اراکین اسمبلی کی ٹانگیں

تحریر: انورساجدی
مولانا نے صحیح کہا ہے کہ10لاکھ لوگ کی کیا ضرورت ہے آپ صرف 172آدمی لائیں کپتان ایسا مشورہ ماننے والے نہیں ہیں وہ تو مرنے مارنے پر آمادہ ہیں لیکن کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں حالانکہ عدم اعتماد ایک آئینی عمل ہے اور اس کا فیصلہ ایوان کے اندر ہونا چاہئے لیکن کپتان لاکھوں لوگ سڑکوں پر لاکر ایک طرف اپنے اراکین اسمبلی کو ڈرا دھماکر اسمبلی جانے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کی کوشش ہے کہ اسپیکر ایسی رولنگ دیں کہ عدم اعتماد کی تحریک اپنی موت آپ مرجائے یہ رولنگ کیا ہوسکتی ہے جانبدار اسپیکر نے پہلے بتادیا ہے جس کے مطابق ان کے دو ارادے ہیں یعنی تحریک پر بحث کئے بغیر اسے مسترد کردیاجائے یا بحث کے اختتام پر ووٹنگ سے پہلے اسے رد کیاجائے اس مقصد کیلئے وہ آئین کی دفعہ63اے کا سہارا لے رہے ہیں جبکہ ابتداء میں تحریک مسترد کرنے کیلئے چیئرمین سینیٹ کی ایک رولنگ کا حوالہ دے کر اپوزیشن کوناکام بنانا چاہتے ہیں جو انہوں نے دوسال قبل دی تھی۔ایسا ہوگا یا نہیں یہ تو عین موقع پر پتہ چلے گا لیکن تب تک بڑھکوں دھمکیوں دشنام طرازی ایک دوسرے کو چورڈاکو کہنے کا سلسلہ جاری رہے گا یعنی تحریک انصاف ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے کہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو آخر اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ ڈی چوک پر ووٹنگ سے ایک دن پہلے لاکھوں لوگ بلائے اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں اگر اراکین اسمبلی نے غداری کی تو عوام ان کا تکابوٹی کردیں گے عمران خان کو یقین ہے کہ ان کے طرزعمل سے تحریک کے باغی اراکین خوفزدہ ہوکر گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے جس کے نتیجے میں تحریک ناکام ہوجائیگی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سے بڑھ کر یہ دھمکی دی ہے کہ عوام باغی اراکین کے گھروں کا گھیراؤ کریں گے اور انہیں اسمبلی نہیں جانے دیں گے یہ ایسا طرز عمل ہے کہ آمرمسولینی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کیونکہ منتخب اراکین کوبزور قوت یرغمال بناکر اپنی مرضی پر چلانا اٹلی کی فاشسٹ پارٹی ہی کرتی تھی۔بدقسمتی سے عمران ووٹ کے ذریعے آئے تھے لیکن ان کی باتوں اور ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو قرون وسطیٰ کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ریاست مدینہ کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن ان کے منہ سے لفظ جمہوریت کبھی نہیں نکلتا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جمہوریت پارلیمانی نظام اور اظہاررائے کی آزادی پریقین نہیں رکھتے ان کے خیال میں جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں علامہ اقبال کے بقول اس میں بندوں کو تولا نہیں جاتاکپتان انگریزوں کے دیس میں انگریزوں کی طرح پلے بڑھے ہیں لیکن ان کی روح افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں گردش کررہی ہے صاف ظاہر ہے کہ وہ امیرالمومنین بننا چاہتے ہیں جو جمہوری نظام 1973ء کے آئین اور پارلیمان کی موجودگی میں ممکن نہیں اگر ان کا بس چلے تو بہ یک جنبش قلم ہر چیز ختم کردیں اور بنولین بوناپارٹ کی طرح شاہی خاندان سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود بادشاہ بننے کا اعلان کریں کیونکہ انہوں نے آمرانہ شاہی طبیعت پائی ہے وہ ناں سننے کے عادی نہیں ہیں اختلاف کو برداشت کرنا ان کا وطیرہ نہیں ہے اس لئے وہ اپوزیشن رہنماؤں کے نام بگاڑ کر انہیں چوہے کا لقب دے رہے ہیں لیکن اس وقت ان کی مجبوری ہے کہ وہ آئین کے مطابق چلیں اور اپنی شہنشاہیت کا اعلان نہ کریں وہ افغانستان کے ایک تاجک ڈاکو بچہ سقہ کی طرح اقتدار پر قبضہ کااعلان کرسکتے ہیں ان کا صدر موجود ہے ان کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کرکے وہ خود کو حاکم مطلق قراردے سکتے ہیں آئین معطل کرسکتے ہیں اور تاحیات صدارتی نظام لاسکتے ہیں لیکن کاش کے ایساہوجاتا عمران خان اور تاریخ کے دوبڑے آمروں مسولینی اور ہٹلر میں یہ فرق ہے کہ ان کی جماعتیں متحد تھیں جبکہ تحریک انصاف کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہے پنجاب میں ان کی دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے وہاں پر تحریک انصاف کے چار گروپ بن چکے ہیں جبکہ پشتونخوا میں تین اور بلوچستان میں دو گروپ بن چکے ہیں۔
اگر وہ اپنی جماعت کو متحد نہیں رکھ سکتے تو اقتدار پر گرفت کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ ان کے اتحادی انتہائی مفاد پرست طالع آزما اور وقتی مفاد کو دیکھتے ہیں لیکن عمران خان ابھی تک انہیں بھی مطمئن کرنے میں ناکام ہیں۔
ان کے وزراء کا یہ حال ہے کہ دائمی لوٹا ہر جماعت کی زینت بننے والے غلام سرور خان نے اپنے حلقہ انتخابات میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جی چاہتا ہے کہ مخالفین پر خودکش حملہ کردوں ایک اور صاحب ہے بابر اعوان زرداری کی مونچھ کا بال بنے ہوئے تھے اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری کیخلاف بولے جب لائسنس کینسل ہوا تو بچوں کی طرح دھاڑیں مارکر رورہے تھے وزیرداخلہ کو دیکھئے ہر روز ایک بڑھک مارتے ہیں طاقت کے استعمال کی دھمکی دیتے ہیں تحریک انصاف کارکن نہ ہونے کے باوجود تحریک کے کارکنوں کو مخالفین پر حملہ کرنے کی کال دیتے ہیں وزیراطلاعات فواد چوہدری پریشان ہیں کہ کیا کیاجائے انہوں نے تازہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ
ڈی چوک کا جلسہ اب تک کے
تمام جلسوں کی ہاں ثابت ہوگا
اگر لوگوں کو یاد ہو تو عراق پر امریکی حملہ کے وقت صدام حسین نے ڈھینگ ماری تھی کہ یہ جنگ تاریخ کی تمام جنگوں کی ماں ہے لیکن پھر کیا ہوا دنیا نے دیکھا فواد چوہدری،شیخ رشید،غلام سرور خان،بابر اعوان،شاہ محمود قریشی قطعی مرد میدان نہیں ہیں یہ صرف شرارتیں کرسکتے ہیں اور اپنے قائد کو مشتعل کرکے ان کے زوال کا جلد بندوبست کرسکتے ہیں اور جب گھمسان کارن پڑے تو یہ سب سے پہلے دم دباکر بھاگ جائیں گے ان لوگوں نے آج تک کس کا ساتھ دیا شیخ رشید نے اپنے کس محسن سے بے وفائی کا ارتکاب نہیں کیا یہ وجہ ہے کہ مونس الٰہی نے طعنہ دیا کہ طالب علمی کے دور میں آپ ان کے دادا چوہدری ظہورالٰہی سے پیسے لیتے تھے اور آج ہمیں برا بھلا کہتے ہو اس کے بعد شیخ صاحب کی بولتی بند ہوگئی لیکن پیپلزپارٹی کے بارے میں ان کی زبان درازی بند نہ ہوئی اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں بلاول کو ایک بار پھر بلورانی کے نام سے یاد کیا اتنے ڈھیٹ شخص ہیں کہ بہاولپور جیل کا واقعہ بھی بھول گئے ہیں رانا ثناء اللہ اور ساتھی بھی انہیں یاد نہیں ہیں۔
جب وزیراعظم کی زبان سے پھول جڑتے ہوں تو ان کے پیدل سپاہیوں سے کیا گلہ یہ سارے لوگ خانہ جنگی کی صورت اس لئے پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ سے اقتدار چلا جائے تو کم از کم اپوزیشن کے ہاتھ نہ گلے اس کی طرف شیخ رشید نے کم ازکم دوبارہ اشارہ کیا ہے انہوں نے اپوزیشن کو مارشل لاء کا ڈراوا بھی دیا ہے لیکن تجزیہ کار بتارہے ہیں کہ اس وقت جوعالمی حالات ہیں پاکستان میں ایک اور مارشل لا کا نفاذ اس ریاست کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا اس کے باوجود حکومتی زعما چاہتے ہیں کہ اگرعدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو بے شک مارشل لاء ہی آئے شیخ صاحب اور فواد چوہدری کا کیاجاتا ہے کہ وہ مارشل لا میں بھی کوئی نہ کوئی عہدہ حاصل کرلیں گے شیخ صاحب تو ضیاء الحق کے وقت بھی وزیر رہے ہیں اور اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے تو وزیراعظم اہم تقرری کرکے اس کے بعد تین جماعتوں پر قہر بن کر ٹوٹیں گے ان کاقہر کتنا طویل ہوگا یہ ہر ایک کو پتہ ہے کیونکہ اپوزیشن جتنی بے جان سہی وہ حکومت کیخلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہے زیادہ سے زیادہ زرداری،بلاول،شہباز،مریم اور مولانا کو گرفتار کیاجائے گا پھانسی تو لگانے سے رہے اس سے یہ ہوگا کہ خان صاحب کی باقیماندہ میعاد جنگ جدل بے چینی اورجلسہ جلوسوں میں گزرے گی معیشت کا بیڑہ غرق ہوگا عوام فاقوں سے مریں گے ویسے حافظ آباد کے جلسہ میں خان صاحب نے بربلا کہا کہ وہ آلو ٹماٹر کابھاؤ معلوم کرنے نہیں آئے یعنی جتنی مہنگائی ہو بدحالی ہو انہیں کوئی سروکار نہیں بس وہ زبردستی سارے عوام کو ایک قوم میں تبدیل کرناچاہتے ہیں۔لگتا ہے کہ خان صاحب نے1973ء کا آئین نہیں بڑھاہے اس میں پاکستان کوفیڈریشن قراردیاگیا ہے اس کی چار وحدتیں ہیں جن کے حدود کا تعین بھی کردیا گیا ہے اس آئین میں بنیادی حقوق اور اظہار خیال کی آزادی کی ضمانت بھی دی گئی ہے از روئے آئین کسی لیڈر کو حق نہیں کہ وہ اپنے پارلیمنٹ کے اراکین کی ٹانگیں توڑدے اپنے اراکین پارلیمنٹ کی ٹانگیں توڑنے کی بات تو1971ء میں بھٹو نے بھی کی تھی انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے کھڑے ہوکر کہا تھا کہ ان کی جماعت کے جو اراکین قومی اسمبلی کے سیشن میں شرکت کیلئے ڈھاکہ جائیں گے میں ان کی ٹانگیں توڑ دوں گا لیکن پھرہوا کیا اسمبلی اراکین ٹانگیں تو سلامت رہیں لیکن ملک ٹوٹ گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں