من کہ غمگین خان

تحریر: جمشید حسنی
مسئلہ ہے کہ ہم نہ تو دانشور نہ کسی شعبہ علم کے ماہر نہ قلمند نہ تعلیم یافتہ خود بھی پریشان آپ کو بھی اپنی لا حلمیت سے ہلکان کرتے ہیں۔
کل کی ایک خبر نے مزید پریشان کردیا۔سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 300ارب روپیہ کٹوتی ہوگی 37بڑے منصوبوں کو گزشتہ آٹھ ماہ سے ایک روپیہ نہیں ملا۔دوسری طرف عالمی داروں کی مخالفت کے باوجود 246روپیہ سیاسی بنیادوں پر سبسبڈی دی جائے گی احاساس کارد صحت کارڈ سبسڈی تو لوگ کھائی جاتے ہیں اس طرح تو غربت ختم نہیں ہوتی ترقیاتی منصوبے غیر و غوض کے بعدمنظم ہورہے ہیں لاگت نفع کا خیال رکھا جاتا ہے منصوبہ بندی کا باقاعدہ محکمہ ہوتا ہے محکمہ مالیات جانچ پڑتال کرتی ہے اس سے پائیدار ترقی ہوتی ہے مطلب یہ ہوتا ہیکہ ان سے عوام کی مستقلاً فائدہ ہوتا ہے قومی پیداوار زرعی خام مال کی کھپت ہوتی ہے۔کپڑے کے کارخانے میں ملکی کپاس کھپے گی صنعتی پیداوار سے قومی پیداوار بڑھتی ہے فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے سڑک بنتی ہے تو سفر کا وقت کم ہوتا ہے سہولت بڑھتی ہے ہسپتال بنتا ہے صحت بہتری ہوتی ہے سکول بنتا ہے تعلیم عام ہوتی ہے افرادی قوت بہترہوتی ہے۔
ہمارے ہاں تحقیق کم ہے اس کے برعکس امریکہ میں دوران تعلیم ایک ریلوے پھاٹک پر یسرچ ہوئی کہ روزانہ پھاٹک بندہونے سے کتنی دیر ٹریفک رکتی ہے کتنے لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے مجموعی طور پر کتنا قومی وقت ضائع ہوتا ہے معیشت پر کتنا منفی اثر پڑتا ہے پائیدار ترقی معیار زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں لوگوں کی صلاحیت اور استعداد کار بڑھتی ہے دنیا کی قوتوں کے پاس زمین اور افرادی قوت کم ہوتی ہے۔
کوریا،تائیوان،سنگا پور،ویت نام، لاؤس کمبوڈیاچھوٹے ملک ہیں مگر صنعتی طور پر ترقیاتی یافتہ افراد ی قوت تربیت یافتہ ہے۔ہم ڈائیو کی بس میں سفر کر کے خوش ہوتے ہیں ہمارے ملک میں بیس کروڑ آبادی ہے چالیس فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تعلیم ہنر نہیں۔کہتے ہیں قرضہ لو چھولے بیجو ہمارے پاس زراعت ہے دنیا کا بہترین نہری نظام ہے ہر طرح کے موسم ہیں سندھ پنجاب ساحل مکران کے علاقوں سے لے کر شمالی برف پوش سرد علاقے مشرقی وسطحی کے ممالک کے پاس زراعت نہیں۔
بات چلی تھی سبسڈی سے آپ ملکوں کو سبسڈی پر وقتی سیاسی مصلحت کے لئے نہیں چلا سکتے یہ امداد وقتی ہوتی ہے لوگوں کو روز گار چاہیے سر چھپانے گھر بچوں کی تعلیم چاہیے۔انفراسٹرکچر بنیادی ڈھانچہ کی بہتری ضروری ہوتی ہے تا کہ وسائل بڑھیں ضائع نہ ہوں۔آمدورفت کی سہولیات سسلتی آرم دہ ٹرانسپورٹ چاہتے انگریز کا نظام چھوڑ گیا ہم اس کو نہ سنبھال سکے۔پورے ملک میں زیر نظام ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں۔فرانس اور انگلینڈ نے سمندر کے نیچے زیر زمین سرنگ کھود کر سڑک بنائی۔اٹلی سوئٹزر لینڈ کے درمیان دنیا کی سب سے لمبی سات میل سرنگ ہے۔جنوبی کوریا اپنا پہلا۔۔سالہ ترقیاتی منصوبہ پاکستان سیلے گیا۔جاپان پر امرکہ نے دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بم گرایا۔یروشیما ناگا سا کی کے شہر باد ہوئے آج جاپان دنیا کا بڑی صنعتی ملک اور معیشت ہے۔جرمنی تقسیم ہوا جرمنی معاشی قوت ہے۔جاپانیوں نے نظم نسق میں ذی تھیوری متعارف کروائی کہ اگر آپ محنت نہیں کریں گے تو پھر تباہ کردیئے جاؤں گے قومیں سبسڈی کی خیرات سے نہیں بنتی قرآن فرماتا ہے انسان کے لئے وہی ہے جس کی وہ سعی کریں۔ایک پسماندہ عرب قوم نے روم اور ایران کو تاراج کیا۔آج 57ممالک مسلمانوں کے ہیں۔کاشتکار کو فائدہ دینا ہے تو زرعی اصلاحات کریں۔فیڈرل لینڈ کمیشن کے پاس زرعی اصلاحات ہیں لاکھوں ایکڑ ضبط شدہ زرعی اراضیات ہیں مگر وہ کسی جاگیر دار سے قبضہ نہ لے سکی۔آج بھی سندھمیں ہاری قرضوں کے عوض گروی ہوتے ہیں۔نظام تعلیم طبقاتی ہے۔دوسری طرف دہنی مدرستوں کا نظام ہے حکومت ان کی بہتری کے لئے کچھ نہ کرسکی مدرسے زکواۃ،عطیات پر چلتے ہیں۔جنرل مشرف نے مغرب کے ایجنڈ ہ پر این جی اوز کو تو اربوں روپے دیئے مدرسوں کی بہتری پر ایک روپیہ خرچ نہ ہوا جنوبی پنجاب کے غریب طلباء آج بھی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔دوسری طرف عملی زندگی میں مدرستوں میں پڑھتے طلباء کے لئے روز گار کے کوئی مواقع نہیں۔انہیں روایتی چند کتب پڑھائی جاتی ہیں مدرسوں کی اسناد روزگار کے لئے کم تسلیم کیاجاتا ہے۔
بات چلی تھی سبسڈی سے خلاصہ یہ ہے کہ معاشی ترقی اور روزگاری کے لئے سبسڈی سے کوئی مدد نہیں ملتی یہ ایک نشہ کی طرح معاشی فرار ہوتا ہے۔