کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے

تحریر:انورساجدی
صورتحال بہت گھمبیر اور غیر یقینی ہے اگرچہ پاکستان میں اس سے بھی بدتر حالات رہے ہیں لیکن اس وقت خطہ میں اور ہمسایہ میں اتنے تشویشناک حالات نہیں تھے معاشی اعتبار سے چیلنج بڑھ گئے ہیں یوکرین پرروس کے حملے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں اوپر جارہی ہیں یورپی یونین سے ناخوشگوار تعلقات کی وجہ سے برآمدات بھی متاثر ہونگی۔
اپوزیشن نے عدم اعتماد کا ڈرامہ شروع کردیا ہے لیکن ابھی تک پوزیشن واضح نہیں ہے دعویٰ ہے کہ ضرورت سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے لیکن پھر بھی تحریک پیش کرنے میں وقت لگ رہا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اپوزیشن کو مطلوبہ اراکین ابھی تک دستیاب نہیں ہیں چوہدری دوکشتیوں میں سوار ہیں اور دونوں فریقین سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مانگ رہے ہیں البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ مغرور اور متبکر عمران خان بھکنے پر مجبور ہیں کہاں وہ اپنے وزراء سے نہیں ملتے تھے کہاں وہ اتحادیوں کی منت ترلے کررہے ہیں سارا دارومدار جہانگیر ترین گروپ پر ہے اگر اس گروپ میں اتحاد رہا اور اس نے جس کی بھی حمایت کی وہ جیت جائیگا۔
مسلم لیگ ن عجیب کشمکش میں مبتلا ہے ایک طرف وہ عدم اعتماد ہرصورت میں کامیاب کرنا چاہتی ہے لیکن ق لیگ کو ساتھ رکھنا نہیں چاہتی دوسری طرف وہ بلاول کے لانگ مارچ سے پریشان ہے کیونکہ آثار بتارہے ہیں کہ پنجاب کے عوام کسی نہ کسی طرح دوبارہ پیپلزپارٹی کی طرف رجوع کررہے ہیں اگرچہ ابھی تک ن لیگ پنجاب کی بڑی پارٹی ہے اور میاں نوازشریف سب سے مقبول لیڈر ہیں لیکن اگرجلد الیکشن ہوجائیں تو پیپلزپارٹی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ کامیابی حاصل کرے گی قومی اسمبلی میں اس وقت پارٹی کے اراکین کی تعداد56ہے جو بڑھ کر80 ہوسکتی ہے جبکہ ن لیگ کی تعداد میں اتنا زیادہ اضافہ کاامکان نہیں ہے اگر تحریک انصاف آدھی نشستیں کھوبیٹھے تو بھی ن لیگ اتحادیوں یا پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت نہیں بناسکتی عبوری وزیراعظم اور انتخابات کے مسئلہ پر ن لیگ کی صفوں میں شدید اختلافات ہیں شہبازشریف چاہتے ہیں کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو انتخابات2023ء مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں جبکہ نوازشریف کا گروپ چاہتا ہے کہ تبدیلی کے فوری بعد الیکشن کی تاریخ کااعلان کیاجائے نوازشریف گروپ شہبازشریف کی بجائے نوازشریف یا شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانا چاہتاہے۔
لیکن ہنوز”ولی دوراست“ کیونکہ کسی بھی حکومت کیخلاف عدم اتحاد کی تحریک پیش کرنا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا بہت ہی مشکل کام ہے1990ء میں جب اس وقت کی اپوزیشن فوج اور ادارے ایک پیج پر تھے تو بھی بینظیر کیخلاف تحریک ناکام ہوگئی تھی حالانکہ اپوزیشن نے بہت زور لگایا تھا نوازشریف نے اپنے آدھے اراکین چھانگا مانگا اور آدھے مری میں چھپائے تھے جبکہ پیپلزپارٹی نے اپنے اراکین سوات بھیجے تھے جہاں آفتاب شیر پاؤ کی حکومت تھی اگر اب کی بار بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو حکومت اپوزیشن کے کئی اراکین کو غائب کرواسکتی ہے اپوزیشن کیلئے بڑا مسئلہ ہوگا کہ وہ اپنے اراکین کو کس طرح محفوظ طریقے سے پارلیمنٹ ہاؤس میں لے جائے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایمپائر کے نیوٹرل ہونے کی صورت میں تحریک کی کامیابی کا امکان کم ہے اگروہ اپوزیشن کا ساتھ دے تو تحریک کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کی تعداد میں فرق بہت کم ہے یہ جو جہانگیر ترین ق لیگ اور ایم کیو ایم شش و پنج میں اس لئے مبتلا ہیں کہ انہیں ایمپائر کے اشارے یا ٹیلی فون کالز کاانتظار ہے اس کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے یہی صورتحال بلوچستان کی باپ پارٹی میں بھی ہے وہ بھی اشاروں کے بغیر دو قدم چلنے کی قائل نہیں ہے حالانکہ قدوس بزنجو اور سنجرانی نے آصف علی زرداری سے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے لیکن ان لوگوں کے وعدوں اور امید کا کوئی اعتبار نہیں ہے قدوس بزنجو پچھلی بار 6ماہ کیلئے وزیراعلیٰ بنے تھے تو یہ کام زرداری نے کردکھایا تھا جبکہ اس وقت وہ ق لیگ میں شامل تھے لیکن الیکشن کے وقت وہ ق لیگ چھوڑ کر باپ میں شامل ہوگئے جبکہ زرداری کو جل دے گئے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے اپ پارٹی کے لوگ محتاط ہوکر چل رہے ہیں ورنہ جلد بازی میں اپنا نقصان کربیٹھیں گے کیونکہ پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
جوہاتھ عمران خان نے سرداریارمحمد رند کے ساتھ کیا اس کی وجہ سے وہ مشکل میں پھنس گئے ہیں انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے جبکہ جاتے جاتے یہ بڑا الزام بھی لگایا ہے کہ بلوچستانکی وزارت اعلیٰ ساڑھے تین ارب میں خریدی یابیچی گئی ہے انکے بقول اسلام آباد میں موجود ٹھیکہ داروں کے گروپ نے یہ کام کیا ہے انہوں نے ایک سینیٹر کاذکر بھی کیا اور ایسے اشارے کئے کہ مذکورہ سینیٹر اور دیگر شخصیات کو لوگ پہنچان گئے ہیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سردار یارمحمد رند اپنے اتنے بڑے الزام کو کیسے ثابت کرسکتے ہیں آیا ان کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اگر کوئی انہیں عدالت لے جائے تو وہ اپنے الزامات ثابت کرسکیں مختلف ٹی وی چینلوں کو انٹرویو میں سردار صاحب نے بتایا کہ بلوچستان کو ریموٹ کنٹرول سے چلایاجارہا ہے اور وزیراعلیٰ سے کوئی کچھ پوچھتا ہی نہیں ہے میرے خیال میں اگر صوبائی حکومت کا کوئی بڑا اسکینڈل مستقبل میں آیا تو وہ ریکوڈک کی ڈیل کا ہوگا یہ ڈیل بہت ہی خفیہ اور پراسرار ہے اور طے ہونیوالی شرائط کاکسی کو علم نہیں۔بہت حال جو بھی ہو عدم اعتماد کی تحریک آنے تک بہت کچھ ہوسکتا ہے کئی حوادث رونما ہوسکتے ہیں جوصورتحال کو لیکر بدل دینے کا موجب بن سکتے ہیں ایسی کافی ساری مثالیں موجود ہیں جیسے کہ2014ء میں عمران خان نے126دن کا دھرنا دیا تھا لیکن16دسمبر کو اے پی ایس کا سانحہ ہوا جس کی وجہ سے دھرنا ختم کرنا پڑا ادھر بلاول نے مارچ شروع کردیا ادھر پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں واقع اہل تشیع کی مسجد پر خودکش حملہ ہوا اس سانحہ میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا حکومتی دعوؤں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے پہلے حکمرانوں کو امید تھی کہ امریکہ کے جانے اور طالبان کی حکومت آنے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوگی لیکن طالبان کسی قسم کے تعاون پر آمادہ نہیں ہیں ٹی ٹی پی زیادہ طاقت کے ساتھ موجود ہے اور چونکہ افغانستان کے کافی سارے علاقوں پر حکومتی رٹ نہیں ہے اس لئے مختلف گروپ پاکستان آنے اور وارداتیں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں سانحہ قصہ خوانی کے بعد وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے ہیں یہ دعویٰ درست ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے آنے کی پیشگی اطلاع کیوں نہیں ملتی تمام معلومات واقعات کی بعد مل جاتی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ”سیکورٹی لیپس“ موجود ہے اور یہ آج کامسئلہ نہیں ہے یہ ضیاؤ الحق کے دور سے چلا آرہا ہے حیرت انگیز طور پر طالبان نے ڈیوانڈ لائن کو ماننے سے انکار کردیاہے اور سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو ناجائز اقدام قرار دیا ہے اس کے باوجود کہ عمران خان ہر فورم پر طالبان کی وکالت کرتے ہیں طالبان حکومت کی محاذ آرائی والا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔جہاں تک بلاول کے لانگ مارچ کاتعلق ہے تو اس کا کوئی فوری نتیجہ تو نکلنے والا نہیں ہے لیکن اس سے حکومت کافی گھبرا گئی ہے خاص طور پر وزیرخارجہ جو سندھ میں ایک ناکام مارچ لیکر چل رہے ہیں اچھے خاصے حواس باختہ دکھائی دے رہے ہیں انہوں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ بلاول کی آمد کے موقع پر ملتان میں لوگ نہیں تھے حالانکہ ہر ایک نے بتایا کہ وہاں پر ہزاروں لوگ تھے حکومت نے جنوبی پنجاب تک کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی لیکن وسطی پنجاب میں وہ کئی حربے آزمائے گی اور خاص طور پر اسلام آباد میں جلسہ کی اجازت سے انکار کرکے مارچ کے اثرات کو زائل کرنا چاہتی ہے لیکن اسلام آباد میں ایک پاورفل شو کرنا پیپلزپارٹی کیلئے ضروری ہے اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔
عین ممکن ہے کہ اسلام آباد میں داخلہ کے وقت تصادم ہوجائے جو کہ اچھا شگوق نہیں ہے رات خانیوال میں علیم خان کے چینل سما ٹی وی کا ڈرون آصفہ بھٹو سے ٹکراگیا جس سے ان کا ماتھا زخمی ہوا اگرچہ یہ حادثہ تھا لیکن بلاول اور آصفہ جس طرح اوپن ٹرک پر چڑھ کر بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں اس سے دشمن فائدہ اٹھاسکتے ہیں لیکن کیا کریں بلاول کیلئے آگے جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں چاہے اس کی جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔