یہ وقت بھی گزر جائے گا

تحریر۔۔۔۔جان محمد انصاری
399 قبل از مسیح میں سقراط کو اینتھنز کی عدالت نے موت کی سزا سنادی، اس نے فرار ہونے کے بجائے علم و حکمت کی سربلندی کیلئے زہر کا پیالہ پی لیا۔ اس زمانے میں اینتھنز میں یہ قانون تھا کہ مجرم کے سامنے زہر سے بھرا ایک گلاس رکھا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ وہ زہر سے بھرا گلاس پی لے۔ عدالت نے یہ فیصلہ اس وجہ سے سنایا تھا کہ سقراط پر الزام تھا کہ وہ اپنی تعلیمات، سوالات اور باتوں کے ذریعے یونان کے نوجوانوں کو گمراہ کررہا ہے۔
سقراط کی موت کے بعد اینتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا، جہنم رسید ہوا۔ یونان کی اشرافیہ جیت گی اور سقراط کی دانش ہار گی، وقت گزر گیا۔
منصور حلاج کو انا الحق کی بنیاد پر بغداد میں سنگ سار کیا گیا اور پھر اس کی بدن کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس وقت کے حکمران جیت گئے، منصور حلاج ہار گیا، وقت گزر گیا۔
گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتوی لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت کیلئے قید کی سزا سنادی۔ گلیلیو اپنے ہی گھر میں قید رہا اور 8 جنوری 1642 میں اس کی موت ہوئی۔ پادری جیت گئے، سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا
جیور ڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنایا گیا۔ برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تخلیق سے عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اس کی تخلیق سے متصادم نہیں مگر اس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کو کہا گیا۔ برونو نے انکار کردیا۔ پوپ نے برونو کو کافر قرار دیا۔ 8 فروری 1600 کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو برونو نے تاریخی جملہ کہا ” میں یہ فیصلہ سن کر خوف زدہ نہیں ہوں جیتنا آپ یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہیں۔ برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلادیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔
بھگت سنگھ نے جب ہندوستان کی مظلوم و محکم اقوام کی آزادی اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی تو بھگت سنگھ اور اس کے وفادار ساتھیوں کو 23 مارچ 1931 کو اسمبلی میں اجلاس کے دوران دستی بم حملے اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کء جرم میں پھانسی دیا گیا اور فیروزپور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے ان کی لاشوں کو جلایا گیا۔
انگریز حکومت جیت گء آزادی ہار گیا۔ وقت گزر گیا
افغانستان کے ظالم بادشاہ نادر شاہ نے جب ہزارہ قوم پر بہت زیادہ مظالم کئے اور جان لیوا باری محصولات عائد کئے تو عبدالخالق ہزارہ نے اسے گولی مار کر قتل کردیا۔ نادر شاہ کا بیٹا ظاہر شاہ نے عبدالخالق ہزارہ سمیت اس کے رفقاء اور خاندان کے تمام افراد کو قتل کردیا۔ ظاہر شاہ جیت گیا، شھید عبدالخالق ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔
معرکہ کربلاء کو کون بھول سکتا ہے یزید نے امام حسین (علیہ السلام) اور اسکے رفقاء کو دشت کربلاء میں شہید کردیا۔ یزید جیت گیا حسین (علیہ السلام) ہار گئے، وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔
تاریخ نے ثابت کردیا کہ سقراط، گیلیو، برونو، منصور، بھگت، خالق اور حسین جیت گئے۔ بے شک آج ہر کوئی خود کو حق کہہ رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام لوگ حق نہیں ہوسکتے۔ اگر تمام لوگ حق پر ہوتے تو دنیا سے اب تک ظلم و ستم اور بے انصافی کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ وقت گزر جائے گا سو سال بعد ہم سب تاریخ کے بے رحم مصنف کے سامنے یکساں ہونگے۔
اس سے پہلے کہ تاریخ کا بے رحم مصنف ہمیں یونان کے اشرافیہ، گیلیو، برونو کے مقابلے میں پادریوں، منصور حلاج کے قاتلوں، انگریز سامراج، نادر شاہ کے ظلم و ستم اور یزید کے ساتھ کھڑا لکھ لے یہی بہتر ہے کہ ہم آج جس دور سے گزر رہے ہے۔ خود کو تاریخ کے بے رحم کسوٹی پر رکھ لے اور اپنا احتساب کرئے۔ کہی ہم غلط راہ اور غلط لوگوں کے ساتھ تو کھڑے تو نہیں ہے۔ کہی ہم آج تاریخ کے غلط سمت میں کھڑے تو نہیں ہے یہ سوالات اپنے زات سے ضرور کرئے کیونکہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ کیونکہ اگر آپ آج حق کے ساتھ نہیں کھڑئے تو تاریخ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگا کہ آپ محراب مسجد میں تھے یا طوائف کے کوٹے پر۔