ریکوڈک معاہدہ اور وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے لوگ!

تحریر از جان محمد انصاری
ایک تندور والا تھا جو 5 روپے کی روٹی بیچتا تھا، اسے روٹی کی قیمت میں اضافہ کرنا تھا لیکن بادشاہ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کی قیمت میں اضافہ نہیں کرسکتا تھا۔ تو وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت مجھے روٹی 10 روپے کی کرنی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ 30 کی کر دو!، تندور والے نے کہا: بادشاہ سلامت اس سے شور مچے گا! بادشاہ نے کہا اس کی فکر نہ کرو میرے بادشاہ ہونے کا کیا فائدہ۔ تم اپنا منافع دیکھو اور روٹی 30 روپے کی کردو۔ اگلے دن اس نے روٹی کی قیمت 30 روپے کردی، شہر میں کہرام مچ گیا، لوگ بادشاہ کے پاس پہنچے اور شکایت کی کہ تندور والا ظلم کررہا ہے، 30 روپے کی روٹی بیچ رہا ہے، بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ میرے دربار میں تندوری والے کو پیش کرو،وہ جیسے ہی دربار میں پیش ہوا بادشاہ نے غصے سے کہا: تم نے مجھ سے پوچھے بغیر قیمت کیسے بڑھا دی؟ یہ رعایا میری ہے، لوگوں کو بھوکا مارنا چاہتے ہو؟ بادشاہ نے تندوری والے کو حکم دیا کہ تم کل سے آدھی قیمت پر روٹی بیچوگے ورنہ تمہارا سر قلم کردیا جائے گا، بادشاہ کا حکم سن کر عوام نے اونچی آواز میں کہا … بادشاہ سلامت زندہ باد!!!۔
اگلے دن سے 30 کے بجائے روٹی 15 میں بکنے لگی، عوام خوش، تندوری والا خوش، بادشاہ بھی خوش!
گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت بشمول بلوچستان کے صوبائی حکومت نے ببرک گولڈ نامی ایک آسٹریلین کمپنی سے ریکوڈک کی معاہدے پر دستخط کردی۔ جو بلوچستان سے ریکوڈک کے کانوں سے سونے اور تانبہ نکالے گا جس کے بعد بلوچستان کے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں اور باز سیاسی حلقوں کی جانب سے اس معاہدے کے بارے تحفظات ، احتجاج اور مسترد کرنے کے بیانات سامنے آئے۔ قدوس بزنجو کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ معاہدے کی کاپی کو منظر عام پر لائے تا کہ بلوچستان میں رہنے والے ہر فرد کو یہ معلوم ہوسکے کہ کن شرائط اور اصولوں کی روشنی میں یہ معاہدہ طے پایا ہے۔ جس پر آج تک قدوس حکومت نے خاموشی اختیار کی ہے۔ لیکن بلوچستان اسمبلی میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بہ یک وقت وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ایک طرف وہ ریکوڈک معاہدے پر بریفنگ کیلئے ان ہاﺅس اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں اور دوسری جانب اخباری بیانات کے ذریعے سے اپنی تحفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں، اس صورت میں بلوچستان کے عوام کے نزدیک موصوف جماعت مشکوک ہوتا نظر آرہا ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے آج ہی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس کا متن یہ ہے کہ معاہدے کی رو سے حکومت بلوچستان کو 25 فیصد کے بجائے 50 فیصد حصہ دیا جائے۔ اب پتہ نہیں کہ وہ واقعی بلوچستان کے عوام کی حقوق 50 فیصد کا مطالبہ کررہے ہیں یا پھر پہلے سے وہ بادشاہ اور تندور والے کی طرح معاملات طے کرچکے ہیں اور صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے یہ سب کررہے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت خود ہی بہتر ثابت کرے گا کہ کون وکٹ کے دنوں جانب کھیلنے کی کوشش کررہا تھا اور کون اصل معنوں میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ مخلص اور صوبے کی ساحل و سائل کے امین تھے۔