عدم اعتماد پر عدم اعتماد

تحریر: راحت ملک
متحدہ اپوزیشن دس مارچ کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس آئین کے تحت لازم طور پر 21 مارچ شب بارہ بجے تک اجلاس میں زیر بحث لایا جانا چاھیے مگر ایسا نہیں ہوا جسکے لیے مختلف عذر نما بہانے تراشے گئے حالانکہ اسلام آباد کنونشن سنٹر میں 600 افراد کے بیٹھے کی گنجائش ہے کہا گیا کہ اسلام آباد میں کوئی مناسب جگہ دستیاب نہیں تھی اور قومی اسمبلی حال او آئی سی وزراء اجلاس کے لیے مختص تھا۔ دنیا کو حیرت تھی کہ ایک ایٹمی ملک کے جدید ترین شہر میں جہاں اعلیٰ پائے کے کئی ہوٹلز شادی ھال اور فینوپی موجود ہیں جن میں ایک ہزار سے زائد افراد کی گنجائش ہے اب دنیا حیران کہ پاکستان کی ترقی پزیر ممالک کی فہرست میں کیسے شمار کرے کہ بیچارے کے پاس ایک وقت میں دو اجلاس کرانے کی سکت نہیں اور آئینی جمہوریت کا مدعی بھی ہے مگر آئیین کی خلاف ورزی کو معمولی بات سمجھتا ہے۔
24 مارچکا اجلاس روایت۔۔ قانون نہیں۔۔۔۔کے تحت متعدد مرحومین کی دعائے مغفرت کے بعد، چار دن کے لیے ملتوی کردیا گیا اسکے برعکس جمعہ کی نماز کے بعد سہ پر تین چار بجے تک اجلاس ملتوی کیا جاتا تو آئین کی منشا اور روائت پسندی پوری ہوجاتی مگر سپیکر جناب اسد قیصر نے پی ٹی آئی کی سیاست کمیٹی کے فیصلے کی اطاعت کی اجلاس ملتوی کیا چار دن کے لئے۔
اس تاخیری حربے کا مقصد گرتی ہوئی حکومت کو چند روز تک مزید مہولت دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
اجلاس کے التوا کے گدی نشین وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے رواں اجلاس کے ایجنڈے سے ھٹ کر سوموار 28 مارچ کو جوبی صوبہ پنجاب بنانے کے لیے آئینی بل پیش کیے جانے کا شوشہ چھوڑا ہے کیونکہ پی ٹی آئی سے نالاں ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ھے جو جنوبج صوبہ پنجاب کے طالب ہیں چنانچہ سپیکر ممکنہ طور پر 28 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کی بجائے اس بل کو پیش کرنے کا حکم دے تو جنوبی پنجاب کے ارکان اور حزب اختلاف کے بہت سے ارکان کے لیے اس کی مخالفت ممکن نہیں ہوگی۔
دو امکان حکومت کے ترپ کے پتے ہوسکتے ہیں وہ آئینی بل پر اصرار کرے اہوزیشن اسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کا کہے تو
سپیکر رائے شماری کرادیں و بھاری اکثریت سے منظور ہوجایے چنا چہ سپیکر استدلال کرے کہ اس اقدام سے عیاں ہوگیا ھے کہ وزیراعظم کو ھاوس کی اکثریت حاصل ہے لہذہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اب ضرورت نہیں رہی۔ ہاں اگر اپوزیشن چاہیتو تحریک کے لیے تازہ ریکوزیشن جمع کرسکتی ھے اس طرح عمران خان اپنا ترپ کارڈ(جو کہ غیر آئینی ہوگا) کھیل کر چند روز حکمرانی کی مزید مہلت حاصل کرلے اس سے آئینی بحران پیدا ہوتا ہے تو حکومت کو اس کی ویسی پرواہ نہیں رتی جیسے وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیراعظم و وزراء کو انتخابی جلسوں سے خطاب نہ کرنے کی تنبہی کی نہیں کرتی بلکہ الیکشن کمیشن کے بعد ازاں ملنے نوٹسز کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔
حکومت عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے کی استطاعت رکھتی نا اعتماد۔ سو وہ فرار کی انحراف کی تلاش میں بھی اعتماد سے عاری لگ رہی ہے۔