے کر اپنے پرچہ کو ری چیک کروا رہا ہے۔تمام امتحانات میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگایا جائیں اور ریکارڈنگ بھی محفوظ کر کے رکھا جائے اس سے امتحانات کے شفافیت پر کوئی سوال نہیں اٹھائے گا۔
جناب!
بلوچستان پبلک سروس کمیشن وہ واحد ادارہ ہے جو سلیکٹ ہونے والے امیدواروں کی ڈی ایم سی پبلک نہیں کرتا۔ اس سے کسی کو پتا نہیں چلتا کہ کون کتنے نمبروں سے پاس ہوا ہے اور کس انٹرویو میں کتنے نمبرز ملے ہیں۔ایسی چیزیں ادارے کی کارکردگی کو مشقوق بناتے ہیں۔ اور پھر فیل ہونے والے امیدواروں سے دو سو روپے فیس لے کر انکے ڈی ایم سی آویزاں کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو بھی فوری روکا جائے اور فیل ہونے والے امیدواروں کو انکے دیئے گئے مطلوبہ ایڈریس پر بھیجا جائے یا ادرے کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے جیسے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کرتا ہے۔یہ وہ واحد ادارہ ہے جس میں انٹرویوز کے نام پر امیدواروں سے مذاق کیا جاتا ہے انٹرویو کا مقصد ہوتا ہے امیدوار کی شخصیت، لیڈرشپ و کمیونیکیشن اسکلز کو جانچنا حاضر دماغی کو چیک کرنا امیدوار کی ذہنیت کو پڑھنا کے کس قسم کا انسان ہے۔ لیکن شومئی قسمت بی پی ایس سی انٹرویوز صرف اس لئے کنڈکٹ کرواتی ہے کہ امیدواروں کے رٹہ پاور کو چیک کیا جاسکے۔اس رٹہ سسٹم کو بالکل ختم کرکے امیدواروں کی نفسیاتی ٹیسٹ لینے کے بعد مندرجہ بالا طریقے سے انٹرویو لیا جائے جیسے دوسرے صوبوں و وفاقی پبلک سروس کمیشن میں لیا جاتا ہے۔اور انٹرویوز کو شفاف بنانے کیلئے امیدواروں کے ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہونی چاہیے تاکہ کسی امیدوار کو یہ نا لگے کہ انٹرویو کے بعد حق تلفی کا شکار ہے کیونکہ اسکا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔
میرے محترم!
مجھے امید ہے آپ بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں ان اصطلاحات کو یقینی بنا کر اگلے چیئرمین، ممبران و سیکریٹری کی تعیناتی کو یقینی بنا کر صوبے کے اس اہم ادارے کو فعال کرینگے۔
وسلام۔
جوادزرکزئی خضدار بلوچستان

اپنا تبصرہ بھیجیں