ِیہ ہم مزدور عورتیں

تحریر۔۔۔۔انیلہ یوسف
دنیا بھر میں مزدوروں کی ماہانہ اجرت اور مراعات طے کرنے یا ان پر بات کرنے کیلئے مختلف ادارے کام کرتے اور قوانین بنائے جاتے ہیں۔ مزدوری کے اوقات طے کیے جاتے ہیں،طے شدہ اوقات سے زائد مزدوری کرنے پر الگ معاوضہ دیا جاتا ہے مگر ہمارے اردگرد ہمارے اپنے ہی گھر میں کچھ مزدور ایسے بھی ہیں جن کو نہ کبھی مزدور سمجھا گیا نہ کوہی ضابطہ یا قانون اور اصول بنائے گئے نہ ان کی مزدوری کے اوقات طے کیے گئے نہ ہی اجرت ملی۔ اجرت تو دور کی بات کبھی ان کی خدمات کو سراہا تک نہیں گیا، نہ کبھی چھٹی دی گئی۔ پانچ سال پہلے پاکستان میں سر اٹھا کر بغاوت کرنے والی عورتوں نے اس سال انہی مزدوروں کیلئے احتجاج اور مارچ کیا۔ یہ مزدور ہمارے گھر میں ماں، بیوی، بیٹی، بہن کی شکل میں ہمہ وقت کام کرنے کیلئے حاضر رہتی ہے۔ بلوچ معاشرے یا خصوصاً بلوچستان جہاں معاشی حالات گھر میں کام کرنے کیلئے نوکر رکھنے کی اجازت نہیں دیتے اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے میں اس مزدور کی مشقت زیادہ محنت طلب ہوتی ہے جہاں اسے پانی بھر کر سر پر رکھ کر لانے، لکڑیوں سے کھانے بنانے، جانوریں سنبھالنا، ہاتھ سے کپڑے دھونا وغیرہ کرنا پڑتا ہے۔ اسکول میں اپنی جماعت میں دن کی مصروفیات لکھنے کیلئے بچیوں سے کہا تو ان سب کے مضامین میں صرف گھر کے کام ہی لکھے تھے کہ کیسے اسکول کی چھٹی کے بعد گھر کا بیشتر کام ان کے ذمے ہوتا ہے۔ بلوچستان میں اسکول چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ گھر کا کام ہی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چائلڈ لیبر سے متعلق ادارے اور قوانین اس پر خاموش ہیں۔ یہ رویہ ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں اس طرح گاڑ چکا ہے کہ پڑھے لکھے اور بظاہر روشن خیال آنے والے مرد، سوشل میڈیا میں ظلم کیخلاف آواز اٹھانے والے مرد بھی گھر پر اسی ظلم کو روا رکھتے ہیں گھر کے کام کو عیب اور گھر میں موجود عورت کو غلام سمجھتے ہیں، اگر خوش قسمتی سے کوئی مرد اپنے گھر میں کام کاج میں ہاتھ بٹائے یا بچوں کے دیکھ بھال کرے تو اسے بھی تمسخر کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ حالت گھر میں موجود عورتوں کا نہیں ہے بلکہ گھر سے باہر کام کرنے والی عورتیں بھی اس سے بری الزمہ نہیں ہیں۔ انہیں گھر کے باہر ملازمت اور گھر آکر پھر سے گھر کے کام کرنے ہوتے ہیں۔ عورت کو صنف نازک کہنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے جسم کی نازک بناوٹ کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ بشمول تولیدی اعضاء کے اس کے جسم کی بناوٹ اس قدر نازک ہے کہ اس سے مشقّت کا کم کروانا اسکی صحت کے لئے خطرناک اور اس پر ظلم بھی ہے۔ جس کے اثرات عورت پر 40 سال کے بعد مختلف، بیماریوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ اس بات کو نہ صرف سمجھنا چاہیے، بلکہ تسلیم بھی کرنا چاہیے کہ گھر کے کام کی ذمّہ داری صرف بچیوں یا عورتوں کی نہیں بلکہ گھر میں موجود ہر فرد کی ہے۔ گھر میں بیٹے اور بیٹی پر یکساں ذمّہ داری ڈالیں۔ اسی سے ایک صحت مند اور متوازن معاشرے کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔بیٹوں کو تربیت دیں اور بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلوائیں تاکہ وہ خودمختار ہو کر باہر کام کریں۔ اس سے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے درمیان فرق بھی مٹے گا۔ دونوں باہر بھی کام کریں گے اور گھر کا کام بھی ساتھ کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں