آپلہ پاافتادگان خاک

تحریر: انورساجدی
عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں صحافت اتنی آزاد ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہے ان کا دعویٰ ہے کہ مغرب کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا لیکن لگتا یہی ہے کہ انہوں نے ولایت میں رہ کر صرف کرکٹ کھیلی وہاں کے سماج اور صحافت کا کوئی گہرا مطالعہ نہیں کیا بدھ کے روز ایک خاتون صحافی نے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کی اتنی درگت بنائی کہ پاکستان جیسے ملک میں کوئی اس کا تصور نہیں کرسکتا خاتون نے کہا کہ یوکرین میں بچے مررہے ہیں لوگ در بدر ہورہے ہیں لیکن روسی سرمایہ دار بڑے چین سے انگلینڈ کے اپنے محلات میں رہ رہے ہیں آپ لوگ صرف زبانی کلامی یوکرین کی حمایت کررہے ہیں کوئی عملی قدم نہیں اٹھارہے ہیں اس پر بورس جانسن نے معافی مانگی اور اعتراف کیا کہ ہم اخلاقی حمایت سے زیادہ کچھ نہیں کرپارہے تصور کیجئے کہ اگر کوئی صحافی اس طرح کا سوال عمران خان سے پوچھے تواس کاحشر کیا ہوگا اور وزیراعظم کس طرح کا ردعمل ظاہر کریں گے پاکستان میں اس وقت سائبر ایکٹ نافذ ہے ہتک عزت کاقانون بھی موجود ہے اس کے باوجود وزیراعظم ”پیکا“ کا قانون لاکر میڈیا پر ظالمانہ اور آمرانہ کنٹرول چاہتے ہیں۔
شائد یہ حکومت یااداروں کا خوف ہے کہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر پولیس نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا پر بے رحمانہ تشدد کیا لیکن میڈیا نے اسے معمولی واقعہ سمجھ کر کوریج نہیں دی طلبا تو اپنے ایک ساتھی کی گمشدگی کیخلاف مظاہرہ کررہے تھے پاکستانی آئین کی رو سے ہر شخص جلسہ کرنے اور مظاہرہ کرنے کا حق ہے لیکن یہ حق صرف کاغذوں پر تحریر ہے حکومت کسی کویہ حق دینے پر تیار نہین ہے حکومتی رویہ کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے وزیرخارجہ نے باقاعدہ طور پر بلاول بھٹو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ کا مارچ پنجاب میں داخل ہوگا تو پھر ہم آپ کو دیکھ لیں گے حالانکہ مظاہرہ کا حق استعمال کرتے ہوئے خود وزیرخارجہ ایک مارچ لے کر سندھ کے اندر گشت لگارہے ہیں۔
غریب نادار اور جبر کے شکار کچھ لوگوں کا ایک پیدل مارچ تربت سے کوئٹہ کی طرف رواں دواں ہے اطلاعات کے مطابق مارچ کے برہنہ پاشرکا کے پیروں میں چھالے پڑچکے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے عوامی احتجاج کا اثر مہذب معاشروں اور جمہوری حکومتوں میں ہوتا ہے پاکستان جیسے نیم جمہوری ریاست اور وحشی حکمرانوں پر کسی چیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان کے لوگوں نے طرح طرح کے پر امن احتجاج کئے ایک پیدل مارچ اسلام آباد تک گیا لیکن حکمرانوں نے ایسا سلوک کیا جوگوروں نے امریکہ میں ریڈ انڈین کے ساتھ کیا تھا۔
بلوچستان کے طلبا مختلف اوقات میں تعلیم کے بنیادی حق کیلئے پر امن احتجاج کی صدا بلند کررہے ہیں لیکن مجال ہے جو حکمران اس کا نوٹس لیں۔
ایک سوال ہے کہ آخر بلوچستان کے لوگ کیا کریں اور کدھر جائیں ان کی سرزمین بدترین انسانی المیوں کی آماجگاہ بن چکی ہے جہاں آبرومندانہ زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ریاست نے آج انہیں تعلیم صحت روزگار کا بنیادی حق نہیں دیا ہے کیا گماشتہ حکمران یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے نوجوان اجتماعی خودکشی کاراستہ اختیار کریں یا ملک چھوڑ کر مہذب دنیا کی طرف ہجرت کریں کوئی کچھ تو بتائے۔
صوبے میں خوف کی اتنی فضا طاری ہے کہ حکومتی اکابرین اصل مسائل سے چشم پوشی کررہے ہیں ہائبرڈ نظام سے وابستہ لوگ صبح شام قصیدہ خوانی اور مدح سرائی میں مصروف ہیں سارے زورلگاکر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ممدوح خوش ہوجائیں جبری پابندیوں اور سخت گیر پالیسی کی وجہ سے صحافی حکومتی اکابرین کے کے پی آر روز کا کام کررہے ہیں خبریں مفقود ہیں طویل عرصہ سے جولوٹ مار مچی ہے سب نے اس پر آنکھیں بند کررکھی ہیں۔سماج کی اقدار کو جبری طور پر تبدیل کیاجارہا ہے قدرتی ارتقا کو روک کر ایک مصنوعی سماج کی تشکیل کا عمل جاری ہے عوامی سیاست شجرممنوعہ بن گئی ہے سیاسی جماعتوں کے کریکٹر تبدیل کردیئے گئے ہیں ان کے نام منشورمتروک ہیں تقریباً بیشتر جماعتوں کو این جی اوز کا درجہ دیا گیا ہے صوبائی اسمبلی کے ممبران کو معلوم نہیں کہ وہ جس اسمبلی میں تشریف فرماہیں وہ ایک قانون ساز ادارہ ہے یہ لوگ زیادہ سے زیادہ فنڈز کے حصول پر لڑرہے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ان فنڈز کے ذریعے گلیاں بنانا نالے تعمیر کرنا اور پانی پہنچانا میونسپل کمیٹیوں کا کام ہے اس کے باوجود وہ کونسلر کا کردارادا کرنے پر خوش ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پرزور احتجاج کے اکا دکا واقعات دیکھنے کو مل جاتے ہیں لیکن ان کی صدا نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ہے بعض ممبران بلند آہنگ سے بولتے ہیں لیکن جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا کہ مصداق پایہ تخت کے حکمرانوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا مختلف ادوار میں کافی سارے فضول تعلیمی ادارے کھولے گئے جن کا مقصد طلبا کی اجتماعی قوت کو توڑنا اور انہیں اندرونی علاقوں میں منتشر کرناتھا۔
بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد پریس کلب کے مظاہرے پر پولیس کے دھاوے کے دوران بلوچستان کے کسی رکن نے آنے کی زحمت نہیں کہ صرف فاٹا کے رکن محسن واوڑ وہاں پر دیکھے گئے بلوچستان کے طلبا اپنے ہاں کے حالات سے بھاگ کرپرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کرنے پنجاب گئے لیکن وہاں کی زمین بھی ان پر تنگ کردی گئی ہے بھلا اب وہ کہاں جائیں۔
بلوچستان میں طوفان سے پہلے کا سکوت طاری ہے اکثر سیاسی رہنما خاموش ہیں کبھی کبھار ضرورت کے تحت یا حاضری بتانے کی خاطر سوشل میڈیا پر کوئی بیان داغ دیا جاتا ہے سوشل میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر آنے والی چیزوں کا ریکارڈ نہیں ہوتا اس لئے سیاستدانوں کے بیانات ضائع چلے جاتے ہیں حال ہی میں ایک رہنما فرما رہے تھے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر حل کیاجانا چاہئے میں نے اس بیان پر بہت غور کیا توپتہ چلا کہ موصوف کے کہنے کامقصد یہ تھا کہ اگر ہمیں حکومت میں لایاجائے توسمجھو کہ مسئلہ حل ہوگیا وضاحت پوچھی جائے کہ وہ کس طرح یہ مسئلہ حل کریں گے زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ غیر سیاسی ہے اور حکمران اسے غیر سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے ڈائیلاگ کاجو شوشہ چھوڑا تھا وہ دم توڑ گیا ہے ایک کمیٹی کے قیام کا جو ڈرامہ تھا اب اس کی بازگشت بھی سنائی نہیں دے رہی ہے لہٰذا جو آپلہ پاافتادگان خاک ہیں وہ اسی طرح دربدر رہیں گے کیونکہ حکمرانوں کی اپنی سمت کھوگئی ہے وہ اپنی ریاست کوناقابل حل بحرانوں میں مبتلا کرچکے ہیں انہیں پتہ نہیں کہ عالمی طور پر کس کو دوست بنایاجائے اور کس سے دشمنی کی جائے وزیراعظم اتنے سادہ ہیں کہ ایک بڑے عالمی بحران پیدا ہونے کے بعد وہ اپنے دورۂ روس پر نازاں ہیں اور انہیں امید ہے کہ روس پاکستان کو گندم گیس پہنچائے گا حالانکہ اسے خودعالمی دباؤ کا سامنا ہے بے شک امریکی صدر نے جنگ میں کود نے سے ہاتھ اٹھالئے ہیں لیکن یوکرین کے مسئلہ پر پورا مغرب یک جا ہے اور وہ معاشی اور سیاسی اقدامات کے ذریعے روس کا ناطبقہ بند کردے گا چین کا یہ حال ہے ابتدائی بلند وبانگ دعوؤں کے بعد اس نے سلامتی کونسل میں غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا پاکستان پر مغرب کا دباؤ ہے کہ وہ یوکرین پرروسی حملے کی مذمت کرے اگر پاکستان نے ایسا نہیں کیا تو امریکہ اور اتحادی جوسلوک کریں گے اس کاتصور کرنا ہی محال ہے کیونکہ معاشی طور پر دیوالیہ ملک غیر جانبدار رہ کیا کرے گا سری لنکا کا حال دیکھئے وہ دیوالیہ ہوچکا ہے وہاں پرتیل اور بجلی نہیں ہے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں قرضوں کے بدلے وہ اپنی اہم بندرگاہ چین کے حوالے کرچکا ہے روزگار کے ذرائع ناپیدہوچکے ہیں دنیا بھر کے سرمایہ داروں کا سرمایہ ڈوب چکا ہے ایسا نہ ہو کہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔
گوکہ اپوزیشن حکومت کو ہٹانے کیلئے مختلف طریقے آزمارہی ہے لیکن اسے نکالنے کیلئے سب سے آسان اور موثر طریقہ فارن فنڈنگ کیس ہے اسی کے ذریعے ہی اپوزیشن کی مشکل آسان ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں