یوم مئی اور محنت کشوں کی معاشی بدحالی
تحریر:کامریڈ نذر مینگل
یوم مئی 2020ء ایک ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے جب پوری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ لاکھوں متاثر اور دو لاکھ سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور تمام تر دیگر اقدامات کے باوجود یہ وبا قابو میں نہیں آ رہی۔ جدید تاریخ میں اس طرح کی کئی وبائیں پھوٹی ہیں جن سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن جب سے طبقاتی نظام وجود میں آیا ہے بالادست طبقات نے ہمیشہ محنت کشوں کو استحصال اور جبر کا شکار رکھا ہوا ہے۔ ان کا خون نچوڑ کر اپنے لیے پر آسائش زندگی کا سامان کیا ہے جبکہ سماج انہی محنت کشوں کی محنت سے ہی آگے بڑھی ہے۔ ان کی محنت کو استحصالی طبقات نے ہمیشہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے استعمال کیا ہے اور محنت کش زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم رہی ہے۔ ان کو اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ وہ زندہ رہ سکیں اور سرمایہ داروں کی غلامی کرسکیں۔ حکمرانوں کے استحصالی نظام اور ظلم و جبر کے خلاف محنت کشوں نے تاریخ میں کئی جنگیں لڑی ہیں جن میں انہیں وقتی کامیابیاں بھی ملیں لیکن طبقاتی نظام سے تاحال محنت کشوں کو نجات نہیں مل سکا۔
آج کے عہد میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی آسمانوں کو چھو رہی ہے لیکن وسیع تر آبادی کے لیے ان کے ثمرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثریتی آبادی محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ محنت کشوں نے 1886ء میں 18گھنٹے کے اوقات کار کے خلاف اپنی جانوں پر کھیل کر جدوجہد کی اور اپنی قربانیوں سے اوقات کار کو کم کرکے 8گھنٹے کیا۔ لیکن آج کے عہد میں محنت کش 8گھنٹے سے زیادہ ڈیوٹی کر نے پر مجبور ہیں۔ امارت اور غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں اور محنت کش خواتین کی حالات زندگی تشویشناک صورت حال اختیار کر چکی ہے جبکہ پچھلے ستر سالوں سے مٹھی بھر سرمایہ داروں نے غریب عوام پر اپنی حاکمیت قائم کرکے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ملک کو سامراجی اداروں کے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔ قرضوں پر قرضے لیے جا رہے ہیں اور عوام کا خون چوس کر کے ان قرضوں اور ان کے سود کو ادا کیا جارہا ہے لیکن قرضے ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے۔
موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے انتخابی جلسوں میں تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے لیکن انتخابات کے بعد جب ان کی حکومت بنی تو ان کا اصل خوفناک چہرہ عوام کے سامنے آشکار ہوا اور ثابت ہوا کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں اصلاحات کا امکان نہیں ہے۔ آج عمران خان اپنے انتخابی منشور سے کوسوں دور کھڑے ہیں۔ سابقہ حکومتوں کے کرپٹ وزراء کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہوا ہے۔ آٹے، چینی، بجلی اور دیگر شعبوں میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں اور اسکینڈلز سامنے آرہی ہیں۔ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضے لیے گئے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کا گورنر اور مشیر خزانہ بھی ان کی مرضی سے لگایا گیا۔ ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے محنت کشوں کو نان شبینہ کا محتاج کر دیا گیاہے۔ بلوچستان میں 52ٹریڈ یونینز پر پابندی لگا دی گئی۔ محکمہ تعلیم میں لازمی سروس ایکٹ نافذ کردیا گیا۔ کارخانوں اور ملوں میں یونین سازی کرنے نہیں دیا جا رہا۔ کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ کنٹریکٹ ملازمین بد ترین استحصال کا شکار ہیں۔ سوشل سیکیورٹی، EOBIاور دیگر مراعات سے اکثر مزدوروں کو محروم رکھا گیا ہے۔ حکومت صرف سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔اس وقت لاک ڈاؤن سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ مالکان مزدوروں کو تنخواہیں ادا نہیں کر رہے اور ان کو نوکریوں سے برطرف کر رہے ہیں۔ انہی مزدوروں کی محنت کا استحصال کرکے ان مالکان نے اربوں روپے کمائے اور دولت کے انبار لگائے لیکن آج یہی سرمایہ دار محنت کشوں کو ایک مہینے کی تنخواہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ حکومت صرف خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے اور مزدوروں کو وحشی سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مزدور بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔دوسری طرف حکومتی خیرات ایک بار پھر بے قاعدگیوں کا شکار ہے۔ ٹائیگر فورس بنانے کا مقصد اپنی پارٹی کے ورکروں کو نوازنا اور انہیں مطمئن کرنا ہے۔ مستحق لوگ چیخ و پکار رہے ہیں، ان کی کوئی داد رسی نہیں ہو رہی۔ احساس پروگرام پر بیوروکریسی اور پی ٹی آئی لیڈرشپ ہاتھ صاف کر ر ہی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا لاک ڈاؤن میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کردیا ہے اور مزید قرضوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ عمران خان ایک بار پھر ملک کو بھیک اور مخیر حضرات کے ذریعے چلانے کی کوشش کر ر ہے ہیں۔ روپے کی قدر گر رہی ہے۔ اگر لاک ڈاؤن مزید جاری رہتا ہے تو اس سے لاکھوں لوگ مزید بیروزگار ہو جائیں گے جبکہ حکومت اس بیروزگاری کا ازالہ کرنے سے مکمل قاصر ہے اور نہ ہی عوام کو اس دوران ریلیف دے سکتا ہے جبکہ سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو خوب مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں صفر سے نیچے چلی گئیں ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو تیل کی مد میں کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ حکومت اس مد میں ناجائز ٹیکس لگا کر اربوں روپے عوام سے نچوڑ رہی ہے۔ کورونا کے نام پر حکمران طبقہ اور بیوروکریسی اربوں روپے ہڑپ کر رہی ہے۔ حکومتی دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ڈاکٹروں اور صحت کے عملے کو کورونا سے بچاؤ کے حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جا رہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں ڈاکٹراور پیرامیڈیکل عملہ اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حفاظتی سامان کی فراہمی کے لیے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے پیشن گوئی کی تھی کہ جنوبی ایشیا ء کورونا وائرس کا نیا مرکز بن جائے گا۔ ایسے میں پاکستان کے عوام کی حالت اور قابل رحم بن جائے گی۔ اس وبا ء نے ایک بار پھر سرمایہ دارانہ نظام کو عوام کے سامنے ننگا کر دیا ہے۔ منڈی کی معیشت صرف چند سرمایہ داروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے مفادات کا تحفظ کر تی ہے، اسے انسانیت کی ترقی اور بقا سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد شرح منافع اور لوٹ مار ہے جس کی واضح مثال امریکہ ہے جہاں مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز کی شدید کمی ہے حالانکہ امریکہ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ اسلحے، ایٹم بم اور انسانی تباہی کے آلات ہیں جبکہ انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے آلات نہیں ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اس وباء نے سرمایہ دارانہ عالمی معیشت کی خستہ حالی کو بے نقاب کردیا ہے اور معیشت زوال کا شکار ہوگئی ہے اور بعض ماہرین تو موجودہ بحران کو 1929ء اور 2008ء کے معاشی زوال سے بھی زیادہ گہرا اور شدید قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن ریاستوں میں معیشت ریاستی ملکیت اور منصوبہ بندی کی حامل تھیں وہاں وباء کو زیادہ بہتر طریقے سے کنٹرول کیا گیا اور کم سے کم انسانی زندگیاں متاثر ہوئیں۔ مثلاً کیوبا میں آج بھی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور صحت کا شعبہ مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں ہے جس کی وجہ سے وہاں عوام کو صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ پچھلے ستر سالوں سے امریکہ نے کیوبا پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اس کے باوجود کیوبا پوری دنیا میں انسانیت کو اس وباء سے بچانے کے لیے اپنے ڈاکٹروں کو مختلف ممالک میں بھیج رہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنی نوع انسان کی بقا سرمایہ دارانہ منافع خوری کے نظام میں نہیں بلکہ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ہے۔
اس وباء سے پہلے دنیا کے مختلف ممالک چلی، ہانگ کانگ، فرانس، عراق، ایران، لبنان اور انڈیا میں عوام اور محنت کشوں کی اس نظام کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں لیکن اس وبا کی وجہ سے یہ تحریکیں عارضی طور پر خاموش ہوگئی ہیں لیکن بہت جلد دوبارہ ابھریں گی۔ محنت کش طبقہ ایک دفعہ پھر شکاگو کے مزدوروں اور 1917ء میں بالشویک انقلاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ یوم مئی 2020ء مزدوروں، دہقانوں، محنت کش خواتین اور انقلابی نوجوانوں سے تقاضا کرتی ہے کہ آنے والے انقلابی دور کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں تاکہ اس تحریک کو اس کے منطقی انجام یعنی سوشلسٹ انقلاب تک پہنچا کر انسانیت کو اس غیر انسانی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات دلائی جاسکے۔