ڈیتھ ٹریپ

تحریر: انورساجدی

سپریم کورت کے باہر پریس کانفرنس میںسابق وزیراطلاعات اور آزاد صحافی مطیع اللہ جان کے درمیان ایک دلچسپ جھڑپ ہوئی ایک سوال پوچھنے پر فواد چوہدری نے کہا کہ آجاتے ہیں کرایہ کے کچھ لوگ اس پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ کرائے کے ٹٹو ہونگے آپ اس کے بعد جو کچھ ہوا فوادچوہدری کو پریس کانفرنس چھوڑ کر جانا پڑا تحریک انصاف کے رہنماﺅں کایہ رعونت والا رویہ عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ ہونے کے بعد سامنے آرہاہے۔
ادھر پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے مسئلہ پر تحریک انصاف میںپھوٹ گئی ہے اور پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کیخلاف عدم اعتماد کی قرار داد جمع کروادی ہے۔
قومی اسمبلی توڑنے کا مسئلہ ابھی تک سپریم کورٹ میںزیر سماعت ہے اور فوری فیصلہ آنے کا امکان نہیںہے کیونکہ صدر کے وکیل بھی دلائل دیںگے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کورٹ سے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ69آگ کی وہ دیوار ہے کہ کورٹ اسے پھانگ کر اندر نہیںجاسکتی بے چارہ علی ظفر بھول گئے ہیں کہ 1954، 1956 ، 1973 ، 1977 ، 1990 ، 1993 اور 1997ءمیںجو اسمبلیاں ٹوٹیں انہی عدالتوں نے نظریہ ضرورت کے تحت ان اقدامات کو جائز قراردیدیا دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میںتو فوجی آمروں نے آئین کو روندا لیکن اس مرتبہ ایک سویلین آمر نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر آئین کی دھجیاں اڑادی ہیں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد ملک میںکوئی حکومت کام نہیںکررہی ہے کابینہ موجود نہیںہے اور ریاست کسی ضابطہ کے بغیر چل رہی ہے ساری نظر سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں لیکن جو آئینی بحران مرکز میںشروع ہوا تھا اس نے پنجاب کو بھی اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے جس طرح عمران خان قومی اسمبلی میںاپنی اکثریت کھوچکے تھے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ برے طریقے سے چوہدری پرویز الٰہی پنجاب میںپٹ گئے ہیں لیکن وہ زورزبردستی دھونس دھاندلی اورسینہ زوری کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب بننا چاہتے ہیں اگر وہ زبردستی وزیراعلیٰ بن بھی گئے تو ان کی حکومت چند ہفتے ہی چل سکتی ہے اس کے بعد چاروں اسمبلیاں تحلیل ہونگی اور ملک نئے انتخابات کی طرف جائیگا ضیاﺅ الحق کی قائم کردہ نودولتیہ ایلیٹ کے درمیان اقتدار اور سیاسی بالادستی کی جنگ اہم مرحلے میںداخل ہوگئی ہے عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے بعد عمران خان یہ سمجھے کہ انہوںنے سومنات کا مندر فتح کرلیا ہے اور اپوزیشن کے سارے بت توڑدیئے ہیں لیکن اپوزیشن دعائیں دیں میڈیا اور علیم خان کو انہوںنے میڈم فرح گوگی گجر کے کرپشن کے غضب کہانیاں سامنے لے آئے وزیراعظم روز پہلے بتاچکے تھے کہ اپوزیشن ان کی اہلیہ کی کردارکشی کاپروگرام بناچکی ہے ان کا شارہ میڈم گوگی کی طرف تھا حالات کی تبدیلی کے بعد میڈم کو چھپکے سے دوبئی فرار کروایا گیا جہاں ان کی کروڑوں یا اربوں روپے کی جائیداد موجود ہے موصوف اس شان سے گئی کہ کندھے پرڈیڑھ کروڑ کا پرس اور پیروں میں8لاکھ روپے جوتے ان کی جھوٹی شان کا تمسخر اڑا رہے تھے یہ انکشاف تو حال ہی میںہوا ہے کہ بزدار کو وزیراعلیٰ میڈم گوگی اور خاتون اول نے مل کرلگایا تھا دونوں مل کر پنجاب کو چلارہے تھے میڈم جی کی لوٹ مارکی اور کیا ہوش ربا کہانیاں سامنے آئیںگی یہ انتخابی مہم کے دوران ہی پتہ چلے گا عمران خان2014ءسے اپوزیشن رہنماﺅں کو کرپشن پر بدنام کررہا ہے لیکن حکومت سے اترنے کے بعد ان کی باری آئیگی ان کے ساتھ جو افسران کام کرتے تھے انہوںنے ساری تفصیلات جمع کررکھی ہےں اور وہ جلد یہ تفصیلات محترمہ مریم نواز کے حوالے کرنے والے ہیں یعنی بہت جلد خوب دھماچوکڑی جمے گی تو غدار میں محب وطن میںکرپٹ تو زیادہ کرپٹ کی بحث زور پکڑے گی اور نام نہاد ایلٹ ایک دوسرے کے کچے چٹے سامنے لائیگی بنیادی طور پر یہ جو موجودہ اشرافیہ ہے یہ گزشتہ جنم میںیا اپنے آباﺅ اجداد کے دور میںڈوم مراثی شتربان چوپان اور لوہار تھے کچھ کوانگریزوں نے گھوڑا پال اسکیم کے تحت جاگیردار بنایا کچھ کو ایوب خان نے ٹیکسٹائل کے پرمٹ دے کر سرمایہ دار بنایا اور جو باقی مخلوق ہے وہ جنرل ضیاﺅ الحق کی عنایت کا نتیجہ ہے جب یہ نودولتیہ ملکی دولت لوٹ کر ڈالروںمیںاس کا حساب لگاتے ہیں تو یہ بے تحاشا دولت ان سے برداشت نہیں ہوتی اوپر سے اقتدار بھی ان کی لونڈی ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ اشرافیہ عمران خان کی وجہ سے دوحصوں میںتقسیم ہوگئی ہے اوپر سے نیچے تک سب تقسیم ہیں اہم اداروں اور شخصیات میںابھی تک یہ تاثر قائم ہے کہ عمران خان ہی وہ کرشماتی لیڈر ہے جو پاکستان کو تمام بحرانوں سے نکال کر ایک خودمختار اور خوشحال ریاست بنادیںگے لیکن ان کی صلاحیتوں کایہ عالم ہے کہ پونے چار سال کے بلند وبانگ دعوﺅں کے باوجود معیشت ن لیگ کے دور سے بدتر ہے ڈالر187روپے پر پہنچ چکا ہے قرضے ڈبل ہوگئے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں کئی معاشی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو پاکستان سری لنکا کے درجہ پر پہنچ جائیگا عمران خان نے بیٹھے بٹھائے قوم کو ایک آئینی بحران میںمبتلا کردیا ہے اور وہ ہارماننے کو تیار نہیںہے دراصل عمران خان کو سپورٹ کرنا ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ریاستی ڈھانچہ آئین اور سب کچھ بدل کر رکھنا ہے منصوبہ سازوں کے کیا ارادے اور عزائم ہیں درج ذیل مفروضہ پر مبنی تجزیہ سے اس کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے اگر منصوبہ ساز کامیاب رہے تو وہ کچھ عرصہ تک عمران خان کو استعمال کریںگے اور مطلب براری کے بعد ان پر دفعہ6لگاکر ایسا غدار اور ملک دشمن ثابت کریںگے کہ ان کی جان چھوٹنا مشکل ہوجائےگا۔سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قبل صورتحال کے بارے میںکچھ کہنا بے کار ہے لیکن نوشتہ دیوار دھندلی دھندلی نظرآرہی ہے جو فیصلہ آنے کے بعد واضح ہوجائے گی ایک بات صاف ظاہر ہے کہ طاقت کے عناصر پارلیمانی نظام سے تنگ آچکے ہیں اور وہ ملک میںبیڈ گورننس آئینی اور معاشی بحران کی وجہ پارلیمانی نظام کو سمجھتے ہیں اس لئے انہوںنے کافی عرصہ سے سوچ رکھا ہے کہ اس نظام سے جان چھڑائی جائے اپنے سابقہ لاڈلے نوازشریف کواقتدار سے نکال باہر کرنے اور عمران خان کو لانچ کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ1973ءکے آئین اور پارلیمانی نظام کو رخصت کیاجائے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک انصاف دوتہائی تو کیا سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی اگرچہ عمران خان وزیراعظم بن گئے لیکن پونے چار سال میںوہ ملکی حالات کو سدھار نے میںبری طرح ناکام ہوگئے اس صورتحال سے ان کے سرپرست گہری سوچ وفکر میںپڑ گئے تاہم عمران خان کو حالات کاذمہ دار قرار دینے کی بجائے انہوںنے پارلیمانی نظام کو حالات کی خرابی کا مرتکب قرار دیا اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے ایک زبردست پلان بنایا گیا اسی دوران اپوزیشن کو سوبار یقین دہانی کروائی گئی کہ سرپرست نیوٹرل ہوگئے ہیں اپوزیشن کی ٹاپ لیڈر شپ نے بھی اس بات کا یقین کرلیا اس لئے اس نے عمران خان کو نکالنے کیلئے عدم اعتمادلانے کافیصلہ کیا زرداری کی کوششوں سے اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہوگئی چنانچہ8مارچ کو تحریک پیش کردی گئی تحریک پیش کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کا کوئی پلان بی یا سی نہیںتھا ان کا خیال تھا کہ آئین میںدیئے گئے طریقہ کار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کروائی جائے گی لیکن ان کومعلوم نہیںتھا کہ یہ ایک ڈیٹھ ٹریپ تھا لوگوں کو یاد ہوگا کہ تحریک پیش ہونے سے پہلے عمران خان روز اپوزیشن کو شہ دیتے تھے کہ کدھر ہے تمہاری تحریک جلدی پیش کردہ اسی دوران انہوںنے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد ہمارے لئے ایک نعمت سے کم نہیںہے اس نے تحریک انصاف میںجان ڈال دی ہے اور اسے نئی زندگی بخشی ہے لیکن اپوزیشن کے اکابرین ان کی بات سمجھ نہیںسکے شروع میںعمران خان نے تاخیری حربے استعمال کئے اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سات یا14دن میںتحریک پر بحث نہیںکروائی پھر اسپیکر نے اچانک اعلان کیا کہ گزشتہ پیر کو ووٹنگ کروائی جائے گی اپوزیشن خوش تھی کہ196اراکین وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میںووٹ دیںگے لیکن ووٹنگ کیا ہونا تھی اس دن اسپیکر غائب ہوگئے اور اسٹے آرڈر پر ایم این اے رہنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کیلئے کرسی خالی کردی تحریک پر ووٹنگ سے قبل عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ایساسرپرائز دیں گے کہ اپوزیشن کو اس کی سمجھ نہیںآئیگی چنانچہ ڈپٹی اسپیکر نے طے شدہ پلان کے تحت پہلے سے ٹیپ شدہ رولنگ پڑھی جو آئین کی دفعہ 5اے کے تحت تھی یہ رولنگ بہت اونچی جگہ سے آئی تھی اور کئی آئینی ماہرین نے مل کر تیار کی تھی قاسم سوری نے رولنگ عجلت میںاور گھبرائے ہوئے انداز میںپڑھی حتیٰ کہ نیچے جو اسپیکر کا نام لکھا ہوا تھا وہ پڑھ دیا رولنگ سے قبل نوتقرر شدہ وزیرقانون فواد چوہدری نے فوری طور پر اٹھ کر کہا کہ عدم اعتماد ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد حکومت کو تبدیل کرنا ہے لہٰذا جن لوگوں نے یہ تحریک پیش کی ہے وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں لہٰذا تحریک مسترد کردی جائے اس پر اسپیکر نے اپنا مشہور عالم رولنگ دی اور اجلاس ختم کردیا جب رولنگ آئی تو اپوزیشن کے سارے لیڈر شاک میںچلے گئے انہیںسمجھ نہیںآرہا تھا کہ کیا کریں تھوڑی دیر تک ایک سکوت طاری ہوگیا سکوت مرگ ، بعدازاں ایاز صادق کی صدارت میںاراکین نے علامتی اجلاس منعقد کیا لیکن اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیںتھی رولنگ کے ساتھ ہی عمران خان کا پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب ٹی وی پر آیا جس میںانہوںنے غداروں کی بھرپور مذمت کی اور کہا کہ قوم نئے انتخابات کی طرف جارہی ہے چنانچہ ان کے خطاب کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی اپوزیشن کے لیڈر بہت چیخے چلائے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اگلے روز سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن کورٹ سوموٹو نوٹس لے چکی تھی اتوار کے روز کورٹ کھول کر سماعت شروع کردی لیکن صاف نظرآرہا تھا کہ وہاں پر کوئی گرم جوشی نہیںتھی اور نہ ہی آئین شکنی جیسے مسئلہ پر کوئی ایمرجنسی یا پریشانی دکھائی دے رہی تھی عمران خان نے اپنی فتح کا اعلان کیا اور کہا کہ اپوزیشن عام انتخابات میںجانے کے قابل نہیں ہے عوام ان غداروں کو عبرتناک سبق سکھائے گی یہ عمران خان کا کمال ہے کہ انہوںنے ایک دہائی تک عوام کو باور کروایا کہ زرداری اور نوازشریف بہت بڑے چور اور ڈاکو ہیں اس بنیاد پر انہوںنے اپنے اتالقیوں کے تعاون سے 2018ءکے انتخابات جیتے اب وہ غداری کے الزام کے تحت آئندہ انتخابات جیتنا چاہتے ہیں وہ چونکہ اس وقت اہم ترین اثاثہ ہیں اس لئے ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے جو انتظامات کئے جائیںگے مثال کے طور پر اپوزیشن نگران وزیراعظم کی تقرری کے عمل میںحصہ نہیںلے گی جس پر اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم لایاجائیگا ان کے احکامات پر الیکشن کمیشن ایسے آر او مقرر کرے گا جیسے کہ اس نے 2013ءکے انتخابات میںکئے تھے۔
عمران خان اسی دوران ایک زوردور انتخابی مہم چلائیںگے اور ان کا بیانیہ ہوگا امریکی ایجنٹ اور غدار ،فی الحال اپوزیشن کا جو حال ہے اس کے پاس اس بیانیہ کے مقابلے میںکوئی کارگر نسخہ نہیںہے جبکہ عمران خان کے مقابلہ کیلئے ایک قاتلانہ اور تیر بہدف بیانئے کی ضرورت ہے جے ڈبلیو پی کے سربراہ شاہ زین بگٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انتخابی عمل میںاپوزیشن کے تمام اہم امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیئے جائیں تاکہ عمران خان کو صاف میدان ملے۔
عین ممکن ہے کہ شاہ زین کی بات اس طرح درست ثابت ہوکہ جانچ پڑتال کے دن تحریک انصاف کے امیدوار یہ اعتراض اٹھائیں کہ مخالف امیدوار ملک دشمن اور غدار ہیں اور پیرازائیڈنگ آفیسر یہبات مان کر بیشتر اپوزیشن امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوگا کیونکہ عمران خان کو دوتہائی اکثریت دلوانے کے بغیر نہ تو1973ءکا آئین منسوخ ہوگا اور نہ ہی صدارتی نظام آئیگا ابھی تک یہ بھی معلوم نہیںکہ مستقبل کا نظام کیا ہوگا اگر عمرانخان کا بس چلے تو وہ اسلامی جمہوریہ کا نام ترک کردیںگے اور اس کی جگہ مملکت خداداد اسلامی مملکت کا نام رکھ دیںگے وہ اپنے لئے امیرالمومنین کا عہدہ اختیار کرلیںگے جس کی میعاد تاحیات ہوگی اگر صدارتی نظام آیا تو فرانس کی طرح اس کی مدت سات سال مقرر کردی جائیگی عمران خان اور ان کے پیروکاروں کو اپنے لیڈر کی پیرانہ سالی کااحساس نہیںہے ان کا خیال ہے کہ وہ نوجوان ہیں اور آئندہ20برس تک بطور سربراہ کام کریںگے عین ممکن ہے کہ وہ ترکی کے سابق آئین کی طرح اہم اداروں کا مستقبل اول بھی مقرر کردیں۔
یہ تو ہے کہ عمران خان اور ان کے اتالیقوںکا پلان اس کے مقابلہ کیلئے اپوزیشن کو کیا کرنا چاہئے یہ بات تو اپوزیشن لیڈر ہی جانتے ہونگے لیکن اپوزیشن الیکشن کی طرف گئی تو پی ڈی ایم کی جماعتون کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہئے وہ اکیلے عمران خان اور ان کے طاقتور اتحادیوں کا مقابلہ نہیںکرسکتے اگر اپوزیشن کی جماعتوں نے الگ الگ انتخابات میںجانے کا فیصلہ کیا تو ان کو بہت بری ناکامی کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ پیپلزپارٹی عمران خان اور ان کے اتحادیوں کا پہلا ہدف ہوگی خود عمران خان نے کہا ہے کہ زرداری ان کی بندوق کی نشست پرہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کیلئے باالعموم اور پیپلزپارٹی اور اے این پی کو موافق حالات نہیںملیںگے ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بہت بڑی خونریزی کی زد میںآجائیں اور ان کیلئے الیکشن لڑنا ممکن نہ ہو البتہ ن لیگ اور مولانا پورا زور لگائیںگے اور کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور حاصل کریںگے لیکن تمام جماعتیں جن میںتحریک لبیک ،راہ حق پارٹی ،جی ڈی اے ،ایم کیو ایم مل کر بھی ایک تہائی نشستوں سے زیادہ حاصل نہیںکرسکیںگی پیپلزپارٹی کیلئے بڑے رسک ہونگے لیکن زرداری اور بلاول کو ایک جارحانہ اور قاتلانہ جوابی بیانیہ بناناہوگا عمران خان کی ناکامیوں اورکرپشن کی غضب کہانیوں کو ثبوتوں کے ساتھ سلائیڈز پر دکھاناہوگا صرف چیخا چاخی سے کام نہیںچلے گا۔اس مقصد کیلئے انتہائی قابل اور زمین منصوبہ سازوں کا انتخاب کرنا ہوگا عمران خان اگر کسی مرحلے پر کمزور پڑجائیں تو ان کے اتحادی
نظریہ ضرورت کے علاوہ ہر طرح کی کمک فراہم کریںگے یادرکھنے کی بات ہے کہ جسٹس منیرکب کا گزرچکے لیکن ان کا نظریہ ضرورت ابھی تک زندہ ہے اپوزیشن کو طاقتور اتحادیوں کے ڈیتھ ٹریپ سے نکلنے کیلئے بہت ہی زور لگانا پڑے گا یہ بات ماننا پڑے گا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد دوبارہ عمران خان کی طرف لوٹ گئی ہے اور وہ جنگ اور محبت میںسب جائز ہے کے مطابق ہر حربہ آزمائیںگے جھوٹی کہانیاں اور افسانے گھڑیںگے تاکہ اپنے بڑوں کی تشنہ تمناﺅں پر پورے اتریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں