چھوٹی قربانی بڑی قربانی

تحریر: انورساجدی
اپنے کو بچانے کیلئے کپتان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی بھلی چڑھادی اس قربانی کی وجہ سے چوہدری پرویزالٰہی نے اپوزیشن سے بے وفائی کرکے کپتان کی کشتی میں چھلانگ لگادی لیکن یہ طے نہیں ہے کہ وہ اس منصب پر کامیاب ہونگے کہ نہیں یہ واقعہ اس لحاظ سے ایک سرپرائز ہے کہ پانچ نشست والی پارٹی سب سے بڑا عہدہ لے گئی کہاں کپتان حال ہی میں فرمارہے ہیں تھے کہ وہ کسی کے بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ کس طرح بلیک میل ہورہے ہیں منت ترلے کررہے ہیں شاید کسی مرحلے پر وہ کسی فریق کے پیر بھی پڑجائیں انہوں نے پرویزالٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا لیکن اقتدار جاتا دیکھ کر وہ چوہدری برادران کی منت سماجت پر اتر آئے۔
پی ٹی آئی کے نیم منحرف رکن عامر لیاقت نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ عمران خان نے عثمان بزدار کو اس طرح ذلیل کرکے پرویز الٰہی کے سامنے استعفیٰ لیا جیسے وہ مقصود چپڑاسی ہو پرویزالٰہی کے فیصلہ کے بعد سابق مردحرّ طارق بشیر چیمہ نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی اور اعلان کیا کہ وہ عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے یہ جو گزشتہ شب ہے چوہدری ظہور الٰہی کے گھر میں پہلی مرتبہ اختلافات اتنے بڑھے اور چوہدری شجاعت اتنے غصے میں آگئے کہ ڈاکٹر بلانا پڑا چوہدری شجاعت نے نوازشریف اور زرداری سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بڑے لالچ نے پرویزالٰہی کو عمران خان کی گودمیں گرادیا چھوٹے چوہدری کو یقین ہے کہ اعتماد کے ووٹ میں آصف علی زرداری بھی ان کا ساتھ دیں گے حالانکہ بظاہر تو زرداری عدم اعتماد عمران مخالف تحریک کے معمار ہیں بھلا وہ کیسے ساری اپوزیشن کو چھوڑ کر پرویز الٰہی کی حمایت کریں گے لیکن پاکستانی سیاست میں کوئی چیز بعید نہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے زرداری کسی مرحلے میں کہہ سکتے ہیں کہ پرویز الٰہی کو اصل میں انہوں نے نامزد کیا تھا اور عمران خان مجبور ہوئے کہ وہ ان کے فیصلے کی توثیق کریں لیکن یہ کہنے کی بات ہے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ شاید بعد میں آئے پہلے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ ہونا ہے ق لیگ کے جانے کے بعد حکومت کا انحصار ایم کیو ایم کے فیصلے پر ہے جبکہ اپوزیشن کا انحصار تحریک انصاف کے منحرفین پر ہے زرداری نے پہلے کوشش کی تھی کہ منحرف ارکان کی ضرورت نہ پڑے تاکہ فلور کراسنگ اور اس سے منسلک مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اتحادی اپنے فائدہ کے پیچھے دوڑے ایم کیو ایم کو منانے کیلئے زرداری نے ایم کیو ایم کو گورنر شب دینے کراچی اور حیدر آباد کے میئر کا عہدہ آفر کیا اس کے علاوہ کابینہ میں نمائندگی دینے کی پیشکش بھی کردی لیکن لگتا ہے کہ ایم کیو ایم پرانی دشمنی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے وہ پرانے خوابوں کی دنیا میں گھوم رہی ہے اسے معلوم نہیں کہ کراچی میں ڈیموگرافک تبدیلی آچکی ہے اب ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر نہیں رہی کیونکہ شہر کی نصف آبادی دیگر اقوام پر مشتمل ہے خاص طور پر پشتونوں کی چار ملین آبادی کو نظر انداز کرناممکن نہیں ایم کیو ایم کا خیال ہے کہ مستقبل میں وہ پرانی پالیسی بحال کرکے دوبارہ کامیابی حاصل کرے گی۔
ایم کیو ایم کو سندھ کے گورنر شب کی پیشکش عمران خان نے بھی کی ہے کابینہ میں ایک اور نمائندے کو شامل کرنے کا لالچ بھی دیا ہے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے اراکین کو دل کھول کر فنڈز دیئے جائیں گے ایم کیو ایم کے ایک سو مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل کردیا جائے گا اور اس کے بعد دفاتر کو کھولنے کی اجازت دی جائیگی اگرچہ یہ وعدے تو شروع میں بھی کئے گئے تھے لیکن پونے چار سال تک حکومت نے ان پر عملدرآمد نہیں کیا لہٰذا کیا گارنٹی کہ باقی ماندہ ایک سال میں ان مطالبات پر عملدرآمد کیا جائے گا اصل میں تحریک انصاف کے ساتھ جاکر ایم کیو ایم اپنے لئے گھڑا کھود رہی ہے کیونکہ 2018 ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی 14 نشستیں تحریک انصاف نے چھین لی تھی آئندہ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی مخالف ووٹ حسب سابق تقسیم ہوجائے گی اور ایم کیو ایم نقصان میں رہے گی۔
اگرچہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایمپائر نیوٹرل ہے اور سیاسی جماعتیں عدم اعتماد کے مسئلہ پر فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں لیکن یہ دعویٰ سو فیصد سچ نہیں ہے ایسا ہوتا تو مقتدرہ اپنی پسندیدہ جماعتوں کو دونوں گروپوں میں تقسیم کیوں کررہی ہے اگر وہ چاہتی تو ق لیگ،باپ اور ایم کیو ایم ایک ہی فیصلہ کرسکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا شاید وہ سیاستدانوں کی بچگانہ حرکتوں خریدو فروخت یوٹرن اور کٹھ پتلیوں کے تماشہ سے خوب لطف اندوز ہورہی ہے فیصلہ جو بھی آئے اسی کے حق میں آئے گا اگر عمران خان بچ گئے تو ان کی ساری پھوں پھان نکل چکی ہوگی اور وہ اچھے بچوں کی طرح تابع فرمان بن کر رہیں گے اگر اپوزیشن کو کامیابی ملی تو وہ کونسے غیر ہیں وہ تو غیر مشروط تعاون کی پیشگی یقین دہانی کروا رہی ہے ایک مبصر کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ سیاسی کھیل نہیں ہے بلکہ اسکرپٹ کے مطابق سارے ایکٹر دانستہ یا نادانستہ اپنا اپنا رول ادا کررہے ہیں سارے سیاستدان مل کر جگ ہنسائی کا سامان پیدا کررہے ہیں ناتجربہ کار اور غیر آزمودہ وزیراعظم اپنے خلاف تحریک کو عالمی سازش قرار دے رہے ہیں دوسری جانب اسلامی شعائراور اصولوں سے نابلد وزیراعظم ریاست مدینہ کے قیام کا نعرہ لگارہے ہیں اگر انہوں نے تاریخ پڑھی ہوتی تو انہیں پتہ چلتا کہ ہجرت کے وقت مدینہ کی کل آبادی تین ہزار نفوس پر مشتمل تھی اتنی تھوڑی سی آبادی کی خوشحال کرنا کوئی مشکل نہیں تھا اس کی پانچ گلیوں کو سنبھالنا بھی بہت آسان تھا لیکن پاکستان 25 کروڑ لوگوں کی ریاست ہے اس وقت پوری دنیا میں ایک بھی فلاحی اسلامی ریاست نہیں ہے کپتان مشکل عالمی صورتحال اور تباہ حال معیشت کی بدولت کیسے یہاں پر اسلامی فلاحی نظام قائم کرسکتے ہیں اگر وہ مخلص ہیں تو سودی نظام کو ختم کریں جس کے بارے میں اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ جو لوگ سود کا کاروبار کررہے ہیں انہوں نے میرے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔
ملک کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے اربوں ڈالر قرض سود پر حاصل کئے گئے ہیں اور کپتان سیاسی مفاد کی خاطر اسلامی فلاحی نظام کے نفاز کا نعرہ لگارہے ہیں ہاں یہ بات درست ہے کہ عمران خان داڑھی کے بغیر دائیں بازو کے انتہائی طرفدار قدامت پسند رہنما ہیں وہ مغربی جمہوریت اور وہاں کے انصاف کا تو بہت حوالہ دیتے ہیں لیکن دل ہی دل میں وہ اس نظام کے بہت مخالف ہیں انہوں نے اپنے فرسودہ نظریات کا انکشاف اپنی پہلی کتاب میں کیا تھا جسے وہ خود متروک قرار دے چکے ہیں بعض لوگ انہیں داڑھی بغیر”ملاں اور طالب“ بھی قرار دیتے ہیں وہ اسی خاطر پاکستان کو قروں وسطیٰ میں لے جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ مطلق العنان حکمران بن سکیں اور تاحیات مسلط رہیں ورنہ ان کے قول و فعل میں اتنا تضاد ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اپنے مفاد کی خاطر وہ ہزار دفعہ یوٹرن لے سکتے ہیں اور جن کو ڈاکو قرار دیتے ہیں انہیں پارٹنربناسکتے ہیں وہ انتے بے رحم ہیں کہ بھٹو کی پھانسی کا حوالہ دے کر زرداری اور بلاول کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دے سکتے ہیں لہٰذا وہ اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے فیصلے میں کئی دن باقی ہیں تب تک صورتحال دلچسپ رہے گی پی ڈی ایم نے اسلام آباد میں بڑا جلسہ کرکے دکھایا حالانکہ اس جلسہ کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں تھا جلسہ میں بی این پی مینگل کی طرف سے ثناء اللہ بلوچ نے نمائندگی کی انہوں نے اپنے خطاب میں ڈرتے ڈرتے مسنگ پرسنز کے مسئلہ کا ذکر کیا ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ چار رکن تو بی این پی کے بھی ہیں جبکہ چار ممبر والی ق لیگ پنجاب کی وزارت اعلیٰ لے سکتی ہے تو بلوچستان کی جماعتیں مسنگ پرسنز کے مسئلہ پر اپنی بات کیوں نہیں منواسکتیں مقام افسوس ہے کہ بلوچستان کے سیاسی رہنما انتہائی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں عدم اعتماد کے موقع پر جب لوٹ سیل لگا ہوا ہے تو بلوچستان کے رہنما اپنے جائز آئینی قانونی اور بنیادی مطالبات کیوں منوانہیں سکتے۔
بہرحال عمران خان جو چھوٹی موٹی قربانیاں دے رہے ہیں وہ کام نہیں آئیں گی صرف ایک بڑی قربانی سے ہی مسئلہ وقتی طور پر حل ہوسکتا ہے حالات کا تقاضہ ہے کہ بڑی قربانی دی جائے۔