بلوچ کلچرل ڈے اور تہذیبی ورثے کی زبوں حالی

تحریر:محمد صدیق کھیتران
مشترکہ قدروں کو سادہ الفاظ میں کلچر کہا جاتا ہے۔اس طرح یہ کسی بھی نسلی گروہ کی طرز زندگی تشکیل کرتی ہے اور آگے بڑھ کر مشترک طرزحیات تخلیق کرنے کا موجب بنتی ہے۔اپنی بناوٹ میں انسانی معلومات، خوداعتمادی، میعار اور برتاو ترتیب دیتی ہے۔جو انفرادی کردار، اقدار، اخلاقیات، اور رواج کے متعلق فرد کو چوکس رکھتی ہے۔ یہ خصوصیات کا ایسا مجموعہ ہے جو عقائد، سماجی اصولوں اور نسلی پس منظر کو متعلقہ خطے کی اشتراکی قدروں میں ڈھال دیتا ہے۔گویا کسی بھی خطے کی ترقی اور نظم و ضبط کو تشکیل دینے میں بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔لہذا اقدار، اصول، عصبیت، سماجی اثر اور انسانی عمل وکردار کی بناوٹ کلچر کے مرہون منت ہے۔گروہ کے عملی کردار سے ثقافتی میعار کا تعین ہوتا ہے وہی معاشرہ ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو ان ثقافتی روایات و عقائد اور عملی کردار کو باہم اشتراک سے قبولیت بخشتے ہیں۔ان رویوں، خیالات، اصولوں اور عمل سے جب ایک معاشرہ سانجھے داری کر لیتا ہے تو پھر اس کو وراثت کے طورپر اپنی آئیندہ نسلوں میں منتقل کرتا ہے۔آج کے دور میں اچھا اور برا کلچر محلوں سے لیکر سرکاری محکموں اور تنظیموں کے اندر تک اپنی اپنی جڑیں پھیلاتا ہے جو یقیننا ان سے جڑے تمام لوگوں کے کردار کوتشکیل کرتا ہے۔کلچر کے چند بنیادی عناصر مندرجہ ذیل ہیں
1 اصول جوکہ عموما” غیر رسمی، بے تکلف اور غیر تحریر شدہ ہوتے ہیں مگر یہ پورے سماجی رویوں کو چلاتے ہیں۔2 زبانیں‘3 میلہ جات‘4 رسومات اور تقریبات‘5 فرصت کے لمحات گزارنے کے طور واطوار‘6 کھیل کود اور ان کے قوائد‘7 خوراک اور اس کے پکانے کے طریقے‘ 8 نئی و پرانی تعمیرات
کوئی بھی معاشرہ بغیر کلچر کے وجود ہی نہیں رکھتا کیونکہ خیالات کا مجموعہ،اصول اور کردار کا عملی اظہار معاشرہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں جاری رکھتا ہے۔ثقافتی دن اور میلے قدیم دور سے متحرک قومیں مناتی چلی آرہی ہیں۔مثلا” جشن نوروز مارچ کے مہینے میں پورے فارسی بولنے والے ملکوں میں منایاجاتا ہے۔بیساکھی (بسنت) کا میلہ اپریل کے مہینے میں فصل کی پکائی اور بدھ مذہبی پیشوا کے یوم پیدائش کو یکجا کرکے پورے برصغیر، تبت، تھائی لینڈ، چین،سری لنکا، حتء کہ منگولیہ وغیرہ تک میں منایا جاتا ہے۔
پشتون کلچر ڈے 23 ستمبر کو اور سندھی کلچر ڈے ہرسال دسمبر کی پہلی اتوار کو منایا جاتا ہے۔اسی طرح پچھلے کئی سالوں سے ہرسال 2 مارچ کو بلوچ خطوں خصوصا” ایران، افغانستان، بلوچستان بشمول کراچی، جیکب آباد، راجن پور،ڈیرہ غازی خان اور مشرق وسطئی میں ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ موجودہ پیچیدہ عالمگیریت کے دور میں ثقافتی جشن دوسرے ہم عصر ثقافتوں کیلے وسعت کے دروازے کھولتے ہیں۔ یہ مشترکہ مقاصد اور ان کو حاصل کرنے کیلئے اتفاق پیدا کرتے ہیں۔رواج اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آگاہی دیتے ہیں۔یہ اپنے اجداد کے عظیم ورثے اور روایات کو بیان کرنے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔اس دن بلوچ نوجوان اپنا ثقافتی لباس زیب تن کرتے ہیں۔اور یوں اپنے آس پاس کی دنیا کو اپنے قیمتی ورثے سے روشناس کراتے ہیں۔اپنی خوداعتمادی
کو 9,000 سالہ قدیم تہذیب مہرگڑھ کے آثار سے جوڑتے ہیں۔اس دن نوجوان بغیر کسی سماجی رتبوں کی تخصیص، عقائد اور فکری تفریق کے مظاہروں اور موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ کالجوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور چوراہوں پر ڈھول کی تھاپ میں دوچاپی اور اتنڑ کا فوک رقص کرتے ہیں۔دیہاتوں اور قصبوں میں کھیل کے ٹورنامنٹس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں ہر ایک ضلع میں کھیل کے اسٹیڈیمز بنانے کے لئے رقم مختص کی گء تھی اور ہر ضلع کو بیس بیس لاکھ روپے کھیلوں کے فروغ کیلئے گرانٹس دی گئی تھیں۔ سنا ہے وہ گرانٹس آج بھی دی جارہی ہیں، یہ اور بات ہے بلوچستان کے مشہور کھیلوں نشانہ بازی، فٹ بال اور اب کرکٹ کی باضابطہ سرکاری ٹیمیں کسی ایک ضلع میں بھی نہیں بن سکیں۔ ایک اور اہم کام ڈاکٹر صاحب کے دور میں ہوا تھا کہ بلوچستان کی تین اہم ادبی اکیڈمیوں بلوچی، براہوی اور پشتو کو علیحدہ علیحدہ ایک ایک کروڑ روپے کی گرانٹس دی گئی تھی۔ چند ترجموں کے علاوہ کوئی اچھی کتاب تو نہیں چھپ سکی الٹا ادیبوں اور لکھاروں کے جھگڑے زبان زد عام ہوگئے اسی طرح اس دور میں ہر ایک ضلع میں ایک ایک پبلک لائبریری بنانے کیلئے بجٹ رکھا گیا تھا ان میں کچھ عمارتیں بن بھی گئیں تھیں تاہم جب عملہ کی تقرری اور کتابوں کی خریداری کا وقت آیا تو اکیس دن کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ” باپ” پارٹی تیار کر کیاقتدار اسکے سر پر جما دیا گیا تھا، آگے کا حشر وہی ہونا تھا جو پچھلے پچہتر سالوں سے اس سرزمین کا مقدر بنا ہوا ہے۔ (جاری ہے)