عدم اعتماد کی تحریک اور ترکش کا تیر۔۔

تحریر: راحت ملک
آئین پاکستان کی شق95۔وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور اس پر عملی کارروائی کا طریقہ کار بیان کرتی ہے۔ اس شق کے مطابق
1۔) وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی قرار داد جسے قومی اسمبلی کی کل ارکان کے کم از کم 20فیصد نے پیش کیا ہو قومی اسمبلی کی طرف سے منظور کی جاسکے گی۔
2)۔شق نمبر(i)میں محولہ بالا کسی قرار داد پر اس روز سے تین دن کی مدت کے خاتمے سے پہلے۔یا۔سات دن کے بعد ووٹ نہیں لئے جائیں گے جس دن مذکورہ قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ہو۔
3)۔(i)۔محولہ کسی قرار داد کو قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا جبکہ قومی اسمبلی سالانہ میزانیہ (بجٹ) کے کیفیت نامے میں پیش کردہ رقوم کے مطالبات پر غور کررہی ہو۔
4)۔اگر شق(i)محولہ قرار داد کو قومی اسمبلی کی مجموعی رکنیت کی اکثریت سے منظور کرلیا جائے تو وزیراعظم عہدہ پر فائز نہیں رہے گا۔
ایک ابہام واضح کردوں کہ قرار داد جمع کرانے کے تین دن کی مدت سے قبل بحث کے لیے پیش ہوگی اگر بحث کے نتیجے میں قرار داد رایے شماری کے لیے منظور ہو جائے تو پھر اس پر فیصلہ کن شماری سات یوم کے اندر کرانی لازم ہے گویا اگر سات روز تک رائے شماری نہیں کرائی جاتی تو قرار داد ساقط نہیں ہوگی بلکہ اسے منظور شدہ تصور کیا جا ئے گا۔حالیہ قرار داد 10مارچ کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گی ہے آئین کی رو سے اسے 13مارچ کیروز یا اس سے قبل اجلاس میں پیش کیا جانا لازم ہے۔ہفتہ کے روز 12مارچ آئینی اعتبار سے برائے بحث اجلاس طلب کرنا مناسب ہوگا جبکہ آثار بتا رہے ہیں کہ شاید آئین ٍپابری و فروغ نسیم کے تحت 13 مارچ یا اسکے بعد اجلاس طلب ہو سکتا۔ یعنی 14 مارچ کو۔ جبکہ مزید تاخیر آئین شکنی ہوگی جبکہ موجودہ حکومت آئین و قانون کی پاسداری کے برعکس انحراف کی شاندار روایت رکھتی ہے۔خوش امیدی یہی ہونی چاہیے کہ 14.مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوجانا چاہیے۔
12مارچ کو وزیراعظم اور دیگر وزراء نے آئین و الیکشن ضوابط کے خلاف لوئیر دیر میں عوامی انتخابی جلسہ سے الیکشن کمیشن کے انتباہ کے باوجود خطاب کیا ہے یہ ہٹ دھرمی جمہوری آئینی طرز حکمرانی کی بجائے فسطائیت کی نشاندہی کرتی ہے الیکشن کمیشن نے گو کہ وزیراعظم اور دیگر وزراء کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کئے ہیں عین ممکن ہے کہ ایک دو دنوں میں وزیراعظم اور وزراء نوٹس کے جواب میں معذرت نامے داخل کردیں،دریں صورتحال میں الیکشن کمیشن کو معافی نامے قبول کرنے سے گریز کرتے ہوئے تمام صاحبان کو جرمانے کی سزا دینی چاہیے بصورت دیگر انحراف اور معافی ناموں کا چلن عام ہو جائے گا اگر الیکشن کمیشن آئندہ چند روز میں نوٹسز پر کارروائی مکمل کر ے اور جرمانے عائد کر دے تو اعتماد کی تحریک کی نوبت ہی ختم ہوسکتی ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کے بعد حکومتی گفتار اور اس کے رد عمل میں حزب اختلاف نے بھی جو لب و لہجہ اپنایا ہے وہ قابل ستائش ہے نہ ہی قابل قبول و تقلید۔
کہا جارہا ہے کہ حکومت نے قومی اسمبلی اسپیکر کو ہدایت دی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے کسی رکن کو حتمی رائے شماری کے دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دے اور ان کے ووٹ کو مسترد کردے کیونکہ بقول آئین بابری و فروغ نسیم پارٹی فیصلے کے خلاف اجلاس میں شمولیت کا مطلب نااہل ہو جانے کے مترادف ہے۔یہ اقدام آئین میں انسانی حقوق کے باب میں دی گئی تمام شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت آزادی اظہار اور انجمن سازی کے سراسر منافی ہوگا، دریں اثنا اگر سپیکر قومی اسمبلی از خود ایسے دس پندرہ پی ٹی آئی ارکان کو فلور کراسنگ پر نااہل قرار دے دیتے ہیں تو پر ھاوس میں حزب اقتدار از خود اکثریت کھو دے گی اسطرح اپوزیشن بھی مطلابہ کم از کم 172 ارکان پیش نہیں کر پایے گی مگر اسکی ناکامی عملاً تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ٹھہرے گی کہ تحریک کا مقصد حکومت گرانا ھے ایسی حکمت عملی کے نتیجے میں نئی حکومت کی تشکیل مشکل تر ہوجایے گی اور اسمبلی حکومت نہ بنا پانے پر از خود تحلیل ہوسکتی ہے۔ پی ڈی ایم اور پی پی بھی اس اسمی کے ذریعے اقتدار نہیں چاھتے وہ فوری انتخابات کے متمنی ہیں، اگر پی ٹی آئی کے ارکان عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہیں تو ان پر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نااہلی کا الزام عائد ہوسکتا ہے مگر نااہل قرار دینے کا حتمی اختیار سپیکر کے پاس تو نہیں اسپیکر متعلقہ پارٹی کے سربراہ کی جانب سے اپنی پارٹی کے ایک یا چند ارکان کو نااہل قرار دینے یا نشست سے محروم کرنے کے لئے سپیکر کے پاس تحریری ریفرنس بجھوائے گا جس کی خلاف ورزی کا عملی ثبوت یعنی وقوعہ بھی بطور ثبوت تحریر ہو تو پھر سپیکر قومی اسمبلی ایسا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بجھوانے کا پابند ہوگا الیکشن کمیشن ضابطے کی کارروائی کے بعد مناسب قانونی حکم جاری کرنے کا مجاز ہے۔
اب فرض کریں کہ پی ٹی آئی نے دس یا اس سے زیادہ ارکان رائے شماری میں حصہ لے لیتے ہیں اور سپیکر تو تب تک ان کے ووٹ مسترد کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے نہ ہی اجلاس میں شرکت سے قانونا روک سکتے اور وہ ایسا کرتے بھی نہیں تو پھر عمران حکومت تو ختم ہو جائے گی جس کے اگلے مرحلے میں اگر اسمبلی برقرار نہیں رہتی تو سپیکر اگلے سپیکر کے انتخاب تک اپنے عہدے پر موجود رہینگے البتہ ڈپٹی سپیکر سبکدوش ہوجائیں گے۔ اسمبلی موجود رہی تو عدم اعتماد کے تسلسل میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی اکثریت کھو چکے ہونگے اور انہیں بھی مستعفی ہونا پڑے گا یا عدم اعتماد کی تحاریک کا شکار بننا پڑے گا۔اس کے بر عکس پی ٹی آئی کے چند ارکان جو عدم اعتماد کا ساتھ دینے ہیں تو ان کے خلاف ریفرنس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں
عددی پوزیشن کمزور ہوگی۔لہذا نااہلی کی وجہ سے خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا امکان کم ھے اگر اپوزیشن کی تحریک ناکام رہے پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے ساتھ رہتے ہیں تو بنیادی صورتحال میں تبدیلی نہیں آئے گی۔
اتحادیوں کے بیانات اور گومگوں کی کیفیت بتاتی ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے بیچ دراڑ واضح بھی ہے اور روز بروز گہری ہورہی ہے عمران خان کے ترکش میں آخری تیر ایک ہی بچا ہے کہ وہ اس پیچیگی کے ماحول میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں ایک سال کی مزید توسیع کا ابھی اعلان کردیں جس پر ان کی ریٹائرمنٹ کی مقررہ تاریخ کے اگلے روز عمل یا نفاذ کا حکمنامہ جاری ہوجایے یہ تیر بہدف سہی لیکن جنرل باجوہ کے لئے شاید انتہائی معیوب ہوگا۔فیصلہ بہر طور فریقین کے مفاد کے تناظر میں ہوگا۔
کہا گیا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت بلند تر سطح کو چھونے لگا تو حادثہ بھی ہوسکتا ہے یہ شف شف کرنے کی بات ھ صاف شفتالو کہیے تو مطلبب مارشل لاء لگ سکتا ھے میں داخلی علاقائی اور عالمی تناظر بالخصوص یوکرائن جنگ کے پس منظر میں پاکستان کے کردار کے تناظر میں اس امکان کو رد کرتا ہوں جب آئی ایم ایف فوج کے تمام بینک اکاونٹس نیشنل بینک میں لانے کی شرط عائد کرچکی ہے اور فیٹیف کی گرے لسٹ میں ہے تو پھر مہم جوئی کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں