جوکروں کاتماشہ

تحریر: انورساجدی
اس خطے میں حالات انتہائی گھمبیر ہیں لیکن پاکستان میں غیر سنجیدگی اور مسخرہ پن عروج پر ہے امکان یہی تھا کہ جب وزیراعظم روس کے ناموافق دورے سے واپس آئیں گے تو ان پر تنقید ہوگی کہ انہوں نے روس اور یوکرین کی صورتحال کا ادراک کئے بغیر کیسے ماسکو کا دورہ کیا۔
جب پوٹن نے ملاقات موخر کی تھی تو خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ملاقات منسوخ نہ ہوجائے کیونکہ پوٹن اس وقت جنگ کے کنٹرول روم میں تھے حکومت کو شکر کرنا چاہئے کہ وہ بہت بڑی بے عزتی سے بچ گئی وزیراعظم کے دورہ روس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود کو کسی تاریک کمرے میں چھپ جانا چاہئے تھا لیکن وہ پیپلزپارٹی کیخلاف ایک مارچ کی قیادت کرتے ہوئے حملہ آور ہیں قریشی صاحب67سال کے ہوگئے لیکن بچپنا ابھی تک نہیں گیا شکارپور میں انہوں نے نعرہ لگایا کہ
تیر کو ہٹانا ہے
سندھ بچانا ہے
دوسری طرف اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کرتے ہوئے بلاول نے جوابی نعرہ لگایا ہے کہ عمران خان کو بھگانا ہے پاکستان کو بچانا ہے حالات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نہ شاہ محمود کے مارچ کا کوئی مقصد ہے اور نہ بلاول کا مارچ کوئی مقصد رکھتا ہے ایک دوسرے پر پریشر ڈال کر آئندہ انتخابات کی مہم کا آغاز اسی کو کہاجاسکتا ہے۔
ریحام خان نے ایک شرارتی ٹیوٹ میں کہا ہے کہ کیا پتہ کہ وزیراعظم کو جانے سے پہلے یہ پتہ نہ ہو کہ روس اور یوکرین ہمساہ ہیں اور ان کے درمیان جنگ ہونے والی ہے
ان کا اشارہ وہ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم کی جانب سے جاپان اور جرمنی کوہمسایہ قرار دینے کی طرف تھا۔
پاکستانی اپوزیشن حکومت پر دباؤ تو بڑھارہی ہے لیکن وہ اپنے اندر موجود اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کررہی ہے گزشتہ ہفتہ جب زرداری نے چوہدری برادران سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی جائے میاں شہبازشریف بھی یہ مطالبہ تسلیم کرنے پر آمادہ تھے لیکن اچانک میاں نوازشریف کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا کہ ہم یہ مطالبہ اس صورت میں تسلیم کریں گے جب پرویز الٰہی فوری طور پر اسمبلی توڑدے انہوں نے سوچا نہیں کہ پرویز الٰہی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو وہ صرف 3ماہ کیلئے وزارت اعلیٰ قبول کرے ضرور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ باقیماندہ مدت وزیراعلیٰ کے طور پر گزاریں ورنہ انہیں کیا ضرورت کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت گرادیں جس کا کہ وہ حصہ ہیں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی مخالفت شاہد خاقان عباسی نے شدت کے ساتھ کی اور امکانی طور پر ان کا مقصد یہ ہے کہ شہبازشریف مختصر مدت کیلئے وزیراعظم نہ بنیں تاکہ ن لیگ آئندہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے یہی شاہدخاقان تھے کہ انہوں نے پی ڈی ایم تڑوادیا تھا اوراب وہ تحریک عدم اعتمادکو ناکام بنانا چاہ رہے ہیں حالانکہ سیاست کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے اگر کوئی فریق لچک پیدا نہیں کرتا اور اپنی بات پر اڑا رہتا ہے تو فریق مخالف سے اسکا لین دین کیسے کامیاب ہوسکتا ہے۔
شہبازشریف اور زرداری ایک پیج پر ہیں اور چھوٹے میاں صاحب کو اس لئے جلدی ہے کہ حکومت انہیں جلد جیل بھیجنا چاہتی ہے ان کی کوشش ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کسی بھی صورت کامیاب ہوجائے تاکہ ان کی گرفتاری کی نوبت نہ آئے دریں اثناء شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ زیادہ دوڑ دھوپ کی ضرورت نہیں جس دن اشارہ آجائیگا
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی اسی طرح کی بات بلاول نے کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ایمپائر نیوٹرل ہیں اس لئے تحریک کی کامیابی کا امکان ہے لیکن اپوزیشن کو بدقسمتی نے گھیرا ہوا ہے۔جہانگیر ترین تحریک کی حمایت پر تیار ہوگئے تھے لیکن کم بخت ”کینسر“ نے انہیں لندن جانے پر مجبور کردیا پیچھے ان کے گروپ کو اکٹھا رکھنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے پاکستانی دستور کے مطابق جہانگیر ترین کے سفر لندن کے بارے میں سازشی تھیوریاں چل رہی ہیں اور کہاجارہا ہے کہ وہ میاں نوازشریف سے خفیہ ملاقات کرنے گئے ہیں حالانکہ انہیں معدہ اور جگر کا عارضہ لاحق ہے اسی لئے ڈاکٹروں نے انہیں ایئرایمبولینس کے ذریعے جانے کا مشورہ دیا یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جب بیگم کلثوم نوازبستر مرگ پر تھی تو تحریک انصاف کے لیڈر اور چوہدری اعتزاز احسن یقین کرنے کو تیار نہ تھے ان کی میت آنے کے بعد اعتزاز احسن نے معافی مانگی تھی بہر حال جہانگیر ترین کا اچانک جانا تحریک عدم اعتماد کو نقصان پہنچائے گااسی طرح ن لیگ نے چوہدری برادران کو مجبور کیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ رہیں غالباً انہیں بھی کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔اپوزیشن کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ زرداری نے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے اورانہوں نے ق لیگ اور جہانگیر ترین گروپ کے بغیر گنتی پوری کرلی ہے لیکن اس بات میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی البتہ وفاقی وزراء ضرور کہہ رہے ہیں کہ زرداری نے گھوڑوں کی خریدوفروخت شروع کردی ہے۔
بہرحال اپوزیشن کچھ بھی سوچے کچھ بھی کرے اگر وہ تحریک عدم اعتماد لانے میں ناکام رہی یا یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی تو اس کی کمر ٹوٹ جائیگی اور اسے آئندہ انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا۔سواسال کے بعد یہ وزیراعظم کی مرضی ہے کہ وہ ٹھیک پانچ سال بعد عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے یا اس سے پہلے اگر اپوزیشن میں جان ہوتی تو وہ عوامی طاقت یااسمبلیوں سے استعفوں کے ذریعے حکومت کو چلتا کرسکتی تھی لیکن اس میں کوئی دم خم نظر نہیں آتا انہوں نے اسلام آباد تک مارچ بھی الگ الگ رکھے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں اپوزیشن ہو یا حکومت سب اوپر کی جانب اشارے کے منتظر ہیں یہ ہے پاکستانی جمہوریت کا انجام طویل تسلسل کے باوجود اس کی مضبوطی اور استحکام دور دور تک دکھائی نہیں دیتی اپوزیشن کی غیبی امداد اس وقت ہوسکتی ہے جب وزیراعظم وقت سے پہلے اہم تقرری کا فیصلہ کریں یہ ہم پر لات مارنے والا قدم ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے وقت سے پہلے تبدیلی آسکتی ہے لیکن اگر تبدیلی آبھی جائے تو ملکی حالات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا معیشت بد سے بدتر ہوجائیگی مہنگائی کے طوفان کو آنے والی حکومت بھی قابو میں نہیں لاسکے گی۔کیونکہ عالمی صورتحال خراب ہے اگرروس اور مغربی طاقتوں کے درمیان یوکرین کے مسئلہ پر کشیدگی برقرار رہی تو پاکستان نہ تین میں ہوگا اور نہ تیرہ میں مغرب کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملے گی بلکہ خطرہ لاحق ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف کہیں سخت اقدامات نہ اٹھالے اور بات پابندیوں تک جانہ پہنچے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا امکان ہے جبکہ روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا جو نیا دور شروع ہونے والا ہے اس سے اقتصادی کساد بازاری میں اضافہ ہوگا اور پاکستان جیسے معاشی اعتبار سے کمزور ملک ضرور زد میں آئیں گے یوکرین کا مسئلہ دیر تک چلے یا جلد ختم ہوجائے اس کا معاشی فائدہ چین اٹھائے گا۔اگر امریکہ نے یوکرین کو بچانے میں کامیابی حاصل نہیں کہ تو نیتو کا اتحاد غیر موثر ہوجائیگا جبکہ امریکہ کا عالمی رسوخ مزید کم ہوجائے گا یہ تو معلوم نہیں کہ پوٹن کیاچاہتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ وہ کریمیا میں واقع بلیک سی کا نیول اڈہ کبھی نہیں چھوڑیں گے اور وہ خطہ اور خاص طور پر بالٹک سی میں اپنے گھیراؤں کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے ہوسکتا ہے کہ بالآخر یوکرین سرنڈر کردے لیکن 100گھنٹوں کے دوران اس کی فوج اشرف غنی کی فوج کی طرح دم دباکر نہیں بھاگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں