مولا جٹ، نوری نت اور وحشی جٹ

تحریر: انورساجدی
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں پہلوانوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں دونوں کو اپنی شکست کا خوف ہے نہ حکومت کو یقین ہے کہ اس کے بندے پورے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کو پتہ ہے کہ آخری لمحات میں تحریک انصاف کے اراکین کھڑے رہیں گے یا بھاگ جائیں گے پرویز الٰہی نے یہ انکشاف کر کے کہ پی ٹی آئی کے 12اراکین سندھ ہاؤس میں اپوزیشن کی تحویل میں ہیں عدم اعتماد کی تحریک کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس بات کو لے کر وزیراعظم عمران خان سخت غصے میں ہیں اور انہوں نے شیخ رشید کو حکم دیا ہے کہ سندھ ہاؤس پر چھاپہ مار کر مذکورہ 12اراکین کو برآمد کیا جائے اگر اوپر سے کوئی مداخلت نہ ہوئی تو سندھ ہاؤس پر چھاپہ یقینی ہے نہ صرف پی ٹی آئی کے مبینہ اراکین کو برآمد کیا جائیگا بلکہ یہ تلاشی بھی لے جائے گی کہ وزیراعظم کے دعوے کے مطابق وہاں پر نوٹوں کی کتنی بوریاں رکھی ہوئی ہیں انہوں نے سوات کے جلسہ میں کہا تھا کہ سندھ ہاؤس ہارس ٹریڈنگ کا مرکز ہے وہاں پر اراکین کی خرید و فروخت جاری ہے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ تک کہا کہ سندھ ہاؤس میں گدھوں، گھوڑوں اور خچروں کی منڈی لگی ہوئی ہے یاد رہے کہ 1989ء میں جب بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو ن لیگ نے اپنے اراکین چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤس اور مری میں چھپا کر رکھے تھے جبکہ پیپلز پارٹی اپنے اراکین سوات لے گئی تھی اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے اپوزیشن مجبور ہے کہ اپنے اراکین اسلام آباد میں رکھے کیونکہ پشتونخواء اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں اور وہاں پر جانا رسک سے کم نہیں ہے پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اراکین سیکورٹی دینے کی خاطر سندھ ہاؤس میں رکھے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت دھمکیاں دے رہی ہے اور اراکین کو اسمبلی میں جانے سے روکنے کا باقاعدہ اعلان کر چکی ہے ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کے پاس زیادہ طاقت زیادہ وسائل اور زیادہ پیسہ ہے اس کے باوجود وہ اپوزیشن پر الزام عائد کر رہی ہے کہ وہ اراکین کی خرید و فروخت میں مصروف ہے حالانکہ حکومت اپوزیشن کے اراکین زیادہ آسانی کے ساتھ خرید کر سکتی ہے ویسے صورتحال عجیب و غریب ہے حکومت کے اتحادی زیادہ عہدے اور مراعات کی کاطر حکومت کی ایسی بلیک میلنگ کر رہے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جس اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد کی کارروائی چلانی ہے اس نے اپنی جانبداری کا واضع اعلان کر دیا ہے سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد کے دن اسمبلی کی کارروائی غیر جانبداری کے ساتھ کیسے چلے گی اگر اسپیکر نے کوئی خلاف آئین رولنگ دی تو اپوزیشن کو وقتی شکست سے کون بجا سکے گا اسپیکر تو اسپیکر سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی بھی سخت جانبدار نظر آ رہے ہیں وہ اپنی جماعت باپ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ اتحاد قائم رکھے صادق سنجرانی کی کوششوں کے باوجود باپ پارٹی عدم اعتماد کے مسئلہ پر دو حصوں میں تقسیم ہے ق لیگ کے تو کیا کہنے پرویز الٰہی دو ایسے انٹرویو دے چکے ہیں جن میں اپوزیشن کی بالادستی کی یقینی پیشنگوئی کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ق لیگ زیادہ فائدے کی خاطر آخری لمحات اپنا فیصلہ کرے گی اور یہ معلوم نہیں کہ کس کے حق میں فیصلہ کرے گی البتہ ایم کیو ایم نسبتاً زیادہ واضع ہے اگر اس کے من مانے مطالبات کی تحریری ضمانت دی جائے تو وہ زرداری کے ساتھ دے گی ایک حیران کن بات ویزراعظم عمران خان کا گھبرانا ہے حالانکہ ”گھبرانا نہیں“ ان کا تکیہ کلام ہے عدم اعتماد کی تحریک نے ان کے قویٰ کمزور کر دیئے ہیں وہ ایک ہفتہ میں اتنی بدکلامی کر چکے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اس کی نظیر نہیں ملتی وہ عدم اعتماد کو عوامی قوت سے روکنا چاہتے ہیں وہ نواز شریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، زرداری اور بلاول بھٹو کے نام بگاڑ کر مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں انہوں نے سوات کے جلسہ میں نواز شریف کو گیڈر کا لقب دیا جبکہ ایک اور جلسہ میں انہیں بھگوڑا قرار دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر شیر نہیں گیڈر ہے اور بھگوڑا ہے تو اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت عمران خان نے گزشتہ روز عوام سے اپیل کی کہ وہ سمندر بن کر ڈی چوک پر آئیں تاکہ غدار اراکین کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ اسمبلی جائیں اس کا جواب دیتے ہوئے ق لیگ کے لیڈر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ اگر ہم نے فیصلہ کر لیا تو ہم دیکھیں گے کہ کون ہمیں روکے گا باپ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوابزادہ خالد خان مگسی نے کہا کہ تحریک انصاف کی دھمکیوں کے بعد جس کا جی چاہئے کہ اسے ووٹ دوں وہ نہیں دے گا انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کو دھمکیاں تہذیب سے عاری رویہ ہے ادھر شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ 24مارچ کے بعد اراکین کو ٹیلی فون کالز کا آنا شروع ہو جائے گا اور 25کو عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے حکومتی اتحادیوں کے بارے میں یہ دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ باپ نہ ہو تو بچوں کو فیصلے کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے ماضی میں یہ جماعتیں اس لئے آسانی کے ساتھ فیصلے کرتی تھیں کہ انہیں باپ کی رہنمائی میسر تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان اپوزیشن کے تین بڑے رہنماؤں کو کرپٹ ڈاکو اور چور کہتے ہیں جبکہ اپوزیشن فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ کے تحفے بیچنے کے الزام لگا رہی ہے اگر دونوں فریقین کے الزامات درست ہیں تو پھر ریاست کا اللہ حافظ ہے کیونکہ ڈاکو اور لٹیرے کب تک اتنی بڑی ریاست کو چلا سکیں گے۔
مقتدرہ کے طرفدار بڈھے صحافی کامران خان نے تو صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ایک اور مارشل لاء کی تجویز پیش کر دی ہے اسی طرح کا مطالبہ لال ٹوپی والا شعبدہ باز زید حامد بھی کر رہے ہیں یعنی حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی کے درمیان یہ سوچ موجود ہے کہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے اگر کوئی اور مارسل لاء آ جائے تو بھی کوئی حرج نہیں یہ جو اس وقت طوفان دکھائی دے رہا ہے یہ واقعی 25مارچ کے بعد تھمنا شروع ہو جائے گا کچھ عناصر درمیان میں پڑ کر دونوں پہلوانوں کو سختی کے ساتھ کہہ دیں گے کہ یہ عوام کا سمندر جمع کرنے کا احمقانہ جنون چھوڑ دو بلکہ انسانوں کی طرح عدم اعتماد کا معاملہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں نمٹائیں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح حکومتی اتحادیوں کا پتہ نہیں کہ وہ کس کے حق میں فیصلہ کریں گے اسی طرح مقتدرہ کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں کہ وہ کس کا ساتھ دے گی حالانکہ اگر وہ چاہتی تو دونوں فریقین کو سمجھابجھا کر اب تک معاملہ حل کر چکی ہوتی لیکن وہ بھی حالات کا مزہ لے رہے ہین اور عوام کو بتا رہی ہے کہ سیاستدان جس مخلوق کا نام ہے ان کا کیا لیول ہے اور وہ ملک کو آگے لے جانے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں سیاستدان جتنا خود کو رسوا کریں گے اور ایک دوسرے کا پول کھولیں گے اتنا ہی مقتدرہ کی طاقت بڑھے گی چونکہ آنے والے مہینوں میں ایک اہم تقرری ہونی ہے اس لئے مقتدرہ بھی فوری مداخلت یا صلح صفائی سے گریزاں ہے لیکن یہ امر طے ہے کہ دونوں فریقین بالآخر ثالثی کے لئے اسی سے رجوع کریں گے وزیراعظم عمران خان کو ایک بات کا ادراک ابھی تک نہیں ہے اگر ان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ آیا اور الیکشن رولز کی خلاف ورزی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اپوزیشن آخری ترپ کے طور پر ایک بہت بڑا فیصلہ کر سکتی ہے وہ ہے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفیٰ اور اکثریت نے استعفیٰ دیا تو ایک نیا آئینی سیاسی بحران پیدا ہو جائیگا۔
ایک تو حکومت کی اکثریت ختم ہو جائے گی دوئم اس کے لئے 172 نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانا ناممکن ہو جائے گا جس کے نتیجے میں وزیراعظم پر دباؤ بڑھے گا وہ وقت سے پہلے قومی اسمبلی تحلیل کر دیں تاکہ قبل از وقت انتخابات ہو سکیں اس طرح کا فیصلہ خود تحریک انصاف کے حق میں جائیگا کیونکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ ایک ایسی اسمبلی آئے جس میں انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہو اس مقصد کیلئے عمران خان طوفانی انتخابی مہم چلا سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ عوام کی بڑی تعداد ان کا ساتھ دے۔
عمران خان ہار نہ ماننے والے ایک ضدی انسان ہیں اس لئے لمز کے پروگرام میں جب آرمی چیف باوجودہ صاحب سے پوچھا گیا کہ ”باس،، کون ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ عمران خان کو نہیں جانتے ان کی موجودگی میں کوئی اور باس نہیں ہو سکتا لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب میر ظفر اللہ جمالی مرحوم وزیراعظم تھے تو ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے برملا کہا تھا کہ پرویز مشرف ان کے باس ہیں حالانکہ از روئے آئین وزیراعظم اصل باس ہوتا ہے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ اگر انہیں ایک بار شکست ہوئی تو وہ حتمی اور آخری شکست ہوگی ان کی جماعت ”ون مین شو“ ہے وہ عمر اور کیریئر کے اس حصے میں ہیں کہ دوسری فتح حاصل نہیں کر سکتے بلکہ انہیں ہمیشہ کیلئے زوال آئیگا اسی سے گھبرا کر انہوں نے اپوزیشن کو دھمکی دی تھی کہ اگر عدم اعتماد ناکام ہوئی تو اپوزیشن کیلئے 2023ء کا الیکشن بھی گیا۔
لیکن یہ فیصلہ بعد میں ہوگا کہ کس کو شکست ہوگی اور کون فاتح ہوگا یہ جو اس وقت مولا جٹ، نوری نت اور وحشی جٹ والی کیفیت ہے اسے وزراء مزید بڑھاوا دے رہے ہیں شیخ رشید نے کہا کہ ہے ہم سخت ایکشن لیں گے پیپلز پارٹی اسے سندھ ہاؤس پر حملہ سے تعبیر کر رہی ہے لیکن کچھ بھی ہو سکتا ہے کوئی انہونی بھی ہو سکتی ہے ”برانگیختہ،، جذبات کا ضرور کوئی نتیجہ نکلے گا۔
تمام صورتحال میں اہم بات یہ یہ کہ وکلاء نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے ہو سکتا ہے کہ عدالت کوئی پر امن اور درمیانی راستہ نکال لے اسی میں سب کی بھلائی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں