امریکہ اور اسلام کے نام پر قائم ریاستیں !

تحریر از جان محمد انصاری
امریکہ کے نعرے تو جمہوری ہے ، لیکن امریکہ کو ہمیشہ سے امریت پسند ہے۔ اسے عوامی جمہوری خودمختار حکومتیں ہرگز برداشت نہیں ہوتی، اسے ایسے امر بہت پسند ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی مفادات کو بچانے اور تقویت دینے کیلئے ہمیشہ رضامند اور تیار رہے۔ امریکہ کی خارجہ پالسی یہی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی عوامی حکومت قائم ہوجائے جو خودمختار ہو، جس کی داخلی اور خارجہ پالیسی آزاد ہو اور وہ خود اپنی پالیسیاں بنائے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی دوسری خواہش ہوتی ہے کہ کوئی بھی حکومت اس کے مخالف کیمپ روس ، اور چین کی طرف جھکاو نہ رکھتا ہو۔ امریکہ اپنی بالادستی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء کی خاطر سوشلسٹ یا کیمونسٹ ریاست کے بجائے اسلامی بنیادوں پر مبنی ریاستوں یا حکومتوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ کیونکہ امریکہ اور اس کی مفادات کو عالم اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ بلکہ امریکہ اسلامی بنیادوں پر قائم ہونے والے حکومتوں اور ریاستوں کا سب سے بڑا سپورٹر رہا ہے۔ اور بالخصوص جہان براہ راست اسلام کے نام پر آمریت قائم ہو۔ ایران کے اندر جب رضا شاہ پہلوی کی آمریت کے خلاف ایرانی عوام نے جدوجہد کا آغاز کیا اور شاہ کو برطرف کرنے کیلئے ایران کے اندر عوامی تحریکیں چلی اور شاہ مجبور ہوگیا کہ اقتدار سے دست بردار ہوجائے تو امریکہ نے اپنی مفادات کو بچانے کی خاطر حکومت علماء ایران کے حوالے کردی۔ حالانکہ شاہ کے خلاف مزاحمت اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں میں پیش پیش بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں شامل تھے۔ لیکن امریکہ کو علم تھا کہ سوشلسٹوں کے مقابلے میں امریکہ کے مفادات میں علماء کی حکومت ہے۔ آج بھی اس خطے میں امریکہ کو ایران اور ایرانی ولایت فقہ کئ حکومت کو امریکہ نے قائم رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ کس طرح اور کیوں ؟ اب ایران کے اندر ولایت فقہ کے نام سے ایک شیعہ سیاسی نظام حکومت قائم ہے۔ جس میں اقتدار شیعہ مذہب کے علماء میں سب سے زیادہ عالم فقہ کو حاصل ہے ۔ جو کہ اگر سیاسی نگاہ سے دیکھا جائے تو ایران میں ایک امر کی حکومت قائم ہے۔ باقی رہی جمہوریت تو جمہوریت ویسے ہی ہے جس طرح وطن عزیز پاکستان میں ہے۔ یعنی سبھی کو معلوم ہے کہ اقتدار میں آنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو کس گرو کی حمایت کا حاصل ہونا لازمی ہوتا ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے اقتدار میں لاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے عدالتوں کے زریعے سے تاحیات نااہل کردیتا ہے۔ وہاں ایران کے عوام ولایت فقہ سے کتنے خوش اور مطمئن ہے یہ وہ لوگ ہی بہتر جانتے ہے اور بتا سکتے ہیں ؟ ٹھیک اسی طرح سوائے ایک چند کے جہاں براہ راست بادشاہت قائم نہیں ، سعودی عرب سمیت تمام ممالک پر بادشاہت کی نظام حکومت قائم ہے ۔ عرب بہار ( Arab Spring ) کے نام جو تحریکیں عرب ممالک میں آئی وہ بھی امریکہ کے اماء پر تھی ۔ یعنی امریکہ جس حکمرانوں کو ہٹانا چاہتے تھے انہیں جمہوریت کے نام پر برطرف کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن عرب بہار شام اور یمن میں خوفناک جنگ میں تبدیل ہوگیا ۔ چونکہ سعودی عرب میں امریکہ نواز حکومت قائم ہے لہزا عرب بہار کی تحریک وہاں نہیں پھیلی، ترکی بھی امریکی گود میں ہے ، رجب طیب اردگان بڑی چالاکی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات کو مضبوط کر رکھا ہے اور دوسری طرف خلافت عثمانیہ کا چورن بھی بھیجتے ہوئے نظر آتا ہے دونوں صورتیں امریکہ کے مفادات میں ہے۔ امریکہ افغانستان میں پیچلھے اکیس سالوں سے جمہوریت کے نام پر بیٹھا ہوا تھا لیکن آخر کار افغانستان کو طالبان امروں کے ہاتھوں میں دے کر بظاہر تو نکل گیا لیکن نکلا ہوا نہیں ہے ۔ افغانستان پر 15 اگست 2021 کو طا لبان نے دوبارہ اقتداء پر قابضہ کرتے ہوئے کابل میں داخل ہوگئے۔ اشرف غنی جو افغانستان کا نام نہاد صدر تھا ملک سے فرار ہوگیا اور تمام ریاستی مشینری طا لبان کے حوالے کردی گئ ۔ اب افغانستان می ایرانی طرز حکومت ولایت فقہ کی شکل میں طا لبان کا سنی امارت اسلامی قائم ہوچکا ہے۔ جس طرح ایران میں ایک شیعہ عالم دین سپریم لیڈر ہوتا ہے یعنی امر ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح افغانستان میں طا لبان کے امارات اسلامی میں ایک سنی عالم امیرالمومنین ہے۔ دونوں حکومت میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے اب تک۔ اور تیسری طرف پاکستان ہے جو اس طرح اسلامی بھی نہیں ہے اگر ایرانی طرز حکومت اور افغانستان میں قائم ہونے والے امارت اسلامی والے نظام حکومت کی روشنی میں دیکھا جائے اور نہ ہی ایک حقیقی جمہوری ہے بہر حال پاکستان میں موجودہ نظام حکومت بالخصوص اقلیت میں رہنے والے اقوام کیلئے ایرانی طرز اسلامی حکومت اور طا لبانی طرز امارات سے لاکھوں بہتر ہے۔
لیکن پھر بھی پاکستان میں ایک غیر واضح انداز میں امریت قائم ہے ۔ پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل صاحب ایک انٹرویو میں کہتے ہے کہ امریکہ کو امر ہمیشہ سے پسند ہے اور چاہتا ہے امروں کی حکومت قائم ہوجائے تاکہ اپنی مفادات کو بچانے اور فروغ دینے کیلئے فرد واحد سے گفتگو ہو اگر ان کے بیان کردہ قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ کو امر پسند ہے وہ اس خطے کے عوام پر آمروں کو مسلط کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے ۔