بلوچ کلچرل ڈے اور تہذیبی ورثے کی زبوں حالی:

تحریر: محمد صدیق کھیتران
گزشتہ سے پیوستہ
اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں مشترکہ فہرست ختم ہوگئی تو سیاحت و ثقافت کے امور صوبوں کو منتقل بھی ہوگئے۔مگر ہنوز ان اداروں کے لیے ملکیت اور لاحہ عمل نظر نہیں آرہا ہے۔ البتہ کرپشن کے ثمرات چالاک مرکز ی افسر شاہی سے نکل کر کم خواندہ اور حریص مقامی بابووں کے ہاتھ ضرورآ گئے ہیں۔ دکھاوے کے لیے آثارقدیمہ کے تحفظ،نوادرات جمع کرنے کیلئے ایک ادارہ نوری خان نصیر کمپلیس کوئٹہ میں ضرور موجود ہے۔ محکمہ آثاریات کے نام سے منسوب بلوچستان کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک بلوچستان بھر میں 119 نایاب مقامات کا ذکر موجود ہے۔ہمارے اندازے کے مطابق زمین پر ان جگہوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔مسلہ یہ ہے کہ بلوچستان کے قدیم آثاریات کو تلاش ہی نہیں کیاگیا۔ ایک ڈسپلے سنٹر بلوچستان اسٹڈی سنٹر بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں قائم ہے جس کے پاس نادر چیزوں کی مناسب کھیپ موجود ہے۔اس کے علاوہ تربت، سبی اور گوادر میں بھی عجائب گھر کے نام سے عمارتیں منسوب ہیں کوئٹہ کے علاوہ کسی بھی مقام بشمول تربت کمپلیکس عملہ تعینات ہے اور ناہی قابل توجہ نوادرات موجود ہیں۔ہمارے نوجوان بلوچ کلچر ڈے کو تو منالیتے ہیں مگر اصل کام کی طرف توجہ کم دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر نادر نوادرات جوکہ متعدد گھروں کے کباڑ خانوں اور ویرانوں میں موجود ہیں ان کو اپنے نام سے ان اداروں کو عطیہ کریں۔اور اسی طرح پرانی نادر یادگاروں خصوصا” عمارتوں کو تباہی سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں ایسی تمام اشیا کی اطلاع اسپینی روڈ نزد ایوب اسٹڈیًم نوری نصیر خان کمپلیکس میں واقع آرکیالوجی کے پاس جمع کرائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ لگ بھگ 17000 آرٹیکلز یعنی قیمتی بلوچ ورثے کی نوادرات مرکزی حکومت اپنے دور میں کراچی لے گئی تھی۔اب جبکہ یہ اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں تو صوبائی حکومت کو اتنے بڑے قومی ورثے کو واپس لانے کیلئیاقدامات اٹھانے چاہیئے۔مہر گڑھ کے آثار سیایک نئی مگر ورطہ حیرت میں ڈالنے والی دنیا سامنے آتی ہے۔یہ جگہ ضلع کچھی کے میدانی علاقے میں تقریبا 2 مربع کلومیٹر پر محیط رقبے پر 7000 قبل مسیح کے انسانوں کی پہلی بستی کی روئیداد بتاتی ہے جو جنوبی ایشیا میں پروان چڑھی تھی۔اس کو دو مراحل 1974 اور پھر 1996 میں دریافت کیاگیا۔اب تک اس میں 32،000 قیمتی آرٹیکلز ملے ہیں۔ان آثار کو آرکیالوجی کی زبان میں نیوتھلک یعنی پتھر کے آلات کے استعمال اور جانور و فصلات پالنے کے ابتدائی دور کی تہذیبی تخلیقات بتایا جاتاہے۔ یاد رہے مہنجو داڑو اور ہڑپہ کے تہذیبی آثار مہر گڑھ سے دوہزار سال پہلے کیہیں ان ادوار میں انسان نے بالترتیب تانبے اور بعد میں لوہے کا استعمال سیکھ لیا تھا۔ماہرین کہتے ہیں یہی مہرگڑھ کی تہذیب آگے چل کر انڈس سولائشزیشن بنی۔جنانچہ بلوچ تہزیب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوبی ایشیا کی قدیم تہذیب نے یہاں جنم لیا تھا۔ دوسری طرف جب ہم اس سے بھی قبل یعنی ماقبل انسانی تاریخ بلوچستان کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مشرقی بلوچستان میں سات کروڑ بیس لاکھ سال پہلے بارکھان کے مقام پر دلدلوں اور جنگلات میں مشہور وٹاکڑی، کھیتران، مری، سلیمان، بلوچستانی اور پاکستانی سارس درندے جن کی جسامت آٹھ میٹر لمبی اور چار میٹر اونچائی رکھنے والی عجیب مخلوق پائی جاتی تھیں۔اسی طرح پانچ کروڑ سال قدیم حاملہ وہیل مچھلی کے فوسلز بھی بارکھان سے ہی ملے ہیں۔جبکہ تین کروڑ سال پرانے بلوچی تھیریم (جانور) کے فوسلز ڈیرہ بگٹی سے ملے ہیں۔ یاد رہے فوسلز جانوروں کے پتھر نما وہ ڈھانچے ہیں جو مٹی تلے دب کر محفوظ حالت میں ملتے ہیں۔یہ ساری دریافتیں مہرگڑھ سے کڑوروں سال پرانی ہیں۔
نوجوانوں کو بلوچ دستار اور اعلء کشیدہ کاری والے ملبوسات کے مظاہروں، سجی، لاندی،کھڈی روسٹ اور قسم قسم کی مچھلی کی ڈشز سے لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ معدوم اور گرتے میعار کی موسیقی و ادب پر اپنی توجو مرکوز کرنی ہوگی ماضی قریب میں نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی، خاران، کراچی اور مکران کے فنکاروں نے اس فن کو بلندیوں تک پہنچایا تھ احکومت کو چاہیئے کہ ڈاکٹر مالک کے وڑن کے مطابق تربت کی طرز پر ضلع میں ایک ایک کلچر سنٹر بنائے۔
سیاست اور وطن کے کلچر کا تحفظ ہر بلوچ نوجوان کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ بلوچ قوم، ون یونٹ کے خاتمے سے لیکر کنکرنٹ لسٹ کی تحلیل اور اب موجودہ شورش تک تلوار،بندوق اور قلم سمیت سب کچھ لڑائی میں استعمال کرچکی ہے۔ وہ ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے (اسی ہزار افغانستان، ایک لاکھ اسی ہزار ایران اور ساڑھے تین لاکھ صوبہ بلوچستان، راجن پور،جیکب آباد اور ڈیرہ غازیخان کے اٹھائیس ہزار مربع کلومیٹر) کو ہزاروں سالوں بدنظر حملہ آور طاقتوں سے بچاتا آرہا ہے۔اس کے پاس کوئی مربوط حکومتی مرکز و انتظام بھی نہیں تھا۔اس نے قبائیلی، نیم قبائیلی نظام میں رہتے ہوئے صرف اور صرف کلچر کے ایک ہی بندھن خاص کر بلوچی معیار سے اس کو تحفظ دیا ہیمگر اتنا کچھ قربان کرنے کے باوجود کتابوں میں ابھی تک حقائق کا عشرعشیر بھی نہیں پاسکا۔ کہتے ہیں انسان وہ اچھا ہے جو سب کا سوچتا ہے اور اسی طرح کلچر بھی وہ اچھا ہوتا ہے جو انسانی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نسلوں کی لاتعداد قربانیوں سے مزین کرنے کے بعد اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ بلوچستان بلوچوں کی سر زمین ہے اس میں آباد تمام اقلیتی ثقافتوں کے افراد اسکے امین ہیں جنہوں نے وقت کے تھپیڑوں سے گذر کر یہاں پناہ لی اور اپنا سب کچھ نچھاور کردیا وہ سب بھی اتنے ہی احترام کے قابل ہیں۔ معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بلوچ کلچر پھل پھول رہا ہے تو سب کیلئے رواداری اور مسابقت کے دروازے بھی کھلے رکھتا ہے۔ (ختم)