آخری کوشش

تحریر: انورساجدی
یہ جو چٹھی سندیس یا مراسلہ ہے یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے طور پر استعمال کیاجارہاہے ممکن ہے کہ موجودہ فیصلہ کن گھڑی میں کام نہ آئے آگے چل کر کام آئے گا کیونکہ کپتان آئندہ انتخابات میں اسکو اپنا بیانیہ بناکر پاکستانی عوام کے جذبات گرمانے کی کوشش کریں گے وہ بہت زور وشور کے ساتھ بتائیں گے کہ ان کا تختہ امریکہ نے پی ڈی ایم کی قیادت کے ذریعے الٹا ہے اگرچہ امریکہ مخالف مہم کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا لیکن عمران خان کے طفل مکتب مشیر اور یاراں ہمہ دوزخ انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ سامراج دشمن پالیسی اختیار کردیں تو عوام زیادہ اکثریت کے ساتھ ان کا ساتھ دیں گے۔
وزیراعظم کو قوم سے خطاب کا مشورہ بھی انہی لوگوں نے دیا ہے ان میں سے ایک شہباز گل کی دن دہاڑے چوری پکڑی گئی ہے دی نیوز نے ثبوت کے ساتھ امریکی یونیورسٹی میں ان کی ملازمت کی خبر شائع کی ہے موصوف جو انداز بیان اور دشنام طرازی سے کام لیتے تھے ان کیلئے یہی راستہ بچا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی نوکری بچانے کی خاطر فوری طور پر امریکہ کا ٹکٹ کٹوائیں کیونکہ ان کی کروڑوں روپے کی ملکی وغیر ملکی جائیداد برآمد ہوئی ہے عمران خان کے برے حالات پر کابینہ کے اجلاس میں آبدیدہ ہونے والے ڈبو چوہدری کا یہ حال ہے کہ انکے گھر کابندہ چوہدری فرخ الطاف گزشتہ روز سندھ ہاؤس میں زرداری کے کیمپ میں تشریف فرماتھے یعنی یقینی طور پر اس وقت فواد چوہدری نئی ملازمت کے بارے میں سوچ رہے ہونگے بظاہر انہیں نوکری چوہدری برادران کے ہاں مل سکتی ہے۔
دریں اثناء عمران خان آخری ہاتھ پیر ماررہے ہیں وہ لوگوں کو بتارہے ہیں کہ کس طرح امریکہ بھٹو کی طرح ان کی حکومت ختم کررہا ہے ان کا خیال ہے کہ شائد اس موقع پر اتحادیوں کو رحم آجائے اور وہ اپوزیشن کا ساتھ چھوڑکر انہیں بچانے آجائیں لیکن یہ اتحادی بڑے بے رحم واقع ہوئے ہیں پونے چار سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کررہے ہیں بھلا وہ اس حالت میں ڈوبتی کشتی میں کیسے چھلانگ لگائیں گے یہ وہ لوگ ہیں کہ ان میں سے بعض نے ضیاؤ الحق کے دور میں حکمرانی کے مزے لئے1988ء میں کچھ لوگ بینظیر کے ساتھ ہولئے جبکہ باقی نوازشریف کے ساتھ آن ملے2002ء میں یہ لوگ مشرف کی کنگز پارٹی ق لیگ کی زینت بن گئے 2008ء میں یہ اچانک پیپلزپارٹی میں آدھمکے 2013ء میں یہ ن لیگ میں نظرآئے جبکہ2018ء میں تبدیلی سرکار کے ساتھ مل گئے اس مخلوق کے کھاتہ میں اپنے مفاد کے علاوہ اور کوئی چیز معنیٰ نہیں رکھتی ان کی دائمی وفاداری صرف اقتدار کی کرسی کے ساتھ ہے انہیں پرواہ نہیں کہ اس کرسی پر کون بیٹھا ہے اس سلسلے میں بلوچستان کا تو دستور سب سے نرالا ہے گزشتہ دور کے آخری حصے میں قدوس بزنجو نے نواب ثناء اللہ زہری کاتختہ الٹا موجودہ دور میں انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر جام کمال کا تختہ کردیا لیکن مختصر عرصے میں ایک اور عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کیونکہ قدوس بزنجو اپنے ساتھیوں کی توقعات پر پورا نہیں اترے انہوں نے اپنے مختصردور میں کھربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک کے محضرنامے پر انگوٹھا مثبت کردیا شائد اس عظیم سانحہ کے بعد ان کی ضرورت باقی نہیں رہی عمران خان کا فیصلہ آنے کے بعد یقینی طور پر بلوچستان بھی عدم اعتماد کی تحریک آئے گی اوران کی جگہ کوئی اور یارنامہ برآجائیگا۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ بازی ہار چکے ہیں لیکن ہار مان نہیں رہے ہیں انکو توقع ہے کہ آخری لمحات میں کوئی معجزہ رونما ہوگا اور ان کی حکومت بچ جائے گی ہاں ایک صورت ہے کہ جو لوگ کپتان کو سیاست اور اقتدار میں لائے تھے اور کچھ عرصہ سے انہوں نے ساتھ چھوڑدیا ہے تو وہ عناصر میدان میں آئیں ٹیلی فون کالز کریں یا ارکان اسمبلی کوطلب کریں اور حکم دیں کپ کپتان کا ساتھ نہ چھوڑا جائے تو یہ حکومت بچ سکتی ہے لیکن بظاہر اس کا امکان نہیں ہے عمران خان جس خط کا سہارا لے رہا ہیں وہ واشنگٹن میں تعین پاکستانی سفیر کا مراسلہ ہے جس میں انہوں نے ایک امریکی نائب وزیر خارجہ سے گفتگو کے تناظر میں اپنی رائے دی۔اس طرح کے مراسلے تو روزانہ آتے ہیں امریکہ اتناپاگل نہیں کہ وہ براہ راست پاکستانی حکمران کو دھمکی دیں صرف1977ء میں ہنری کسنجر نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی اور پی این اے کی تحریک کے آخری دنوں میں جب امریکہ کو پتہ چل گیا تھا کہ آرمی چیف تختہ الٹنے والے ہیں تو انہوں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھیجے گئے تار میں لکھا تھا کہ
پارٹی از اوور
قرائن وشواہد کے مطابق موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کو عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ انہیں گنتی میں شمار نہیں کرتے حتیٰ کہ پونے چارسے عمران خان انتظار میں ہیں کہ کب صدر امریکہ کی کال آئے گی لیکن آج تک کال نہیں آئی البتہ گزشتہ ماہ جب عمران خان ماسکو گئے تھے تو امریکی اتحادی یورپی یونین نے ایک خطہ لکھا تھا جس میں روس کے کے یوکرین پر حملہ کی مذمت کا مطالبہ کیا گیا تھا عمران خان ایک طرف مبینہ دھمکی آمیز خط کو رائی کا پہاڑ بنارہے ہیں تو دوسری طرف اسے سہارا کے طور پر استعمال کررہے ہیں وہ خط کو لیکر الزام عائد کررہے ہیں پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے امریکی آشیرباد اورسرمایہ کے بل بوتے پر ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے وزیراعظم کے دونوں الزامات جوامریکہ اور پی ڈی ایم کے بارے میں ہیں قابل تحقیقات ہیں لیکن یہ تحقیقات بعد میں آنے والے حکمران کرسکتے ہیں جہاں تک پی ڈی ایم کے رہنماؤں کا تعلق ہے تو ن لیگ کے قائد نوازشریف لندن میں موجود ہیں جہاں متعدد ممالک کے سفارتی نمائندوں نے ان سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نوازشریف غیر ملکی ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں یا ایک بین الاقوامی سازش کے سہولت کار ہیں اگرچہ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ سازش کے پیچھے نوازشریف کا ہاتھ ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے لگتا ہے کہ عمران خان کے پاس معلومات کی کمی ہے نوازشریف کے برعکس امریکہ سے زرداری کے زیادہ قریبی تعلقات ہیں خاص طور پر صدر بائیڈن زرداری کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں زرداری اور بلاول بارک اوبامہ کے دور سے وائٹ ہاؤس کے سالانہ ناشتہ کی تقریب میں شرکت کرتے آرہے ہیں بائیڈن کے دور میں بلاول نے واشنگٹن جاکر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقات کی تھی ہاں یہ ضرور ہے کہ امریکہ اور یورپ کو یہ نظر آئے کہ نوازشریف یا ان کی جماعت اقتدار سنبھالنے والے ہیں تو وہ ضرور ان سے ورکنگ ریلیشنز قائم کرنے کے خواہاں ہونگے اور یہ ہر دور میں ہوتا ہے دھمکی آمیز خط جو کہ دراصل خط نہیں ایک مراسلہ ہے اس کے بارے میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ایک جعلی خط ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفیر کے ذریعے یہ لکھوایا ہے تاکہ عمران خان کی حکومت کو بچایا جاسکے اس پر اختر مینگل نے تبصرہ کیا ہے خط والا چورن پرانا ہے اس لئے یہ بکنے والا نہیں ہے اختر مینگل جو کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان طے ہونے والے معاہدہ کے گواہ ہیں بلوچستان سے ہٹ کر ایک پاکستانی قومی رہنما کے طور پر شہرت پارہے ہیں لیکن دل میں آتا ہے کہ کاش وہ بھی کوئی ایسا معاہدہ کروالیتے تو بلوچستان کا کچھ نہ کچھ بھلا ہوتا ایم کیو ایم نے تو معاہدہ کے ذریعے آدھا سندھ اپنے نام لکھوالیا ہے آج تک کسی بھی حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ نہیں کیا ہے عمران خان کو ہٹانے کی مجبوری میں زرداری نے ایم کیو ایم کو ان کے حق سے زیادہ لکھ کر دیا ہے باپ پارٹی چونکہ قومی اثاثہ ہے اس لئے اسے اپنے صوبے اور اس کے مسائل کی زیادہ فکر نہیں ہے۔
جہاں تک عدم اعتماد کا تعلق ہے تو اس کی فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے لیکن اس کے بعد پاور شیئرنگ کیسے کرنی ہے ریاست کو معاشی بحران سے کیسے نکالنا ہے یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے پی ڈی ایم ایک بڑا چیلنج قبول کررہی ہے اگر زرداری میں کوئی بصیرت ہے تو وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے ان کیلئے وقتی طور پر فرینڈلی اپوزیشن اور آئندہ جاکر بھرپور اپوزیشن کا عوام آدمی بہتر ہوگا کیونکہ2023ء کے انتخابات میں اس وقت کی حکومت کی ناکامی دیکھ کر عوام پلٹا کھاسکتے ہیں جس کا عمران خان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عمران خان گڑگڑا کر این آر او مانگ رہے ہیں انہوں نے ایمپائرز سے درخواست کی ہے وہ قبل از وقت انتخابات کیلئے تیار ہیں اس سلسلے میں اپوزیشن سے مذاکرات اور اس کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں یہ تو پتہ نہیں کہ اپوزیشن نے اس پیشکش کا جواب دیا ہے تاہم اس بات کا امکان ہے کہ اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین شائد دوبارہ حکومت سے رجوع کریں اس مقصد کیلئے ایم کیو ایم سے بھی رابطہ کیا گیا ہے سنا ہے کہ معاہدہ کے باوجود ایم کیو ایم شش وپنج میں مبتلا ہے اس حوالے سے آئندہ 24گھنٹے انتہائی اہم ہیں پاکستان جیسے ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے جبکہ اپوزیشن دورپانیوں میں نکل آئی ہے اور اس کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔