یورپ ہم سےآگے کیوں نکل گیا

تحریر۔۔۔ جان محمد انصاری
آج دنیا کے دیگر ممالک کیلئے یورپ ایک ترقی کا ماڈل بن چکا ہے۔ یہ ترقی کی سفر انہوں نے راتوں رات میں طے نہیں کیا۔ بلکہ کئی صدیوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انسان کے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ آخر یورپ ہی کیوں ترقی کی؟۔ دنیا کے باقی براعظموں میں جتنے ممالک ہے وہ کیوں ترقی کی اس سفر میں یورپ سے پہچے رہ گئے۔ ملک کے ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب یورپ کی عروج میں اس کی کچھ اس طرح وجوہات بیان کرتے ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ یورپ میں کوئی بھی بندہ آزاد نہیں تھا اور وہ برادری، چرچ ، بادشاہ اور فیوڈل را ڈر کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا ۔ جس طرح آج کل ہم اشرافیہ ، قومیت ، قرفہ ، وہ سرمایہ داروں کے ہاتھوں پھنسے ہوئے ہے ۔
پیدائش اور خاندان سے فرد کے سماجی مرتبہ کا تعین ہوتا تھا ، قابلیت نام کی کوئی چیز کی گنجائش نہیں تھی۔
جنگجوں کو عالموں اور اسکالرز پر ترجیح دیتے تھے۔ معاشرہ سماجی و مذہبی اور سیاسی پابندوں میں جگڑا ہوا تھا۔ تخلیقی عمل روک چکا تھا۔ ادارے اور روایات اپنی افادیت کھوکر فرسودہ اور کھوکھلی ہوچکی تھی ایسے میں یورپ تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا۔ اور پھر انہوں نے کچھ سماجی تبدیلیاں لائے۔ یورپ کی ترقی کا وقت تب شروع ہوا جب انہوں نے معاشرتی اقدار تبدیل کرکے ان بنیادوں پر رکھا۔
کہ وہ خود کیا ہے ؟
اس کے کارنامے کیا ہے ؟
اور وہ معاشرے کے لئے کتنا مفید ہے ؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرق میں جتنے بھی قانون آئے وہ الہی تھے، یعنی یہودیت سے لیکر عیسائت اور پھر اسلام نے معاشرے کو مذہبی قوانین کے زریعے کنٹرول کیا۔
اس کے برعکس مغرب میں انسانی قوانین تھے چاہئے قدم زمانہ سے لیکر لکرگس کے قوانین ہوں، یا سولن کے ، یا رومی ۔ اس فرق کی وجہ سے دونوں معاشرے مختلف جہتوں میں چلے ۔ ایسی قوانین تبدیل ہونے والے نہیں ہوتے۔ اس لیے معاشرہ ان قوانین کے تحت ایک جگہ ٹھہر گئے۔ جب کہ انسانی قوانین مقدس نہیں ہوتے اور انہیں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے لہذا مغرب میں تغیر و تبدیل ہوتا رہا اور معاشرہ متحرک رہا۔
گیارہویں صدی میں مذہبی تعلیم کے علاوہ سیکولر تعلیم کا بھی بندوبست کیا تا کہ بادشاہ اور امرا کی ضروریات و انتظامات کے لئے انہیں تعلیم یافتہ نوجوان مہیا کر سکیں ۔
یورپی دانشوروں کی کوشش تھی کہ علوم کو مذہبی توہمات سے آزاد کرایا جائے اور اس کی نئے سرے سے ایسی ترتیب کی جائے جو روزمرہ کی زندگی میں کام آسکے۔ اس کی تعلق فرد کی نجی زندگی ہی سے نہ ہو بلکہ اس میم پورے معاشرے کے مفادات کو نظر میں رکھا جائے تا کہ ان کی مدد سے متسقبل کی منصوبہ بندی ہوسکے۔ اور اس میں یورپ کے دانشوار کامیاب ہوگے۔
جس زمانے میں مسلمان شہنشاہیں اپنی عیاشوں میں مصروف تھے تب وہی یورپ کے لوگ بہترین تعلیمی ادارے بنارہے تھے ۔
لہذا اگر آج ہم ترقی کرنا چاہتے ہے تو ہمیں بھی یورپ کے باشندوں کی طرح اپنے سماجی زندگیوں میں لاشعوری اور جاہلیت کے بنیاد پر بننے والے اقداروں کو ختم کرنا ہوگا۔
اس کی جگہ عقلی اور سائنسی بنیادوں پر معاشرے کو استوار کرنا ہوگا۔
ایک ترقی یافتہ معاشرہ وہ ہوتا ہے جو اس قابل ہو کہ پیداواری زرائع خود تیار کرسکے، انہیں استعمال کرسکے ، ان کو تبدیل کرسکے ، اور اس علم کو آنے والے نسلوں میں منتقل کرسکے۔
صلاحیت اور لیاقت کی بنیاد پر لوگوں کو معاشرے میں عزت و احترام دے ، مقابلہ اور مہم جوئی کے جذبات پیدا کرئے، تا کہ لوگ اپنی تخیلقی اور محنت سے لطف اندوز ہوسکیں۔