جہالت کا جشن

تحریر: جیئند ساجدی
ابو لکلام آزاد برصغیر کے تاریخ میں ایک قد آور شخصیت مانے جاتے ہیں ان کی سیاسی دانش سے متاثر ہو کر کانگرنس کے سینئر رہنماؤں نے انہیں پارٹی کا صدر بھی منتخب کیا اور وہ کئی سال اس عہدہ پر بھی فائز رہے۔پارٹیشن سے محض ایک سال قبل وہ اس عہدے سے مستعفی ہوئے اور ان کی جگہ جواہر لعل نہرو نے کانگریس کی صدارت کی۔وہ تقسیم ہند کے بہت بڑے مخالف تھے۔پارٹیشن سے کچھ روز قبل انہوں نے دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے تاریخی خطاب کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ تقسیم ہند سے سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہوگا وہ ایک انتظامیہ کی بجائے مختلف بین الاقوامی ریاستوں میں تقسیم ہونگے اس سے ان کی طاقت و صلاحیت بھی تقسیم ہو جائے گی۔پاکستان میں رہنے والے مسلمان ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرپائیں گے اسی طرح ہندوستان میں رہنے والے مسلمان پاکسنانی مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرپائیں گے۔ ہندوستانی مسلمان جب آزاد ہندوستان کی پہلی صبح میں آنکھ کھولیں گے تو وہ اپنے ہی سرزمین میں خود کو اجنبی محسوس کرینگے وہ ایک ایسی سرکار کے رحم وکرم پر ہونگے جو خالصاً ہندو ہوگی اور وہ اب تا عبد ہندوؤں کے غلام بن جائینگے جب کہ پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کا اڈہ بن جائے گا اور پاکستانی مسلمان سیاسی،پسماندگی کاشکار ہوجائیں گے۔پاکستان بنتے ہی مسلمانیت کا جذبہ کم ہو جائے گا اور علاقائی سیاست کو پروان ملے گی اور مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کچھ سالوں بعد الگ ہو جائے گا۔اگر ملک کی 75سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابو لکلام آزاد کا تجزیہ بلکل درست ہے۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں الگ ہوچکا ہے۔سماجی میڈیا کے توسط سے ہندوستانی مسلمانوں کا حال معلوم ہورہا ہے کہ ان کی حیثیت ایک دوسرے درجے کے شہری جیسی ہے۔کبھی انہیں سر عام ہجوم میں مارا پیٹا جا تا ہے تو کبھی قتل بھی کیا جاتا ہے تو کبھی زبردستی جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے جاتے ہیں اتر پردیس کی بی جے پی کی سرکار نے رمضان کے شروع ہوتے ہی گوشت کے فروخت پر 8دن کے لئے پابندی لگادی ہے یہ عمل غالباً اس لئے کیا ہو گا کہ مسلمانوں کو ان کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس دلائے جاسکے۔
ابو الکلام کی تیسری بات کہ پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کا اڈہ بن جائے گا اور پاکستان مسلمان سیاسی پسماندگی کا شکار ہو جائیں گے یہ بات بھی سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے۔اپنے قیام کے کچھ دن بعد ہی پاکستان سرمایہ دار امریکہ اور کمیونسٹ روس کی لڑائی میں شامل ہوگیا جس طرح کچھ دن قبل ایک نازک صورتحال کے دوران عمران خان روس کے دورے پر گئے اسی طرح ملک کے پہلے وزیراعظم واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر چلے گئے تھے بعد میں حکمرانوں نے سیٹوں اور سینٹوں جیسے امریکی دفاعی معاہدوں پر بھی دستخط کئے تھے۔امریکہ نے یہاں ہر آمر چاہے وہ ایوب خان ہو یا ضیاء الحق یا پر مشرف ان سب آمروں کی مدد کی ہے۔عمران خان کا دورہ روس بھی اسی تسلسل کی گھڑی ہے کہ پاکستان کو اب امریکہ کی بجائے روس کا سیاسی اڈہ بنایا جائے۔یہاں کے عوام بھی بد ترین قسم کے سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں انہوں نے ہر آمر کے آمد پر جشن منایا ہے۔بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب شیخ مجیب بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو انہیں مینڈیٹ دینے کی بجائے گرفتار کرلیا گیا۔میر صاحب لکھتے ہیں کہ وہ اس وقت پاکستان کے ایک بڑے شہرمیں تھے اور متقدر ہ کی اس غیر جمہوری عمل پر لوگ خوشیاں منا رہے تھے دراصل وہ شیخ مجیب کی گرفتاری کا نہیں بلکہ اپنی جہالت کا جشن منارہے تھے کیونکہ اس عمل سے ملک کے ٹوٹنے کا خدشہ تھا۔پاکستانی عوام غالباً جہالت کا جشن اس لئے منا رہے تھے کہ مین اسٹیریم حب الوطن پاکستانی میڈیا نے مقتدرہ کے کہنے پر عوام کے ذہنوں میں یہ سازشی مفروضہ ڈال دیا تھا کہ شیخ مجیب کے چھ نکات ملک دشمنی پر مبنی ہیں اور وہ ایک غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔کچھ عرصے بعد میر غوث بخش بزنجو اور ان کی جماعت نیپ کی منتخب حکومت بھی ایک اور سازشی مفروضے کے تحت ختم کی گئی کہ وہ عالمی طاقتوں سے مل کرآزاد بلوچستان کی تحریک چلا رہے ہیں اس وقت بھی غالباً پاکستان کے بڑے شہروں میں عوام نے اپنی جہالت کا جشن منا یا ہوگا۔کچھ وقت بعد بھٹو خود بھی گرفتار ہوئے اور انہیں بھی پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور اس عمل پر بھی پاکستانی عوام کی بڑی تعداد نے بھٹو کے قتل کا جشن منایا ہوگا یہی جشن انہوں نے نواز شریف اور بے نظیر کے حکومتوں کے خاتمے کے وقت منایا ہوگا اور مشرف جیسے آمر کے آئین توڑنے کے وقت اور غیر جمہوری طریقے سے صدر بننے کے وقت بھی منایا ہوگا۔2013ء کے الیکشن میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ایک بڑی جماعت بن کر ابھری انہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ تبدیلی لائیں گے پاکستانی عوام کو سب سے زیادہ ذہنی تبدیلی کی ضرورت تھی لیکن وہ الٹی تبدیلی لے کر آگئے انہوں نے اپنے سیاسی پیروں کاروں کو مزید سیاسی پسماندگان بنا دیا بلکہ سیاسی پسماندگی میں تحریک انصاف کے کارکنان ماضی کے تمام لوگوں سے بازی لے گئے ہیں موجودہ سیاسی بحران کاسامنا عمران خان نے اس طرح سامنا کیا ہے جیسے کوئی فاشسٹ رہنما کرتا ہے وہ عدم اعتماد سے قبل اپنے وفا داری تبدیل کرنے والے ایم این ایز کو دھمکیاں دے رہے تھے ان کے ترجمان نے لائیو ٹی وی شو میں ایک ایم این کو گالیاں بھی دے دی تھیں۔ماضی کے آمروں کی طرح عمران خان بھی ایک سازشی مفروضہ لے کر آئے ہیں کہ ان کی حکومت سے امریکہ خوش نہیں تھی کیونکہ انہوں نے آزادانہ خارجہ پالیسی بنائی تھی اور یہ عدم اعتماد کی تحریک امریکی سازش کا حصہ ہے۔ثبوت کے طور پر انہوں نے ایک مبینہ خط کا بھی ذکر کیا ہے اس بات میں شک نہیں کہ امریکہ بہت سے تیسری دنیا کی ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے جبکہ کئی دفعہ انہوں نے رجیم تبدیل کر کے اپنے من پسند نمائندوں کے ذریعے بہت سے ممالک میں حکومت کی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امریکہ کے پالیسی میکرز ایک بین الاقوامی ملک کے وزیراعظم کو رجیم تبدیلی کی دھمکی تحریری صورت میں دیں گے۔اس کے لئے وہ ایسے حربے استعمال کریں گے جس کے کوئی ثبوت و شواہد نہ مل سکیں۔
بین الاقوامی تعلقات عامہ میں شاید خط کے ذریعے دھمکانے کی یہ پہلی مثال ہو گی۔ہنری کسنگر پر بھی جب بھٹو نے الزام لگایا تھا تو بھٹو نے نہیں کہا تھا کہ ہنری کسنگر نے انہیں کوئی تحریری خط لکھ کر دھمکی دی ہے بلکہ بھٹو کے مطابق ایک ٹیلی فونک گفتگو میں ہنری کسنگر نے ان کو دھمکی دی تھی مشرف نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ایک اہم امریکی رہنماء نے ان کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ پاکستان کو پتھروں کے دور میں لے جائینگے۔مشرف کے مطابق یہ دھمکی انہوں نے ایک ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کی تھی کوئی خط لکھ کر نہیں۔ابھی عمران خان الزام عائد کر رہے ہیں کہ ایک امریکی رہنماء ڈونلڈ لو نے تحریری طور پر انہیں رجیم تبدیلی کی دھمکی دی ہے۔اگر عمران خان کی بات کو درست مان لیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کے موجودہ پالیسی میکرز ماضی کے پالیسی میکرز کی نسبت کافی غیر تجربہ کار ہیں۔1970ء اور2000ء میں امریکی رہنماء شواہد نہ چھوڑنے کے لئے نجی گفتگو ؤں کے دوران دھمکیاں دیا کرتے تھے جب کہ اب امریکی سفارتکار تحریری صورتوں میں دھمکیاں دے رہے ہیں کچھ اسکالر ز یہ تجزیہ کاررہے ہیں کہ یہ سنچری چین اور روس کی سنچری ہے اورامریکہ کا بطور عالمی طاقت زوال شروع ہوچکا ہے اگر عمران خان کی بات درست مان لیا جائے تو یوں سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کا زوال شروع ہوچکا ہے کہ وہ اتنی بڑی دھمکی تحریری صورت میں دے رہے ہیں اس مفروضے پر یقین صرف وہی انسان کرسکتا ہے جو سیاسی حوالے سے کافی پسماندہ ہو۔بنا کسی تعجب عمران خان کے کارکنان ان کے اس سازشی مفروضے پر آنکھ بند کر یقین کررہے ہیں ان کی حمایت یافتہ لوگوں کی تعداد کا اندازہ سماجی میڈیا کے مختلف ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے حمایتوں کی تعداد غیر معمولی ہے۔اکثر پاکستانی سماجی میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ یہی ہے کہ امریکہ نے واقعی عمران خان کو خط لکھا تھا وہ نہ صرف اس خط پر یقین کررہے ہیں بلکہ قاسم سوری اور عمران خان نے جس طرح آئین‘پارلیمان اور جمہوریت کی تذلیل کی ہے وہ اس کا بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ جشن منا رہے ہیں۔کچھ روز قبل ایک بڑی تعداد میں عمران خان کے کارکنان نے اسلام آباد کے ڈی چوک کے سامنے دھر نا بھی دے رہے تھے اس سے غوث بخش بزنجو کی وہ بات یاد آجاتی ہے کہ وہ دراصل اپنی جہالت کا جشن منارہے ہیں۔ ابو الکلام آزاد کی بات درست تو ثابت ہوتی ہے کہ پاکستانی عوام سیاسی پسماندگی کا شکارہو جائے گی لیکن جس نوعیت کی سیاسی پسماندگی کا شکار پاکستانی عوام ہے اس بات کا اندازہ شاید مولانا ابو الکلام آزاد کو نہیں تھا۔