یک نہ شد دوشد

تحریر: انورساجدی
معاملہ سیاسی جلسوں سے آگے نکل گیا ہے کپتان نے پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کرلیا جو بلاشبہ ایک بہت بڑا اجتماع تھا لیکن اس میں 10لاکھ لوگ نہیں آئے جلسہ بدانتظامی کاشکار بھی ہوگیا کیونکہ جو قافلے راستے میں تھے راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ پہنچ نہیں سکے اس کے باوجود80ہزار لوگوں کی شرکت بڑی بات ہے کپتان کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک ملین لوگ کتنے ہوتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا اجتماع1986ء میں محترم بینظیر کی لاہور آمد کے موقع پر ہوا تھا شائد وہ ریکارڈ طویل عرصہ تک نہیں ٹوٹ سکے گا۔
کپتان کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی انہوں نے پرانی باتوں کا اعادہ کیا نئی بات غیر ملکی سازش باہر کا پیسہ اور تحریری دھمکی تھی انہوں نے نوازشریف کے حوالے سے لندن پلان کا ذکر بھی کیا اور ان کے بیٹے حسین نواز کو گول مٹول گونگلو کا نام دیا پنجابی میں گونگلو شلجم کو کہتے ہیں میاں نوازشریف کیلئے یہ نام1993ء میں رئیس غلام مصطفی نے استعمال کیا تھا۔
کپتان بھول گئے تھے کہ2014ء میں وہ خود ایک لندن پلان کے ذریعے آئے تھے وہاں پر کپتان اور طاہر القادری کی خفیہ ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے نوازشریف کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیاتھا۔
جہاں تک دھمکی آمیز غیر ملکی خط کا تعلق ہے تو 1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی تو وہ اچانک راولپنڈی کے رش کش راجہ بازار میں نمودار ہوئے تھے وہاں پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کوٹ کی جیب سے ایک کاغذ نکال کر لہرایا اور کہاکہ غیر ملکی طاقتیں ان کا تختہ الٹنا چاہتی ہیں بھٹو نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا کیونکہ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے برملا انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی بعد میں جو کچھ بھٹو کے ساتھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن عمران خان کوموصول شدہ خط کو مخالفین جھوٹ اور ڈرامہ قرار دے رہے ہیں گوکہ بظاہر عمران خان گھبرائے ہوئے دکھائی نہیں دیتے لیکن اندر سے سہمے ہوئے ہیں اگر ان کیخلاف موجودہ تحریک ناکام ہوئی تو بھی سکون سے حکومت نہیں چلاسکتے ان کیخلاف ایک بہت بڑا محاذ بن چکا ہے اس محاذ کے تانے بانے دور تک جاتے ہیں جس سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ پہلے کی طرح ”ون مین شو“ بن کر حکمرانی نہیں کرسکتے انہیں ہر روز ہر ہفتہ اورہر ماہ زخموں کے چھرکے لگتے رہیں گے سیاست کے بدنام اور پر خطرراستوں پر چلتے ہوئے انہیں پہلی مرتبہ پتہ چلا ہوگا کہ حکومت ایک ٹیم پر مشتمل ہوتی ہے۔رعونت اور غرور بالآخر ناکام اور ناکارہ ثابت ہوتے ہیں اپنے خطاب میں بھٹو کی خودداری کی تعریف زرداری اور بلاول کو یہ طعنہ لگانا کہ وہ اپنے نانا کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھے ہیں دراصل ایک درخواست تھی کہ مستقبل میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی تعاون کرسکتے ہیں یہ بھول گئے کہ وہ زرداری کو سب سے بڑی بیماری کا نام دے چکے ہیں اور بلاول کی نقل اتارکر ان کی بار بار توہین اورتضحیک کرچکے ہیں بھلا ان کے درمیان تعاون کیسے ممکن ہے
لیکن
پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے اگر زرداری مولانا اور نوازشریف سے مل سکتے تو مستقبل میں عمران اور زرداری کے درمیان بھی تعاون ہوسکتا ہے شائد دنیا یہ بھی دیکھے آئندہ انتخابات میں زرداری اور نوازشریف ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگارہے ہوں اور عمران خان پیپلزپارٹی کا اتحادی ہو۔
پاکستان کی سیاست میں کوئی اصول نہیں ہے یہ دنیا کی سب سے عجیب وغریب سیاست ہے اس کا کوئی قاعدہ اور دستور نہیں ہے ایک دوسرے کے پاجامے اتارنے اور ثبوت کے بغیر طرح طرح کے الزامات لگانا اس سیاست کی پرانی روایت ہے۔
ایک روایت کھلونا بن کر مقتدرہ کے ہاتھوں میں کھیلنا بھی ہے حالانکہ میثاق جمہوریت میں نوازشریف اور بینظیر عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ کسی غیر جمہوری کھیل کا حصہ نہیں ہونگے لیکن جس طرح نوازشریف میمواسکینڈل کے مدعی بن کر عدالت میں گئے وہ ساری دنیا نے دیکھا2013ء کے انتخابات میں 35پنکچروں والا کھیل کھیلا گیا جس میں نوازشریف کو برسراقتدار لایا گیا لیکن جو نہی عمران خان کی صورت میں متبادل مل گیا اس نے پرانے لاڈلے کی جگہ لے لی مقتدرہ کے دستور بھی زالے ہیں برسوں کی محنت سے جوبت بناتے ہیں وہ اسے توڑ توڑ کر گراتے ہیں اور اتنی رسوا کرتے ہیں کہ وہ سراٹھاکر چلنے کے قابل نہ رہیں آثار بتارہے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ بھی مستقبل قریب میں یہی کچھ ہونیوالا ہے ان کے اقتدار کا سورج ڈوبنے کو ہے کل ڈوبے کہ پرسوں ڈوبے اگر وہ موجودہ بحران سے بچ گئے تو یہ ایک بڑا معجزہ ہوگا۔
اپوزیشن ہر روز ایک نیا وار کررہی ہے ابھی وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کا نتیجہ آیا نہیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی گئی ہے کہ پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں بھی عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے اگر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے اپنے وعدے کے مطابق زرداری کے ہاں پناہ نہیں لی تو بلوچستان بھی تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگ جائیں گی۔
اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ بلاول ہاؤس اور وسطی لندن میں واقع نوازشریف کے بیٹے حسین نواز کے دفتر میں تیار کردہ پلان کے مطابق ہورہا ہے عمران خان نے اسے لندن پلان کانام دیا ہے اور تمام غلط اور جھوٹے دعوؤں کے برعکس ان کایہ الزام درست ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا اور اگر عمران خان بچ گئے تو کیا ہوگا عمران خان کو اتارنے کا وقتی فائدہ یہ ہوگا کہ شہبازشریف مریم اور نوازشریف ملزم یا مجرم سے حاکم بن جائیں گے اور متعدد کیسوں سے ان کی جان چھوٹ جائیگی بلکہ وقت کا پہیہ الٹا گھومنے لگ جائیگا نیب اور ایف آئی اے عمران خان ان کے قریبی ساتھیوں اور کابینہ کے وزراء درجنوں مقدمات قائم کریں گے فارن فنڈنگ کیس سے لیکر گندم چینی ادویات توشہ خانہ میں خیانت سمیت کئی درجن مقدمات قائم ہونگے کپتان کا باقی وقت اس طرح گزرے گا کہ وہ صبح ایک عدالت میں پیش ہونگے اور شام کو کسی اور عدالت سے ضمانت کروارہے ہونگے وہ گرفتار بھی ہوسکتے ہیں اٹک اڈیالہ کوٹ لکھپت اور مٹنگمری کی خوفناک جیلوں کی زینت بن سکتے ہیں۔
کپتان نے بھٹو سے اپنی مماثلت پیش کی ہے لیکن ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی کی کال کوٹھری میں بے شماراذیت سہنے کے باوجود انہوں نے رحم کی اپیل سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ ڈکٹیٹر کی بجائے تاریخ کے ہاتھوں مرنا پسند کریں گے پھر وہ 3اور4اپریل کی درمیانی رات بڑی سج دھج کے ساتھ مقتل میں گئے اور تختہ دار پر جھول گئے۔
لیکن عمران خان کوئی اذیت برداشت نہیں کرسکتے وہ گرمی دھوپ چوہے اور سانپوں کی موجودگی میں جیل گزارنا ان کیلئے مشکل ہوگا۔
اور اگر عمران خان ان مصائب سے بچ گئے تو آئندہ انتخابات میں وہ حریفوں کا کڑا مقابلہ کریں گے تب تک جو بھی حکومت بنے گی وہ ناکامی سے دوچار ہوجائے گی عمران خان کی حکومت نے جو غلطیاں اور کوتاہیاں کی ہیں ان ساری ناکامیوں کا بوجھ نئی حکومت کے کاندھوں پر آجائیگا عمران خان اپنا نیابیانیہ لیکر چلیں گے بے شک انہیں اکثریت حاصل نہ ہو لیکن تحریک انصاف بطور جماعت زندہ رہے گی اور پارلیمنٹ میں ان کی مناسب نمائندگی دیکھنے کوملے گی عمران خان ایک دو انتخابات تک اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان رہیں گے اس کے بعد تو وہ عمر کے اس حصے میں داخل ہوجائیں گے کہ ان کیلئے عملی سیاست ناممکن ہوجائے گی چونکہ تحریک انصاف ون مین شو ہے اس لئے عمران خان کو اسے پارٹی بنانا پڑے گااور اس کی مضبوط تنظیم سازی کرنا پڑے گی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جس سیاسی معاشی معاشرتی اور شناخت کے جس بحران میں مبتلا ہے اسے موجودہ انتظام میں کوئی لیڈر اور جماعت حل نہیں کرسکتی کیونکہ یہ لوگ اسٹیٹس کو کے نمائندہ ہیں جبکہ اگر حالات کو جوں سے توں رکھنے سے بحران حل ہوتے تو پاکستان ایشیاء کا سب سے پسماندہ ملک نہ رہتا اس ریاست کو آگے لے جانے کیلئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے اسٹیٹس کو توڑنا پڑے گا طاقت کے عناصر کو از سرنو تشکیل دینا پڑے گا وسائل کو عوام کی خوشحالی پر مختص رکھنا پڑے گا اور خطے میں اسلحہ کی دوڑ اور غیر پیداواری اخراجات ترک کرنا پڑیں گے اگر یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اس ریاست کو مکمل طور پر فیل ہونے سے کوئی نہیں بچاپائیگا۔بنیادی اقدامات کے بغیر عمران خان عالمی طاقتوں کو چیلنج کرنے کاجومظاہرہ کررہے ہیں وہ عامیانہ اور بچوں والی حرکت ہے معاشی طور پر کمزور ریاست کبھی احتیاج سے باہر نہیں نکل سکتی اور نہ ہی عالمی برادری میں اس کا کوئی مقام اور ساکھ بنے گی۔