پاکستانی قوم بھکاری یا خود دار قوم ؟

تحریر : جان محمد انصاری

گزشتہ روز ایک انٹرویو میں سابق وزیراعلی پنجاب ، سابق متحدہ اپوزیشن کے سربراہ اور مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہم ایک بھکاری قوم ہیں اپنا فیصلہ خود نہیں کرسکتے۔ ان کے اس جملے کو لیکر تحریک انصاف کے کارکنان اور عقل سے عاری جذباتی لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نیازی کا بیان کہ ہم ایک خود دار قوم ہیں ، اللہ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتے والے بیان کو شیئر کرتے رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے آگے جھکنا چاہیے اور کسی کے آگے نہیں جھکنا چاہیے لیکن ہم ایک خوددار قوم ہیں والا جملہ شاید دل کے بھلانے کیلئے اچھا ہو۔ جیسا کے مرزا غالب نے کہا تھا کہ ( ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن ۔ دل کے بھلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے)۔ کیا ہم ہاتھ دل پر رکھ کر کہہ سکتے ہے کہ واقعی پاکستانی قوم ایک خوددار اور بھکاری قوم نہیں ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں ؟ حالانکہ اگر زمینی حقائق اور جذبات سے بالا تر ہو کر عقل کی روشنی میں دیکھا جائے تو شہباز شریف نے کوئی غلط بات نہیں کہی بلکہ انہوں نے پاکستانی قوم کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستانی عوام کو بھکاری بنانے میں ان کے خاندان، پارٹی اور ان کی ذات کا کتنا کردار شامل ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھکاری نہیں ہیں۔ کیا ہم آئی ایم ایف سے سالانہ بھیک نہیں مانگتے؟ کیا ہم ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مقروض نہیں ہیں؟ کیا ہم ایف آئی ٹی ایف کی گرے لسٹ میں نہیں ہیں ؟ کیا پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے چند آخری پاسپورٹوں میں شمار نہیں ہوتا؟ کیا پاکستان ایک دن بھی بیرونی امداد کے بغیر چل سکتا ہے؟ کیا ہمارے ادارے سول ہوں کہ عسکری امریکی ڈالرز پر نہیں چلتے؟ کیا ہماری وزیراعظم کو اسٹیبلشمنٹ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ ڈیکٹڈ نہیں کرتا؟ قوموں کی زوال کے کے اسباب ہوسکتے ہے لیکن میرے خیال میں وہ قومیں جلد زوال پزیر ہوتی ہیں جو حقیقت کا سامنا نہیں کرتے اور حقیقت شناس نہیں ہوتے۔ عام الفاظ میں بھکاری کی تعریف یہی ہے کہ ایسا شخص، معاشرہ، قوم اور ملک جو اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے بھی کسی دوسرے کا محتاج ہو اسے بھکاری کہا جاتا ہے۔ بھکاری بذات خود لاکھ کہے کہ وہ بھکاری نہیں ہے لیکن اس کے افعال و اعمال، رویہ، طور طریقے اور زندگی بیرونی امداد کے رحم و کرم پر ہو تو دنیا اسے بھکاری ہی کہتے ہیں یہ ایک بھول ہوگی کہ وہ اپنے منہ میاں مٹھو کی طرح خود کو بادشاہ ہی کیوں نہ سمجھتے رہے۔ عمران خان نیازی خود کو اور عام پاکستانی کو ایسے جذباتی نعروں کے پیچھے لگا کر اپنی نااہلی کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات ایک ایسا بندہ کررہا ہے کہ جس کی جماعت اور بڑا بھائی نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان اور خود تین مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکا ہے۔ اس کو ہم سے زیادہ علم ہے کہ ہم بھکاری ہے کہ نہیں۔ 75 فیصد ملکی آمدنی کا ذریعہ زراعت ہونے کے باوجود ہم سالانہ دیگر ممالک سے گندم درآمد کرتے ہوئے نظر آتے ہے۔ ملک میں اس وقت ایک دو چند کارخانے جو قدیم دور سے موجود ہے وہ بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور ویسے بھی ہمیں صنعت کی ضرورت ہی کہاں رہ چکا ہے ہم اب ہر چیز بنے بنائے سمندروں سے گہرا اور ہمالیہ سے اونچا دوست چین سے ہی برآمد کرتے ہیں۔ ملزم حوالات میں مرجاتا ہے وہ اس کے بعد عدالتوں میں کیس کی سماعت کی باری آتی ہے۔ بار بار دہشتگردوں کی کمر توڑنے کے باوجود وہ ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ منڈی سے کبھی گندم غائب تو کبھی چینی شارٹ ہوجاتی ہے۔ پیڑول اور دیگر توانائی کے شعبے میں شاید چند سال کے اندر ہم افغانستان کو بھی پیچھے چھوڈ دیں۔ کیونکہ اب افغانستان بھی تو پرانا افغانستان نہیں رہا، ہم بہت جلد ان کو بھی اپنی برابری میں لائیں گے یا پھر خود کو ان کے برابر کردینگے۔ اس سے پہلے ہمارے پاس صرف کاغذی آئین ہوا کرتا تھا اور جب بھی کچھ ہوتا تو ہم جلدی 1973ءکے آئین کا حوالہ دیتے اور دنیا کو کہتے کہ ہمارے پاس بہترین ایک کاغذی نا قابل عمل آئین ہے لیکن الحمد اللہ عمران خان نیازی نے آئین کا بھی فالودہ بنا دیا۔ زمینی حقائق کے پیش نظر بھکاریوں میں جو نشانیاں پائی جاتی ہیں وہ سب پاکستانی عوام میں موجود ہیں اب ہم مانے یا نہ مانے حقیقت نہیں بدل سکتی اور جب تک ہم حقیقت کا سامنا نہیں کرینگے ملک میں آئین کی بالادستی اور شفاف انتخابات نہیں ہوتے اور یہی کچھ ہوتا رہے جو ہورہا ہے جو مشکل ہے کہ بھکاری قوم سے ایک خود دار قوم بن جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں