ترقی پسند تحریکات اور بلوچ طلبا کی سیاست

تحریر: صدیق کھیتران
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ملک بغیر آئین کے نوسال تک چلتارہا۔ پہلا آئین 1956 میں بنا۔ان 9 سالوں میں بظاہر آئین ساز اسمبلی موجود تھی لیکن وہ حقیقی معنوں میں عوامی ادارہ نہ تھی جہاں عوام کی آواز کو بلند کیا جاسکے۔ سیاسی جماعتوں کے علی الرغم طلبا سیاست ہی ایک موثر کارگر ذریعہ بنارہا۔حکمرانوں کی سب سے زیادہ توانائیاں اس پر لگی رہیں کہ کس طرح عوامی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔ چنانچہ آج بھی طلبا کو سیاسی  عمل سے دور رکھا جارہا ہے۔اس وقت پاکستان کی آبادی کا 64 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پورے ملک میں 220 کے قریب  یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں 22 لاکھ نوجوان اعلٰی تعلیم حاصل کر رہیہیں۔ جوکہ ملکی آبادی کا ایک فی صد بنتا ہے۔ جب دوسرے ممالک سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو صورت حال بہت مایوس کن نظر آتی ہے۔ دنیا میں 31,097 یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 5288 ہندوستان، 3216 امریکہ جبکہ انڈونیشیا میں 2595 ہیں۔ترقی یافتہ ممالک یعنی برطانیہ اور آسٹریلیا میں   یونیورسٹی کی سطح پر پڑھنے والی آبادی کا تناسب 50 فی صد سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ ہمارے المیوں میں یہ بھی تو شامل ہے کہ ہمارے سند یافتہ طلبا کی استعداد مارکیٹ کے معیار کے مطابق نہیں ہوتی۔ایک فقرہ طنزا” کہا جاتا ہے ہماری یونیورسٹیاں ڈیجیٹل تقسیم کے اس دور میں ناخواندگی کی فیکٹریاں بنی ہوئی ہیں۔ماضی بعید میں ہمارے نوجوان بہت ہی بااثر اور قومی امور میں انقلابی کردار ادا کرتے رہے۔ان طلبا نے سائنسی میدان سیمت سیاسی تحریکوں میں بھی ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ وہ سیاسی جماعتوں کی ھیت اور بناوٹ تشکیل دینے اور قانون سازی میں باوقار کردار ادا کرتے رہے۔نوجوان عام طور پر زیادہ ترقی پسند، بیباک، نڈر، توانا،  اور واضح موقف کے ساتھ معاشروں کو آگے لے جانے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ان میں سیکھنے اور اس پر بغیر ریاکا ری کے عمل کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ان کی کردار ساذی ہی مستقبل کا قومی لائحہ عمل ترتیب دینے کی بنیاد بنتی ہے۔جس کیلئے ضروری ہے کہ ان کو عملی تربیت  سے گزار کر ان کے کردار میں پختگی لائی جائے تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجوں سے عہدہ برا ہوسکیں۔ یہ کہ باوجود کچھ تلخ تجربات کے، سیاست  میں کردار ادا کرنے  کے اندر بہت ساری خوبیاں ہیں جیساکہ شعور کی بلندی، حالات حاضرہ سے آگاہی بڑھتی ہے  اور سب سے اہم بات یہ  کہ انسان کیاندر راہنمائی اور قربانی کے جذبے کو  سیاسی تربیت ہی جلا بخشتی
ہے۔جو طلبا سیاست میں حصہ لیتے ہیں وہ بلا کے مقرر بنتے ہیں ان کے اندر خوف اور ہچکچاہٹ ختم ہوجاتی ہے۔وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے دوران مسائل سے نمٹتے ہیں جھگڑوں کو حل کرنے اور چھوٹے بڑے بحرانوں کو سدھارنے پر کام کرتے ہیں تب ان کیاندر مہارت پیدا ہوتی ہے۔ یہ عملی تجربہ ان کے اندر ایثار کے ساتھ ساتھ اعتماد بڑھاتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں نوجوانوں کا  ایکسپوڑر خاص کر سوشل میڈیا یعنی فیس بک، انسٹاگرام، ای میل، وٹس اپ اور نت نئی سماجی رابطوں کے ساتھ ضرورت بن گیا ہے ایسے میں اگر وسیع الخیال اور بیججھک تربیت نہیں ہوگی تو وہ زمانے کی دوڑ میں مار کھاتے رہیں گے۔ سیاست کی آگاہی تو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے خود ہی عوام کو مل رہی ہے البتہ کردار سازی کی کمی رہ جاتی ہے جوکہ عمل سے گزرے بغیر ممکن ہی نہیں۔  اس کے لیئے ضروی ہے کہ نوجوان جن اداروں میں زیرتعلیم ہیں وہاں ان کو یونین سازی اور دوسری عملی سرگرمیوں کے کھلے مواقع فراہم کیئے جائیں۔اس معاملے میں سندھ حکومت کا حالیہ اقدام قابل ستائیش ہے۔بلوچستان میں بھی حزب اختلاف کو پہل کرکے  اسمبلی میں بل پیش کرنا چاہیے۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں   کہ آج بھی سیاسی جماعتوں، سوشل میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور وکلا کمیونیٹی میں ایسے لوگوں کا کردار کہیں اونچے مقام پر ہوتا ہے جو اپنے زمانہ ٍ طالب علم میں طلبا سیاست میں سر گرم رہ چکے ہوتے ہیں۔یہ لوگ آج بھی اپنی اپنی جماعتوں، پیشہ ور تنظیموں کا چہرہ ہیں۔ رضا ربانی، اعتزاز احسن، افراسیاب خٹک، بشرہ رحمان، ڈاکٹر مالک بلوچ، یوسف مستی خان،  فرحت اللہ بابر،امتیاز عالم، رشید احمد، مرحوم حاصل خان بزنجو، مرحوم  عثمان کاکڑ، شیخ  مجیب الرحمان، نجم سیٹھی، محمود خان اچکزئی، لیاقت بلوچ، مرحوم ڈاکٹر عبدالحء، رازق بگٹی شہید، حبیب جالب بلوچ، ڈاکٹر کہور بلوچ، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان، معراج خالد، علی احمد کرد، سراج احمد،الطاف حسین، طارق عظیم، فاروق ستار اور قاضی حسین احمد جیسے سینکڑوں لوگ ہیں جنہوں نے طالب علمی سے ہی سیاست کی ہے  وہ بدعنوانی سے کوسوں دور رہے اور اپنے کردار پر کبھی داغ لگنے نہیں دیا۔انہوں نے کم سے کم اسٹیبلشمنٹ کے  ساتھ ڈیل کرکے ملک و قوم اور سوچ کو دولت کے عوض نہیں بیچا۔آج کے بڑے بڑے سیاست دان طلبا یونینوں کے بعد کی پیداوار ہیں ان میں اکثریت جاگیردار طبقے، منشیات  فروش،ٹھیکیدار، بھتہ خور،  اور اسٹیبلشمنٹ سے فخریہ تعلق کے دعویدار بدعنوانی کے استعارے بنے ہوئے ہیں اسی طرح جو بیوروکریٹ اپنی جوانی میں کسی فکر سے جڑے رہے وہ نسبتاً” بہتر کردار کے رہے ہیں گوکہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے مگر وہ اپنے اداروں میں   رول ماڈل ثابت ہوتے ہیں۔جس ملک میں وزارت اعلئی سے لیکر سیکریٹری و ڈپٹی کمیشنر اور چپراسی سے لیکر پولیس سپاہی کی پوسٹ تک بکتی ہے۔ جہاں حزب اختلاف بھی سودا لگا کر اختلاف کی نشست سنبھالتی ہو وہاں جمہوری قدریں کہاں بچتی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ان عوامل نے بدقسمی سے معاشرتی اور سیاسی اخلاقیات کو  سمندر برد کر دیا ہے معاملات کو اگر کوئی سدھارنا چاہتا بھی ہے تو سب سے  پہلے مرض کا علاج کرنا ہوگا ناکہ علامات کی خبر لینے سے یہ مسلے حل ہونگے۔ آخری بار جنرل
ضیا کے مارشل لا (1984) میں طلبا سرگرمیوں پر پابندی لگی۔ جس کو اب 36 سال ہونے کو ہیں۔اس وقت یہ عذر پیش کیا جاتا تھا کہ طلبا کی سیاست کی وجہ سے معاشرے میں تشدد بڑھتا ہے۔ یہ سیاست اقربا پروری اور عصبیت پیدا کرتی ہے  کیونکہ سیاسی جماعتیں ان کے دباو میں رہتی ہیں۔مگر وقت نے ثابت کیا ہے۔کہ یہ سب جھوٹے عذر تھے۔ الٹا مصنوعی سیاست دان پڑھے  لکھے سیاسی ورکروں کے اخلاقی دباو سے  نکل گئے۔ جس کا خمیازہ جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں