نقش آب کی ناخواندگی۔۔

تحریر: راحت ملک
پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کے حاشیے پر موجود نامزد شدہ وزیراعظم نے جیسے ہی ماسکو کی سرزمین پر قدم رنجا فرمایا۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرائن پر فوجی دھاوا بول دیا۔ جو قطعی طور پر غیر متوقع یا اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا۔ رواں صدی کی پہلی دھائی سے شروع ہوا یوکرائن کا بحران جس نہج پر پہنچ چکا تھا۔کشیدگی کی بلندتر سطح پر روس کے پاس درپیش حالات سے نمٹنے کیلئے واحد لیکن قابل مذمت رستہ یہی بچا تھا کہ وہ جارحیت کا ارتکاب کرکے معروضی زمینی صورتحال میں بنیادی تبدیلی پیدا کردے شاید شاطر اور ذہین منصوبہ ساز روسی صدر پیوٹن منتظر تھا کہ جارحیت کے آغاز میں دنیا کا کوئی ایسا سربراہ اس کے ملک میں موجود ہو۔ جو کچھ اسباب کی بناء پر اہمیت رکھتا ہو۔پاکستان جنوب ایشیا میں ایک اہم عسکری اور نیوکلیائی قوت کا حامل ملک تو بہر طور ہے۔لہٰذا وزیراعظم پاکستان کی ماسکو آمد پر ان نے پرتپاک خیر مقدم کرتے ہوئے روسی افواج نے یوکرائن پر جنگ مسلط کردی دونوں واقعات کے درمیان باہمی نسبتی تعلق کا اندازہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان اور جرمن وزیر خارجہ کے بیانات ہیں ثانی الذکر نے بڑی شائستگی کے ساتھ آج 25فروری کے بیان میں وزیراعظم کے دورہ روس کو یوکرائن پر حملے کے ساتھ بریکٹ کردیا ہے جبکہ وزیراعظم کے دورے کے آغاز پر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ
” یوکرائن سے متعلق روسی عزائم اور امریکی خدشات وپالیسی کے متعلق پاکستان کو آگاہ کردیا گیا ہے”۔امریکیوں نے توقع ظاہر کی ضرورت تھی کہ ” پاکستان ایک ذمہ دار جمہوری ملک کے طور پر کسی آزادملک ہر جارحیت کی مذمت کرے گا یا اس کی حمایت کے تاثر پیدا ہونے سے اجتناب روا رکھے گا۔”
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اسلام آباد نے دورہ روس کیلئے مخدوش اور متنازعہ حالات کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ قیاس غالب ہے کہ دورہ سے قبل چین کی حکومت کے ساتھ باہمی مشاورت کی گئی ہوگی جو دورہ کرنے کے فیصلے کا موجب بنا تاہم یہ نقطہ بھ بہت بنیادی ھے آخری وقت پر دورء کا التوا بھی نقصان دہ ثابت ہوتا۔ لگتا ہے خارجہ پالیسی کے خدوخال طے کرنے والے صورتحال کا صحیح اور ممکنہ مضمرات کا جائزہ لینے سے قاصر رہے ہیں سی طرح چین کی آشیرواد سے خارجہ تعلقات کا رخ مرتب کرنا بھی قابل افسوس پہلو ہے۔ تاہم چونکہ چین روس کی سفارتی سطح پر بالواسطہ حمایت کررہا تھا تو وہ جنگ کی حمایت سے بھی گریزاں رہا ہے مگر اس حملے کو باجواز بھی سمجھ رہا ہے چینی حکام یوکرائن کے بحران کو سفارتی ذرائع وگفت وشنید سے حل کرنے میں مغرب کے سرد مہر رویے اور گریز پائی کو حملے کا جواز سمجھتا ہے تو ممکن ہے چین کی خواہش‘ رضا مندی یا خوشنودی مخلوط رکھتے ہوئے اسلام آباد نے 23فروری کو ماسکو جانے کا اٹل فیصلہ کیا ہو۔!!!
ماسکو سے واپسی کے بعد وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے آج پریس بریفنگ میں بتایا ہے کہ ماسکو جانے سے قبل وزیراعظم آفس میں دورے کے جزیات عوامل و عواقب پر غوروخوض کیا گیا تھا انہوں امریکی توقع کو معصومانہ سوال اور پاکستان کے انکار کو مودبابہ جواب قرار دیا ھے اس بیاں سے سطور بالا میں بیان کردہ قیاسات کی تائید ہوتی ہے یقیناً وزیراعظم آفس میں ہوئی بیٹھک میں دورے کے اغراض ومقاصد کا تعین بھی ہوا ہوگا بحران کی شدید نوعیت کا، مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات کے پس منظر میں اس کے امکانات،خدشات وثمرات کا مکمل و مفصل تجزیہ کیا گیا ہوگا۔چنانچہ جناب شاہ محمود قریشی کے بیان نے واضح کردیا ہے کہ حالیہ دورہ باضابطہ خارجہ پالیسی کا ایک اہم مرحلہ تھا۔روس کے ساتھ دوستانہ سفارتی روابط بڑھانا
دوطرفہ اقتصادی تجارتی تعاون کو وسیع کرنا بہت ہی مثبت اور قابل قدر سوچ ہے تو بھی اس پر عمل کے لئے نامناسب وقت کا انتخاب ناقابل فہم ہے جبکہ روس اور مغربی بلاک کے بیچ کشیدگی تناؤ سرخ لکیر چھورہی تھی
یہ قابل فہم تھا کہ روسی اقدام کے رد عمل میں مغرب و نیٹو جنگ میں نہیں کودیں گے کیونکہ وہ اس طرح کی مہم جوئی کے نقصانات ومضمرات سے بے خبر نہیں ہوسکتے البتہ غیر عسکری ردعمل سامنے آنا نوشتہ ٍ دیوار تھا، کیونکہ سرمایہ دار مغرب اور سرمایہ دار مشرق (روس) کے درمیان فوجی تصادم کا میدان جنگ یوکرائن یعنی مغرب بننے جارہا ہو تو مغربی بلاک ایسی جنگ کے بھیانک اور تباہ کن اثرات کی وجہ سے سے صرف نظر کرنے پر مجبور ہو کر رہ جائے گا۔ پیوٹن نے بھی فیصلہ کرنے میں مغرب کے ردعمل کی حدود و نوعیت کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے یوکرائن کی زمینی فضائی اور سمندری حدود میں حملہ کا فیصلہ ومنصوبہ بندی کی ہوگی لیکن حملہ کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کسی خاص موقع تک موخر رکھا ہوگا اور وزیراعظم پاکستان نے کشیدگی کے ماحول میں ماسکو پہنچ کر اسے یہ موقع مہیا کردیا۔
جن توقعات اور امیدوں کی بنیاد پر ماسکو جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا دورے میں ان کی پیشرفت پر بات چیت ضور ہوئی ہوگی روسی قیادت نے امیدیں دلائی ہیں انہیں ادراک ہوگا کہ ان پر عملدرآمد ممکن نا ہوگا، روسی حملے کے عالمی اور مغربی بلاک کے جوابی اقدامات نے روسی وعدوں اور اسلام آباد کی توقعات پر پانے پھیر دیا ہے روس سے مالی معاشی تعاون اور مختلف شعبوں بالخصوص توانائی میں سرمایہ کاری کا حصول عالمی سطح کی اقتصادی پابندیوں کے بعد ناممکن ہوگیا۔ کم از کم اس قضیہ کے حتمی حل تک مغرب عسکری جارحیت کے خلاف اپنی اقتصادی طاقت بروے کار لایا ہے یہ اقدام تنازعہ کے فریقین پر جتنے منفی معاشی اقتصادی اثرات مرتب کرے اس سے کئی گنا زیادہ کمزور معیشت والے ترقی پزیر ممالک متاثر ہونگے۔
جنگ کے بعد مغربی دنیا کے غیر عسکری ردعمل کے تناظر میں پاکستان کے مطلوبہ فوائد کا عملی حصول مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔ دورے سے قبل اس پہلو کو نظر انداز کردینا سفارت وخارجہ تعلقات کی نزاکتوں سے مکمل لاعلمی یا تغافل کے زمرے میں آتا ہے۔جناب شاہ محمود قریشی25فروری کو بھی اس خوش امیدی میں مبتلا نظر آئے کہ دورے کے نتیجے میں روس توانائی کے شعبے میں اور بالخصوص گوادر بندر گاہ پر ٹرمینل کے قیام اور دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کرے گا۔جبکہ مغرب جاپان اور دیگر عالمی معاشی قوتوں نے روس پر جو معاشی قدغنیں عائد کی ہیں ان کے بعد روس اور پاکستان کے درمیان معاشی تجارتی باہمی تعاون ممکن ہی نہیں رہا اس حوالے سے ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن منصوبے کی مثال موجود ہے۔امریکی پابندیوں کے باعث بھارت نے منصوبے پر عمل نہیں کیا تو خود پاکستان نے بھی ایرانی سرحد سے آگے گیس پائپ لائن بچھانے کا اپنے حصے کا کام انجام نہیں دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ دفاعی محکمے نے اس صورتحال میں دورے کے بارے کیا کردار ادا کیا ہے؟جو قومی دفاع اور خارجہ پالیسی پر اپنے نقطہ نظر کے مطابق مکمل گرفت رکھتا ہے؟
ممتاز اطہر نے کہا تھا۔
پڑھا گیا نہ کسی سے جو نقش ٍ آب تو پھر!!!
جناب شاہ محمود فرماتے ہیں کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا اسی کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مارچ22میں بیجنگ میں افغان مسئلہ پر ہمسائیہ ممالک کی کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ بھی شریک ہونگے۔۔کیا یہ کانفرنس ایک نئے بلاک کی بنیاد نہیں بننے جا رہی؟
روسی جارحیت اگلے چند دن جاری رہے گی یوکرائن مفتوحہ ملک بن جایے گا تو روس وہاں اپنی من پسند حکومت قائم کرکے اپنی فوجوں کے انخلاء کے مغرب سے مشروط بات چیت کرے گا وہ یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت ناممکن بنا دے گا یہی اس قضیے کا آخری نتیجہ ہوگا مغرب اس کا جلد حصول چاہے گا تاکہ روسی گیس اور توانائی کی معطل سپلائی بحال ہو۔ تو روس بھی اقتصادی پابندیوں کے فوری خاتمے کا خواہش مند ہوگا۔ یوں سرمایہ داری دو مختلف حلقوں کے بیچ ہونے والی حالیہ جنگ چھوٹے ممالک کی اقتصادیات تباہ کرکے ختم ہوجائے گی۔