ڈی،ڈے

تحریر: انورساجدی
سوا سال کی رسوائی سے کہیں بہتر ہے کہ عمران خان سیاسی شہید بن جائیں کم از کم وہ آئندہ انتخابات میں یہ جھوٹا دعویٰ کرسکیں گے کہ وہ ملک کو لیکر آگے چل رہے تھے لیکن امریکہ یورپ نے اپنے پاکستانی حواریوں کے ساتھ مل کر ان کی حکومت ناکام بنادی اگر انہیں مدت پوری کرنے دیا جاتا تو وہ عوام کے پاس جاکر کیا کہتے بدترین مہنگائی کرپشن اور معاشی انارکی کو تو وہ اپنی کارکردگی بناکر پیش تو نہ کرسکتے۔
اب جبکہ ڈی دی میں صرف3دن رہ گئے ہیں تو اس ہائی ڈرامے کا کلائمکس ابھی تک غیر واضح ہے اگر سدابہار لوٹوں یعنی اتحادیوں نے26مارچ تک اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا تو سمجھو کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا اگر اتحادیوں نے حکومت کا ساتھ نہ چھوڑا تو فیصلہ کن کردار منحرف اراکین کا ہوگا سنا ہے کہ اسپیکر منحرف اراکین کے ووٹ تو گنیں گے لیکن انہیں شمار نہیں کریں گے جس کی وجہ سے عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجائے گی اسپیکر کی رولنگ کے بعد اپوزیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا اور یہ معاملہ آئندہ انتخابات تک ٹل جائیگا۔یہ الگ بات کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63اے کے بارے میں دائر صدارتی ریفرنس میں کوئی چونکا دینے والا فیصلہ دیدے۔
وزیراعظم جو بھی کہے بھلے ملکی و غیر ملکی سازشوں کو واشگاف کردیں لیکن اس حقیقت کو نہیں جھٹلاسکتے کہ وہ پارلیمان میں اکثریت کھوچکے ہیں اکثریت کھودینے کے بعد ان کی سیاسی و پارلیمانی طاقت باقی نہیں رہے گی جس کی وجہ سے حکومت چلنے سے قاصر رہے گی لہٰذا بہت بہتر ہوگا کہ وزیراعظم27مارچ کے جلسے میں جس کا انعقاد مشکوک ہے مستعفی ہونے کا اعلان کریں بلکہ وہ اس بات پر ڈٹے رہیں کہ وہ وزیراعظم کا عہدہ چھوڑرہے ہیں ان کی جگہ تحریک انصاف کی کسی اور شخصیت کو نامزد کریں گے تاکہ اسمبلی اپنی میعاد پوری کریں اگراپوزیشن اور ان کے سرپرستوں نے یہ بات نہیں مانی اور اپوزیشن نئی حکومت بنانے پر مصر رہی تو ایک بہت بڑی ناکامی اور رسوائی کو دعوت دے گی کیونکہ سوا سال کے عرصہ میں لوگ عمران خان کی ناکامیوں کو بھول جائیں گے آنے والی مزید مہنگائی انتشار بدامنی غرض کہ ساری صورتحال کی ذمہ دار نئی حکومت کو ٹھہرائیں گے جس کا فائدہ آئندہ انتخابات میں عمران خان کو ہوگا یہ حقیقت یاد رکھنے کی ہے کہ2011ء سے اب تک عمران خان نے ہزاروں نوجوانوں کو اپنا پیروکار بنالیا ہے یہ مخالفین کی خوش فہمی ہوگی کہ اقتدار کی کرسی سے اترنے کے بعد عمران خان گمنامی میں چلے جائیں گے ایسا ہرگز نہیں ہوگا ان کے حامی آئندہ انتخابات میں انتقامی جذبہ کے تحت ووٹ ڈالیں گے یہ تو ممکن نہیں کہ تحریک انصاف اکثریت حاصل کرلے لیکن وہ پنجاب میں زندہ رہے گی اور عمران خان اس قابل ہونگے کہ اپنا بیانیہ جاری رکھیں اگرچہ ان کا بیانیہ غیر حقیقی اور خیالی ہے لیکن وہ اپنی معزولی کاسارا بوجھ امریکہ اور یورپ کی سازش کوگردانیں گے اور جوابی وار کرکے مولانا نوازشریف اور زرداری کو مغربی دنیا کے آلہ کار ثابت کرنے کی کوشش کریں گے ایسا تو ذوالفقار علی بھٹو نے1977ء کی تحریک کے دوران کیا تھا لیکن پی این اے کی قیادت اور اس کی پشت پر موجود آرمی چیف جنرل ضیاؤ الحق پر اس بیانیہ کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا بلکہ ضیاؤ الحق اور پی این اے کے درمیان جو خفیہ سازوباز ہوا تھا اس کے تحت ضیاؤ الحق نے بھٹو کا تختہ التنے کی یہ شرط رکھی تھی کہ بھٹو کے بعد جو نئی حکومت بنے گی پی این اے کے اکابرین اس کا حصہ دار بنیں گے تاکہ آئین سے ماوریٰ اقدام میں وہ بھی برابر کے شریک ہوں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مارشل لا نہ لگتا تو پی این اے عوامی مظاہروں کے ذریعے بھٹو کا تختہ الٹنے میں کامیابی حاصل نہ کرتی چنانچہ ضیاؤ الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو پہلی کابینہ بنائی اس میں پی این اے کی تمام جماعتیں شامل تھیں ضیاؤ الحق نے ان کہنہ مشق سیاستدانوں کو بھی اپنے ساتھ کیچڑ میں اتارا تھا1979ء میں بھٹو کو پھانسی کے بعد ضیاؤ الحق نے پی این اے کے رہنماؤں کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے بعد ”ٹشو پیپر“ کی طرح پھینک دیا تھا ضیاء الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی نے اپنے جس رکن کو بھیجا تھا اس کا نام محمود اعظم فاروقی تھا انہیں اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا تھا۔ضیاؤ الحق کے سب سے پسندیدہ وزیر یہی تھے وہ چونکہ ضیاؤ الحق کے ہم نظریہ تھے اس لئے ضیاء الحق نے ان کے ذمہ ایک تاریخی کام لگایا یعنی ان تمام وڈیو اور آڈیو شواہد کو مٹانا جس میں یہ ظاہر ہو کہ پاکستان مسلمانوں کیلئے بناتھا نظام اسلام کے نفاذ کیلئے نہیں اس دور کے محکمہ اطلاعات نے بانئی پاکستان کے ایسے سینکڑوں فرمودات تیار کی تھیں جو بانئی پاکستان نے کبھی کہی نہیں تھیں شائد یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ وہ جماعت اسلامی جس کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی چشتی نے قیام پاکستان کی مخالف کی تھی اور پٹھان کوٹ میں لکھے گئے اپنے رسالہ میں قراردیا تھا کہ اسلام سے ناواقف مسلم لیگ کی قیادت جو ریاست بنائے گی وہ ناپاکستان ہوگا لیکن جماعت اسلامی کے بانی نے تاریخی یوٹرن لیکر یہ جھوٹ گھڑا کہ وہ تو مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی حامی تھے محمود اعظم فاروقی نے بحیثیت وزیراطلاعات بدترین سنسرشپ نافذ کی اور پریس ٹرسٹ کے اخبارات سے ترقی پسند اور روشن خیال صحافیوں کو نکال باہر کیا الحاج محمد زمان اچکزئی کانورانی چہرہ کون بھول سکتا ہے جو مارشل لا کی کابینہ کاحصہ تھے موصوف کاتعلق جمعیت علمائے اسلام سے تھا اگر دیکھاجائے تو آج کی اپوزیشن کا جو ماضی ہے وہ زیادہ روشن نہیں ہے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر باقی سب کا دامن آمریتوں کی حمایت سے داغدارہے۔
حقیقت جو ہے وہ حقیقت ہوتی ہے اسے بلند وبانگ دعوؤں سے جھٹلایا نہیں جاسکتا مثال کے طور پر جے یو آئی کے اکابرین نے1964ء تا1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی اس لئے مخالفت کی تھی کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں ہے1988ء کے انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا تھا کہ وہ عورت کی حکمرانی کے مخالف ہیں لیکن پھر کیا ہوا مولانا نے بینظیر کی قیادت قبول کرکے ان کی زیر سایہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن گئے جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے تو اس کی ولادت باسعادت ضیاؤ الحق کی گود میں ہوئی تھی 1997ء تک میاں نوازشریف جنرل ضیاؤ الحق کو مقدس ہستی سمجھتے تھے لیکن فوج سے تعلقات بگڑنے کے بعد انہوں نے نہ صرف ضیاؤ الحق کے نظریات سے کنارہ کشی کرلی بلکہ سویلین بالادستی کے وکیل بن گئے 2006ء میں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت ان کی سیاسی زندگی کا سنگ میل ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ بینظیر کیخلاف فوج کے تیار کئے گئے میمو اسکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر مدعی بن گئے اور میثاق جمہوریت کے پرخچے اڑادیئے ایک تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 12اکتوبر 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کا تختہ الٹ دیا تو پیپلزپارٹی نے اس کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا تھا اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا عجیب وغریب کردار ہے ہر جماعت نے برسراقتدار آنے کیلئے جرنیلی سوٹی کا سہارا لیا ہے پیپلزپارٹی نے طویل جدوجہد کی لیکن بالآخر سب سے بڑی طاقت کے آگے سرنگوں ہوگئی2008ء سے نام نہاد جمہوریت کا تسلسل قائم ہے لیکن کبھی صحیح انتخابات نہیں ہوئے اور نہ ہی جمہوریت قائم ہوئی عالمی تجزیہ کار بار بار اسے شیم جمہوریت کے نام سے پکارتے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں جو اس وقت صورتحال ہے اپوزیشن اور حکمران جماعت ملتجی نظروں سے مقتدرہ کی جانب دیکھ رہے ہیں اور ہر ایک کی کوشش اور خواہش ہے کہ ایمپائر اس کی حمایت کرے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف تو کچھ زیادہ بچھے بچھے نظر آتے ہیں مصلحت کی خاطر میاں نوازشریف اور ان کی دختر نیک اختر نے اپنا سابقہ بیانیہ ترک کردیا ہے جبکہ سب کو پتہ ہے کہ مولانااور زرداری سے درپردہ رابطے قائم ہیں لہٰذا پاکستان کی ریاست میں صحیح جمہوریت کا قیام ایسا خواب ہے جس کے شرمندہ تعبیر ہونے میں بہت وقت لگے گا سیاسی جماعتیں شخصی مطلق الضانیت اور خاندانی وراثت پر استوار ہیں اور ان میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ تمام جماعتیں تبدیلی کے خوف سے ڈری سہمی ہوئی ہیں (تبدیلی سے مراد عمران خان کی تبدیلی نہیں) اس لئے وہ اسٹیٹس کو برقراررکھنا چاہتی ہیں مقتدرہ تقسیم در تقسیم کے حق میں ہے تاکہ ایک ملک گیر عوامی ابھارسرنہ اٹھاسکے چنانچہ ملکی حالات اسی طرح رہیں گے عام لوگ یعنی پبلک اپنے مسائل کے عذاب میں مبتلا رہے گی مقتدرہ اور تمام چیدہ چیدہ سیاسی قوتیں عوام کے وسائل لوٹ کر ایک پرتعیش زندگی گزارتی رہیں گی قومی وسائل کو غیر پیداواری اخراجات پر لٹانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ایک جعلی نظریہ کے ذریعے حقیقی قوتوں کو ملک دشمن قرار دے کر انہیں عوام اور اقتدار سے دور رکھا جائیگا تاکہ ایک مرکزی سیاسی قوت پیدا نہ ہو یہاں تبدیلی سے مراد چہروں کی تبدیلی ہے شہبازشریف چلے گئے تو عمران خان آگئے اور وہ چلے گئے تو شہبازشریف نے اس کی جگہ لے لی۔ضیاؤ الحق کے گملوں میں تیار شدہ ہائبرڈ جعلی اشرافیہ باری باری حکومت میں آتی رہے گی اس اشرافیہ نے حقیقی تبدیلی کا راستہ روک رکھا ہے ان کے تمام کواڑ بند ہیں تاکہ تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہ آسکے ریاست کی دو انتہائی مدہم آوازیں ورکرز پارٹی کے قائد واجہ یوسف مستی خان اور برابری پارٹی کے جواد احمد کی ہیں انہیں کم از کم عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال جتنا راستہ ملتا تو ملک کے دانشور پڑھالکھا طبقہ محنت کش اور بے خانمان لوگ یوں نیم تاریک راہوں میں مارے نہ جاتے۔
نئی صورتحال میں زرداری نے جو جوا کھیلا ہے وہ پیپلزپارٹی کیلئے خاصا پرخطر ہے انہیں مشورہ ہے کہ اگر اپوزیشن کامیاب ہوگئی تو پیپلزپارٹی کو اس کی کابینہ میں شمولیت سے گریز کرنا چاہئے عمران خان اگر اقتدار سے معزول ہوگئے تو پیپلزپارٹی کو الگ راستے کا انتخاب کرنا چاہئے ورنہ وہ زیادہ دور نہیں جاسکے گی باالکل اسی جگہ کھڑی رہے گی جہاں وہ آج ایستادہ ہے۔
اسی طرح بلوچستان کی جماعتوں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کو چاہئے کہ انہیں خود کورضاکارانہ خودکشی سے بچاناچاہئے۔