سائنس، سائنسی طریقہ کار اور ہم!

تحریر…جان محمد انصاری
سائنس کی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ اس قدر قدیم ہے جس قدر خود انسان کی تاریخ قدیم ہے۔ اکیسویں صدی میں نظر آنے والی یہ تیز رفتار ترقی سائنس کی مرہون منت ہیں۔ دنیا جس تیزی سے اس صدی کے دوئم دہائی میں ترقی کی سفر طے کی ہے وہ پچھلے تمام ترقی کے ریکارڈز کو تھوڑ دیا ہے۔ سائنس اگر چہ تمام انسانیت کی میراث ہے۔ اس کی ترقی اور ترویج میں دنیا کے تمام اقوام نے اپنا حصہ دیا ہے۔ مگر پھر بھی سب سے پہلے اس میں نمایاں کارکردگی دیکھانے والے یونانی لوگ تھے۔ سقراط، افلاطون، ارسطو، بقراط سمیت دیگر سیکڑوں ایسے نام ہمیں ملیں گے کہ جنہوں نے علم کی دنیا میں کارکردگی دکھائی ان سب کا تعلق یونان سے تھا۔ افلاطون اپنی یونیورسٹی میں اپنے شاگردوں کو سیاسیات، اخلاقیات اور جمالیات کے مضامین پڑھایا کرتا تھا، اس کے بعد اس کے شاگرد ارسطو نے اس میں اضافہ کیا اور علم کے دیگر شاخوں کو بھی متعارف کرایا۔ جن میں فلسفہ کے علاوہ شاعری، المیہ، سیاسیات، طبعیات، مابعد الطبعیات، قانون اور فن خطابت شامل تھے۔ اس نے سب سے پہلے لبرل علم کی اصطلاح کو استعمال کیا جو بعد میں سائنس کہلایا جو کہ دراصل ایک طریقہ کار کا نام ہے۔ ایک ایسا طریقہ کار جس کا تعلق دلیل، تجربہ اور مشاہدہ پر ہے۔ یونانیوں سے یہ علم مسلمانوں نے حاصل کیا۔ ساتویں صدی سے بارہویں صدی تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ جب تک مسلمانوں نے سائنسی علوم میں دلچسپی لیتے رہے اس وقت تک مسلمانوں نے دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں، لیکن پھر مسلمانوں نے جب سائنس سے دوری اختیار کی تو روبہ زوال ہوئے اور آج تک روز بروز زوال کی گہرایوں میں جاچکا ہے کیونکہ انہوں نے سائنس کو سائنس رکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے انہوں نے تمام تر کوششیں کیں کہ مذہبی عقائد کو سائنس کی مدد سے درست ثابت کرے اور جہاں سائنس نے ان سے اختلاف کیا وہاں انہوں نے سائنس کو مزید بڑھنے نہیں دیا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے یہ یورپ پہنچا اور پھر آج تک سائنس پر انہی لوگوں کی بالا دستی قائم ہے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں سائنسی طریقہ کار کا استعمال کرنا شروع کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آج وہاں سائنس کی مدد سے پہنچے ہیں کہ اس کا اندازہ تک ہم نہیں لگا سکتے۔ سائنسی علوم کے نتیجے میں یورپ ایک ترقی کا ماڈل بن چکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اب لوگ سائنس پر ایمان کی حدتک یقین کرتے جارہے ہیں۔ سائنسی ترقی نے تو اب مسلمانوں سمیت دیگر لوگوں کے مذہبی عقائد کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب مذاہبِ کے عقائد اور احکاماتِ میں ترمیم آتے جارہے ہیں۔ مستقبل میں شاید اسلام سمیت دنیا کے دیگر مذاہبِ کے عقائد و احکامات میں بنی نوع انسان کو نمایاں تبدیلی نظر آئے گی جو اقوام یا مذاہبِ کے پیروکار سائنسی تبدیلی کے ساتھ نہیں بڑھیں گے یا تو وہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرح پسماندہ رہ جائینگے یا پھر ان کا وجود صحفہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ ہماری بقاء کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی حالات کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کرے اور سائنسی علوم یا طریقہ کار کو اپنی تمام تر شعبہ جات زندگی میں شامل کرے بصورت دیگر ہم مزید تاریکی اور پسماندہ گی کی طرف چلتے جائینگے۔