ہمارا ”زار“

تحریر: انورساجدی
وزیراعظم کا قوم سے خطاب دراصل آئندہ عام انتخابات کی مہم کا آغاز ہے یہ انتخابات آئندہ سال گرمیوں میں بھی ہوسکتے ہیں اور چند ماہ قبل بھی یہ جو ریلیف کا اعلان ہے یہ ریلیف کم اور انتخابی گورکھ دھندہ زیادہ ہے کیونکہ وزیراعظم نے ایک ہاتھ پیٹرول،ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں 25 روپے کی رعایت دی اور اسی ہاتھ ایل پی جی پر 27 روپے فی کلو واپس لے لئے۔
گوکہ پاکستانی عوام چار سال بعد کسی بھی وزیراعظم کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن وزیراعظم کا حالیہ خطاب قدرے سنجیدہ تھا کیونکہ اس سے پہلے ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ بھائی صاحب کچھ کرو ورنہ تمہاری حکومت کے خلاف عوامی جذبات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا حکومت کے بارے میں پی ایس ایل سیون کے فائنل کے دوران آرمی چیف کی موجودگی میں کئی نوجوانوں نے گونیازی گو کے نعرے لگائے اور جس طرح پی ٹی آئی کا سندھ مارچ ناکامی سے دوچار ہوا اس میں بھی ایک سبق پوشیدہ ہے۔
یہ جناب وزیراعظم کی عادت ہے کہ وہ اپنے ہر خطاب اور ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی بڑا دعویٰ کردیتے ہیں مثال کے طور پر قوم سے خطاب میں بھی انہوں نے یہ دعویٰ کرڈالا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے انہوں نے نشتر چلایا کہ نوازشریف اور زرداری کے دور میں خارجہ پالیسی آزاد نہیں تھی ایک اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم ہر دفعہ اپنا ماضی بھول جاتے ہیں کافی لوگوں کو یاد ہوگا نائن الیون کے بعد جب پرویز مشرف افغانستان پر حملہ میں امریکی کولیشن پارٹنر بن گیا تھا تو عمران خان نے اس پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا وہ یہ بات بھی بھول چکے ہیں کہ جب پرویز مشرف نے وردی میں صدر بننے کا فیصلہ کیا تو عمران خان ان کی حمایت میں پیش پیش تھے بلکہ انہوں نے صدارتی ریفرنڈم میں ووٹ ڈال کر مشرف کی نمائندگی بھی کی۔
حقیقت ہے کہ بھٹو کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ امریکی مفادات کے تابع رہی جنرل محمد ضیاؤالحق نے امریکہ کی حمایت اور ڈالروں کی بارش کے درمیان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع کیا اس جہاد کی جو تباہ کاریاں پاکستان میں برپا ہوئیں ان پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اس کا واحد فائدہ ضیاؤالحق اور ساتھیوں کو ہوا وہککھ پتی سے کھرب پتی بن گئے۔
حالیہ سوئس سکریٹ اس کا ادنیٰ سا ثبوت ہے جبکہ وزیراعظم کے سامنے پاپا جونز کا اسکینڈل سامنے آیانہ صرف یہ کہ وزیراعظم نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اپنے نیک نام مشیر کو کام جاری رکھنے کی ہدایت بھی کی۔
حقیقت یہی ہے کہ آج تک کسی سویلین حکومت کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ ایک آزادانہ خارجہ پالیسی ترتیب دے حتیٰ کہ بینظیرکو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ طالبان بناکر افغانستان پر ان کے قبضے کی راہ ہموار کریں نوازشریف تو شروع میں بڑے تابع فرمان تھے تاہم اپنے دوسرے دور اقتدار میں انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کو لاہور بلاکر تعلقات کو معمول پرلانے کی کوشش کی لیکن جنرل مشرف کے ایما پر جماعت اسلامی کے ٹھنڈر اسکواڈ نے شاہی قلعہ لاہور میں ہونے والی ضیافت پر ہلہ بول دیا اور غیر ملکی سفیروں پر حملہ کرکے ان کی وہ درگت بنائی کہ الامان والحفیظ بعدازاں تعلقات کو بگاڑنے کیلئے پرویز مشرف نے کارگل پر حملہ کرکے رہی سہی کسر پوری کردی یہ الگ بات کہ مشرف کی سربراہی کے دوران انڈیا نے کارگل پر قبضہ کرلیا اپنے اقتدار کے تیسرے دور میں نواز شریف نے نریندر مودی کو رائے ونڈ بلایا جس کے بعد نعرہ لگایا گیا کہ
جو مودی کا یار ہے
وہ غدار ہے
مودی متعصب مہاسبھائی سہی لیکن وہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم ہیں اور جب تک دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر نہیں آجائیں گے ترقی اور خوشحالی ہمیشہ خواب رہے گی آپ دیکھیں کہ روس نے یوکرین پر قیامت خیز حملہ کیا لیکن بیلا روس میں ان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی چل رہا ہے اگر عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک آزادانہ خارجہ پالیسی اپنالی ہے تو وہ بتادے کہ یہ پالیسی کیا ہے اگر انہوں نے امریکہ کے منع کرنے کے باوجود ماسکو کا دورہ کیا ہے جیسے کہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا ہے تو اس کی تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں بادی نظر میں یہ کونسی عقلمندی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے سپر پاور کوسست کہہ کر اور اس کے تعلقات کی قیمت پر روس کا دورہ کیا جائے کیونکہ روس جتنا فائدہ نہیں پہنچاسکتا جتنا کہ امریکہ نقصان دے سکتا ہے۔
آزادانہ خارجہ پالیسی توچین، انڈیا اور یو اے ای نے دکھائی جو انہوں نے سلامتی کونسل کی قرار اداد پر غیر جانبدار رہ کر ووٹ نہیں دیا حالانکہ انڈیا اس وقت امریکی کیمپ کے قریب ہے ماضی میں جب امریکہ نے ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کردی تو بھارت نے یہ پابندی تسلیم نہیں کی اور ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھی اگر پاکستان امریکی کیمپ چھوڑ رہا ہے تو اس میں بھی سلیقہ اختیار کرلیا جائے یہ شیخی بگھارنا کہ ہم امریکہ کا کوئی حکم قطعاً تسلیم نہیں کریں گے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ آگے چل کر امریکہ بہت آزارنقصان پہنچائے گااس سے پاکستان کی تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اگر امریکہ دشمنی پر اتر آئے تو نہ سعودی عرب نہ کویت اور نہ ہی یورپ سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ آئیگا ابھی تک پاکستان کی جنگی صلاحیت امریکی ساز و سامان کی مرہون منت ہے امریکہ سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی گئی ہے تو اس کا متبادل بھی تلاش کیا جائے۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کو گیس فراہم کرسکتا ہے لیکن وہ بھی قیمت لے کر جبکہ اس وقت پاکستان کی یہ پوزیشن نہیں کہ وہ ہزاروں میل لمبی گیس پائپ لائن کے اخراجات برداشت کرے۔
پاکستان روس سے گندم لیکر اسے آلو بیچ سکتا ہے یا کچھ ٹیکسٹائل مصنوعات بھیج سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ فوائد حاصل نہیں ہونگے لگتا ہے کہ عمران خان ولادیمیرپوٹن کی آہنی شخصیت سے متاثر ہیں یہ روس کی تاریخ کے واحد آمر ہیں جو کبھی صدر اور کبھی وزیراعظم بن جاتے ہیں بلکہ اب تو وہ آئین میں ترمیم کرکے تاحیات سربراہ بن گئے ہیں مغرب کا الزام ہے کہ پوٹن نے اپنے ملک کو لوٹ کر کھربوں ڈالر غیر ممالک میں رکھا ہے اگر اس میں صداقت ہے تو امریکہ سوئس اکاؤنٹس ضبط کرلے گا اگرچہ پوٹن کے دور میں روس نے کافی ترقی کی ہے اور وہ خود کفیل ملک بن گیا ہے لیکن وہاں پر جمہوریت نام کی چیز دور دور تک نہیں ہے اظہار رائے پر قدغن چین سے بھی زیادہ ہے آزاد میڈیا کا کوئی وجود نہیں ہے اگر دیکھا جائے تو پوٹن سوویت سربراہوں کی نسبت زیادہ بڑا ڈکٹیٹر بن کر زار روس بن گئے ہیں مغربی میڈیا تو کافی عرصہ سے انہیں ”زار“ کہہ رہا ہے لیکن اپنی آہنی گرفت شخصی آمریت اور بنیادی حقوق کو کچل کر وہ زار ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں 90 کی دہائی میں انہوں نے چیچنیا کی جنگ آزادی کو کچل کر بے دردی کے ساتھ ہزاروں افراد کا قتل عام کیا۔
اپنے وزیراعظم کی سادگی دیکھئے کہ چیچن عوام کے قتل عام میں ملوث شخص کی ملاقات ان سے کروائی گئی۔
دراصل ہمارے وزیراعظم بھی پوٹن کی طرح بااختیار اور تاحیات صدر بننا چاہتے ہیں لیکن بھائی صاحب کو معلوم نہیں کہ ان کا ملک پاکستان ہے یہاں کے عوام بہت جلد اپنے حکمرانوں سے بیزار ہوجاتے ہیں جبکہ صاحبان اقتدار بھی کسی سویلین سربراہ کو ٹکنے نہیں دیتے چہ جائیکہ کہ وہ پوٹن یا چینی صدر کی طرح خطرناک آمر بن جائے پاکستان میں ایوب خان اور جنرل ضیاؤالحق نے بدترین آمریت کا راستہ اختیار کیا لیکن عوام نہیں مانے اور بالآخر انہیں جانا پڑا جناب پرویز مشرف بھی وردی اور صدارت ایک ساتھ رکھ کر تاحیات حکمران رہنا چاہتے تھے لیکن انہیں بھی مل جل کر چلتا کردیا گیا یہ جو پیکا کا قانون لایا گیا ہے اس کا مقصد بھی تنقید کو ختم کرکے شخصی آمریت کو مستحکم بنانا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا وزیراعظم کا یہ کہنا کہ میڈیا کی 70 فیصد خبریں ہمارے خلاف ہیں درست نہیں ہے یہ بات ضرور ڈبو چوہدری اور شیخ جی نے بتائی ہونگی تاکہ اس کی آڑ میں جان بلب میڈیا کو ہلاک کیا جاسکے لیکن عوام اس قانون کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے مشیروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ چین،روس، سعودی عرب یا ایران نہیں ہے یہاں بہرحال ایک نام نہاد اور ”ریلوکٹا“ جمہوریت وجود رکھتی ہے اگر ایوب خان اور ضیاؤالحق جیسے آمر تاحیات سربراہ نہ بن سکے تو عمران خان نے کیسے سوچا کہ یہ مقام وہ حاصل کرلیں گے ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہوگا کہ وہ پانچ سال پورے کرلیں اور اس کے بعد اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کیلئے تیاری کرلیں یہ ڈیجیٹل دور ہے اس میں عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا اگر چہ اپوزیشن کی صفوں میں ہم آہنگی نہیں ہے اس کے باوجود عمران خان کے گھبرانے کا وقت سر پہ آن پہنچا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں