غیر سیاسی لڑائی اور ایک ٹیلی فون کال

تحریر: انورساجدی
جو کچھ اس ریاست میں ہو رہا ہے یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے 75 سال ہو گئے ہیں بے چاری جمہوریت اپنے پیروں پر چلنے کے قابل نہ ہوئی کیونکہ یہ پولیو زدہ ہے آثار بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں بھی یہ پولیو زدہ نام نہاد جمہوریت چلنے کے قابل نہیں بنے گی۔
1988ء سے اب تک مختلف اوقات میں کسی بھی وزیراعظم کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیئے گئے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر حکومت کا چوتھا سال نحوست لے کر آتا ہے اور پھر وہی ڈرامہ رچایا جاتا ہے جس کا اسکرپٹ طے شدہ ہوتا ہے یہ جو موجودہ اسکرپٹ ہے یہ 2014ء میں لکھا گیا 2016ء تک کرپشن کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی گئی ایک وزیراعظم کو ٹھیک چوتھے سال میں جیل بھجوایا گیا اور 2018ء میں انتخابات اسکرپٹ اور طے شدہ پلان کے تحت کروائے گئے ایک شخص کو ہیرو بنا کر اس کی کامیابی کا اعلان کیا گیا کچھ ہی عرصہ میں سپریم کورٹ کی تاریخ کے ایک سروقد چیف جسٹس المعروف ڈیموں والی سرکار ثاقب نثار نے نئے اور لاڈلے وزیراعظم کو صادق اور امین قرار دے کر ان کی پشت مضبوط کی نئے وزیراعظم نے بلند بانگ دعوؤں کا سلسلہ جاری رکھ کر ایک نئے پاکستان کی نوید سنائی لیکن رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ اس حکومت کو تو کسی چیز کا پتہ نہیں کیا معیشت کیا سفارتکاری اور کیا سیاست اس نے بہتری کی بجائے پرانی روایات کو بھی روند ڈالا کرپشن کے خلاف اس کا بیانیہ پٹنے لگا کرپشن ایک نئے انداز میں جلوہ گر ہوا جس کے نتیجے میں وزیراعظم ایک طاقتور مافیا کے حصار میں آ گیا اس مافیا نے انہیں ایک خیالی دنیا میں محبوس کر دیا انہیں پارٹی کے مخلص رہنماؤں اور کارکنوں سے دور کر دیا اس طرح معاملات کنٹرول سے باہر ہوتے گئے تاوقتیکہ آصف علی زرداری نے عدم اعتماد کی بساط بچھائی حکومت کچھ بھی کہے یا وقتی طور پر طوفانوں کو ٹال دے لیکن حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے اور وزیراعظم اکثریت سے محروم ہو گئے ہیں آئین سے انحراف یا آئینی دفعات کی نئی تشریح کا سہارا لیا جانے لگا ہے یہ تو معلوم نہیں کہ اسکرپٹ کا اصل پلاٹ کیا ہے لیکن نیوٹرل ہونے کا تاثر دے کر وزیراعظم کو وقتی طور پر یکہ و تنہا میدان میں چھوڑ دیا گیا وہ اپنے کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں غصے میں غلط فیصلے کر رہے ہیں عوام کی عظیم حمایت کا دعویٰ کرکے ایک آئینی مسئلہ کو طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ یہ عدم اعتماد کے بعد کی چیزیں ہیں۔
مثال کے طور پر اگر وزیراعظم موجودہ بحران سے نکل گئے تو ان کا عوام سے رجوع کرنا بنتا ہے اگر وہ بحران میں پھنس کر اقتدار کھو بیٹھے تو اس کے بعد انہیں یہ بتانے کیلئے عوام کے پاس جانے کی ضرورت ہے کہ
مجھے کیوں نکالا
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دو پہلوانوں میں مقابلہ ہے جس میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست یقینی ہے لیکن یہ فتح و شکست ایمپائر کے تعاون اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے جس طرح حکومت کے اتحادی اس آخری لمحہ کا انتظار کر رہے ہیں کہ کس پہلوان کا پلڑا بھاری ہو جائیگا تب وہ اپنی حمایت کا زون اس کے پلڑے میں ڈال دیں گے اسی طرح بالکل آخری لمحے میں ایمپائر اپنا حتمی فیصلہ سنا دیں گے فی الحال تو معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے اور وہ یقینی طور پر اپنا فیصلہ دے گی کہ آئین کی دفعہ 63 اے کے تحت باغی ارکان مخالف فریق کو ووٹ ڈال سکیں گے کہ نہیں اگر دیگر تشریحات کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی اس بارے میں فیصلہ آ جائیگا لیکن کچھ اختیارات اسپیکر کے بھی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اسپیکر نے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر قومی اسمبلی کا اجلاس تو طلب کر لیا ہے لیکن ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد پر بحث شامل نہیں کی ہے پروگرام یہ ہے کہ اسپیکر اجلاس کے انعقاد کے فوراً بعد اجلاس ملتوی کر دیں گے تاکہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ تاخیر کا شکار ہو جائے اسپیکر کو قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ اس سے آئین کے خلاف ورزی ہوتی ہے کہ نہیں اس تاخیری حربے کا مقصد حکومت کو کچھ زیادہ وقت فراہم کرنا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھا کر حکومت اپنے باغی اراکین کو واپس لائے اور وزیراعظم یقینی شکست سے بچ جائے چونکہ عمران خان ایک اڑیل اور ضدی شخص ہیں اس لئے وہ حالات سے گھبرا کر استثنیٰ دینے والے نہیں ہیں انہوں نے پہلے سے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ آخری بال تک مقابلہ کریں گے لیکن وزیراعظم کو شائد اس بات کا ادراک نہیں کہ ان کی ٹیم کمزور ہے وہ جبر کے ذریعے ورلڈ کپ جیتنا چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے وزیراعظم اپنے باغی اراکین کوواپس لا کر انہیں قیدی یا غلام بنا کر ان کے ذریعے اپنی ناکام حکومت برقرار رکھنا چاہتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ قہر بن کر اپوزیشن اور سارے مخالفین پر ٹوٹ پڑیں وزیراعظم ایک کھلی جنگ کا ادارہ بھی رکھتے ہیں ان کی پیدل فوج کا سربراہ فی الحال یک جماعتی اور یک رکنی وزیر شیخ رشید دکھائی دیتے ہیں وہ روز بدتمیزی اور بدکلامی سے کام لے کر کپتان کا کام آسان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے اپنے تازہ بیان میں بلاول بھٹو کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کے دودھ کے دانت ابھی نہیں نکلے اور وہ چلے ہیں او آئی سی کا اجلاس روکنے ان کی شکل کہ وہ یہ کام کرے اسی طرح انہوں نے شہباز شریف کو سینئر سٹینزن کا نام دے کر ناکارہ قرار دیدیا انہوں نے ٹی وی پر جس طرح منہ بنا کر عمران خان کے حریفوں کو برا بھلا کہا اس سے غیر سنجیدگی اور مسخرہ پن کا اظہار ہوتا تھا۔
غالباً شیخ رشید اس لئے چھلانگیں لگا رہے ہیں کہ اپوزیشن کو پیغام دیدیا گیا ہے کہ او آئی سی کانفرنس منعقد ہونے دو اس کے بعد دیکھا جائیگا کہ کیا کیا جائے اس سے حکومت سمجھ رہی ہے کہ ایمپائرز کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے اور وہ دوبارہ حکومت کی حمایت کر دیں گے لیکن حکومت کو بھی معلوم نہیں کہ ڈرامہ کا کلائمکس یا اختتام کیا ہوگا جب آخری سین آئیگا تو اس میں ضرور کوئی خوشی سے نہال اور کوئی رو رہا ہوگا کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ رونے والا کون ہوگا؟
لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر عمران خان بچ گئے تو وہ دوبارہ کوئی مہم جوئی نہیں کریں گے اور اچھے بچوں کی طرح تابع فرمان بن کر رہنے کی یقین دہانی کروائیں گے لیکن کپتان کا کوئی بھروسہ نہیں اگر انہوں نے دوبارہ طاقت پکڑ لی تو وہ ضرور اگلی مہم جوئی سے باز نہیں آئیں گے آئندہ چند مہینوں کے دوران انہیں جو اہم تقرریاں کرنی ہیں اس سلسلے میں وہ اپنے اختیار کا ضرور استعمال کریں گے یہ جو اس وقت سیاسی لڑائی نظر آ رہی ہے یہ دراصل سیاسی لڑائی نہیں ہے اس کے اصل اسباب و عوامل غیر سیاسی ہیں اس کا پس منظر بہت پرانا ہے میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن جب بھی انہوں نے خود کو بااختیار وزیراعظم سمجھنا شروع کر دیا انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا گیا عمران خان شروع میں تو ایک ”شو بوائے“ کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئے تھے لیکن اقتدار کے تیسرے سال میں انہوں نے خود کو واقعی وزیراعظم اور باس سمجھنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے اگر عمران خان نے چو مکھی لڑائی جاری رکھی تو ان کا انجام نواز شریف سے بھی زیادہ عبرتناک ہو گا ان کے پاس نہ تو کوئی منظم پارٹی ہے اور نہ ہی فہمدہ اور معاملہ فہم دوستوں کی فراوانی ہے پی ٹی آئی اصل میں ایک گالم گلوچ بریگیڈ ہے جس کا مشاہدہ اکثر پارتی یا لیڈر کو درپیش مشکل اوقات میں سامنے آتا ہے مثال کے طور پر جب سے اپوزیشن نے وزیراعظم کو نکالنے کی مہم شروع کی ہے گلام گلوچ بریگیڈ آپے سے باہر ہے عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد جب یہ تاثر پیوا ہوا کہ ایمپائر نیوٹرل ہے تو پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے ایمپائر کے خلاف بھی محاذ کھول دیا اور تو اور ایک خاتون ایم این اے جس نے سندھ ہاؤس کوٹی وی پر جسم فروشی کا اڈہ قرار دیا تھا ایمپائر کے خلاف بھی ایسی بد زبانی کی کہ ماضی میں اس کی مثال موجود نہیں وزیراعظم کے مشیر شہباز گل نے تو ٹی وی پر ایم این اے رمیش کمار کو کئی مرتبہ دلال سے ملتا جلتا لفظ کہا علامہ فواد چوہدری نے بھی گالی دینے میں کسی کسر نفی سے کام نہیں لیا لیکن کوئی سوچتا نہیں کہ یہ مکافات عمل ہے جب 2018ء میں جہانگیر بھیڑ بکریوں کی طرح اراکین اسمبلی کو پکڑ پکڑ بنی گالا لا تا تھا تو کپتان کو معلوم نہیں کہ یہ موسمی پرندے اور لوٹے ہیں وہ ہر ایک کے گلے میں پٹہ ڈال کر فخریہ انداز میں کہتے تھے کہ فلاں جماعت کی وکٹ گرا دی ہے اب جبکہ یہ موسمی پرندے نئے گھونسلوں میں جا رہے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت کو برا لگ رہا ہے اگر یہ کوئی جماعت ہوتی تو لوٹوں کی بجائے حکومت نہ بناتی اور آئندہ الیکشن میں اپنی جماعت کے دیرینہ اور وفادار کارکنوں کو ٹکٹ جاری کرتی تو رونے کی نوبت نہ آتی۔
عمران خان اور ان کی انڈر 17 ٹیم کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اگر عمران خان ایک مرتبہ اس بحران سے نکل آتے تو وہ آمر مطلق یا بادشاہ بن جائیں گے اور انہیں تاحیات ہٹانا مشکل ہو گا انہیں پتہ نہیں کہ پاکستان میں طاقت کا ایک ہی مدار ہے اور وہ غیر سیاسی ہے جبکہ سارے سیاسی ستارے اس کے گرد گردش کرتے ہیں۔
بہرحال حالیہ بحران آئندہ چند دنوں میں شدید تر ہوگا اسپیکر پر آئین شکنی کا کا الزام لگے گا پنجاب اور پشتونخواء میں بھی عدم اعتماد کی تحاریک آئیں گی اپوزیشن تو زیادہ سمجھدار ہے اور وہ ٹیلی فون کے ذریعے ہدایات پر من و عن عمل کر رہی ہے لیکن وزیر داخلہ بڑے سادہ ثابت ہوئے ہیں انہوں نے یہ راز کی بات بھی بتا دی ہے کہ پوری اپوزیشن ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئی ہے بھائی صاحب کو معلوم نہیں کہ جب فون کال دوسری طرف جائے تو وہاں کیا عالم ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں