گداگری یا کاروبار

تحریر، ابوبکر دانش بلوچ
مساجداور چوک چوراہوں پر لوگوں کی ایک ایسی تعداد جو اپنے چہروں پر معصومی سجائے دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتی ہے ، جن کی اکثریت مانگنے کو اپنا موروثی حق گردانتی ہے ، اس حق کی حفاظت کیلئے انہوں نے شرم و حیاء کو بالائے طاق رکھنا؛ خود کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا ؛ لوگوں سے دانٹ پھٹکار سننا فطرتِ ثانیہ بنا لیا ہیں، ان کا جسم توانا ہوگا ہاتھ پاؤں سلامت ہونگے مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑینگے ، خود کو بیمار اور اپاہج ظاہر کرکے مختلف تدبیروں سے دستِ سوال دراز کرنے کو اپنے موروثی مشن کی تکمیل کا سبب گردانتے ہیں ، اس کام کیلئے اپنی بیوی حتی کہ نابالغ بچوں کو بھی اپنی صف میں کھڑا کرکے ان معصوم ذہنوں کو بے حمیت و بے غیرت بنانے سے نہیں چوکتے ، بعض بھیک مانگنے والے بے شرم ہوکر کہتے ہیں کہ ‘ہم تو شاہ ہیں ،گداگری ہمارا آبائی پیشہ ہے’ لہذا ہمیں مانگنے سے نہ روکو۔ جبکہ شرعا بھیک مانگنے کا تعلق کسی خاندان، ذات، یا برادی سے قطعا نہیں ہے ، بلکہ اسلام کی اس سلسلہ میں واضح تعلیمات موجود ہیں ‘حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ نبی علیہ السلام نے ارشادفرمایا ، مال دار کے لیے صدقہ لینا جائز ہے ، اورنہ صحیح الاعضاء اورطاقتِ کسب رکھنے والے کے لیے۔(سنن ابوداؤد: ۱۶۳۴ ،سنن ترمذی:۶۵۲) نبی علیہ السلام نے ارشادفرمایا جس شخص نے اس حال میں سوال کیا جبکہ اس کے پاس اتنا مال موجود تھا ، جو اس کو دستِ سوال دراز کرنے سے مستغنی کرسکتا تھا وہ جہنم کے انگارے جمع کرتا ہے ، راوی نے استفسارکیا مال کی کتنی مقدار انسان کے پاس موجود ہوتو اس کو سوال سے گریز کرنا چاہیے؟ آپ نے وضاحت فرمائی جس کے پاس صبح اورشام (دو وقت)کا کھانا ہو، وہ سوال نہ کرے ایک اورروایت میں ہے، جس کے پاس اتنا کھانا ہو کہ وہ ایک دن اورایک رات سیر ہو کر کھاسکے وہ سوال نہ کرے۔(ابودائود:۱۶۲۹)
اس حدیث کے مطابق صرف دستِ سوال دراز کرنا اسی وقت جائز ہے جبکہ کسی شخص کے پاس اپنی یومیہ روزی بھی نہ ہو ، اگر صبح و شام کھاسکے اتنا سرمایہ موجود ہو تو مانگنا بروئے حدیث جائز نہیں ہے ، اس باب میں اور بھی کئی احادیث ہیں جنمیں نہ مانگے کی آخری حد کو بیان کیا گیا ہے کہ اسکی مقدار پچاس درہم ہے یا بعض احادیث کے مطابق چالیس درہم ہے۔ان سب میں علماء نے یہ تطبیق بیان کی ہے انسان اپنی ضرورت کے بقدر مانگ سکتا ہے لیکن یہ مانگنا بھی شرعی نقطۂ نظر سے محمود نہیں بلکہ اسے بھی کراہیت سے خالی نہیں سمجھا گیا ، اس لئے کہ جب ضروت مند شخص اپنی ضرورت کا سوال کسی شخص سے کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عزتِ نفس کو پر خطر محسوس کرتا ہے؛ جس سے بعض دفعہ مسئول عنہ کے دل میں سائل سے متعلق حقارت کا احساس ہوتا ، اسلام کسی بھی صورت میں کسی بھی فردِ بشر کی تذلیل و تحقیر کا قائل نہیں ہے، چاہے اس تذلیل و تحقیر کا تعلق اپنی ذات سے ہو ،یا مخاطب کی ذات سے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کیا ، لیکن سائل کی حوصلہ افزائی آپ نے کبھی نہیں کی ، حضرت انس بن مالک ؓفرماتے ہیں کہ ایک انصاری مرد نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دستِ سوال دراز کیا۔ آپؐ نے فرمایا ‘تمہارے گھر میں کچھ ہے ؟’ عرض کیا ایک کمبل ہے ۔ کچھ بچھالیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے،آپﷺ نے فرمایا ‘دونوں لے آؤ’ وہ شخص دونوں چیزیں لے آیا ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لی اور فرمایا ‘یہ دو چیزیں کون خریدے گا؟’ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں، آپؐ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ‘ایک درہم سے زائد کون لے گا؟’ ایک مرد نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں، آپ علیہ السلام نے اس صحابی کے ہاتھ وہ دونوں چیزیں بیچ کر دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا ایک درہم سے کھاناخرید کر گھر دو، اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا ‘جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ یوم تک میں تمہیں نہ دیکھوں'(یعنی کام کرنا اور میرے پاس نہ آنا) وہ لکڑیاں چیرتا رہا اور بیچتا رہا پھر وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے ۔ فرمایا ‘کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا’ پھر فرمایا کہ ‘خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرہ پر ہو، مانگنا درست نہیں سوائے اس کے جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو یا خون میں گرفتار ہو’آج امت کا بہت بڑا طبقہ اسی گداگری کے مرض سے جوج رہا ہے ، جسمیں خواہی نا خواہی سرمایہ دار ، مالدار، اور تاجر لوگ بھی برابر کے شریک ہیں ۔انہی لوگوں کے عطیات ، خیرات و صداقات ان سائلین کے ہاتھ میں جانے کی وجہ سے بجائے انکی حوصلہ شکنی کہ حوصلہ افزائی ہورہی ہے ،۲۰۱۱ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گداگروں کی تعداد دوسرے مذاھب کے مقابل ۲۵ فی صد ہیں، گویا ہر مانگ کر کھانے والا چوتھا شخص مسلمان ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ ان ۲۵ فی صد میں مسلمان مردوں کے مقابل میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ اسلام نے گداگری کی حد سے زیادہ حوصلہ شکنی کی ۔ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاھب میں گداگری سے متعلق یا تو کوئی مذھبی تعلیم نہیں ہے یا پھر بعض مذاھب میں کچھ خاص لوگوں کے لئے گداگری اور مانگ کرکھانے کی اجازت تھی، جیسے ہندوؤں کے یہاں برھمن کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ لوگ انہیں اپنا سرمایہ دیا کریں ، بدھشٹوں کے یہاں مذھبی رہنماؤں کو کسبِ معاش کی ممانعت ہے ، عیسائیوں کے یہاں جب رہبانیت عام ہوی تو ان راھبوں نے اور عوام میں زاھد قسم کے لوگوں نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ کسبِ معاش چھوڑکر لوگوں کے دئے ہوے پر ہی گذارا کریں، ہندوؤں، بدھشٹوں اور عیسائیوں کے یہاں گداگری کے رواج پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ انکا مذھب انہیں اسکی اجازت دیتا ہے ، جبکہ اسلام نے روزِ اول ہی سے کسبِ معاش لو ضروری قرار دیکر مال کو ‘فضلِ الہی’ سے تعبیر کیا۔آج مسلمانوں میں ان گداگروں کی حوصلہ افزائی اس حد تک پہونچ گئی ہے کہ مساجد کے دروازے پر کھڑے رہنے والے جہاں مسلم نام نہاد غرباء ہوتے ہیں وہی غیر مسلموں کے پیشہ ور فقیروں کی بھی ایک بڑی کھیپ ہوتی ہیں؛ جو اپنا حلیہ بدل کر مسلمانوں کے لباس میں اپنی تفریح و آسائش کے سامان کو بٹورتے ہیں ، چونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلم قوم کی اکثریت اپنی اسلامی تعلیمات کے برخلاف پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ افزائی کرنا باعثِ ثواب سمجھتی ہے ۔’گداگری کے سدباب کے لئے مثبت اور منفی اقدامات کی ضرورت ہے ، مثبت اقدام یہ ہے کہ ایسے بچوں کو تعلیم میں لگایا جائے ، بہت سے سرکاری وغیر سرکاری ادارے ہیں جہاں بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام ہے، انھیں ایسے اداروں میں پہنچایاجائے ، جو خواتین اور مرد کام کرنے کے لائق ہیں انھیں مزدوری پر لگایاجائے ، آج کل مزدوروں کی کھپت بہت زیادہ ہے ، اصل دشواری تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے لئے ہے اورگداگری کے پیشہ میں زیادہ تر ناخواندہ اور ان پڑھ لوگ ہیں ، انھیں محنت مزدوری پر آمادہ کیا جاسکتا ہے ، جو لوگ واقعی جسمانی اعتبار سے معذور ہوں ان کے لئے اقامت گاہیں قائم کی جائیں ، یا گورنمنٹ کی طرف سے بنے ہوئے رفاہی اداروں تک ان کو پہنچایا جائے ۔منفی اقدام سے مراد یہ ہے کہ گداگری کی حوصلہ شکنی کی جائے ، مسجدوں اور درگاہوں کے ذمہ داران انھیں وہاں بیٹھنے اور بھیک مانگنے سے روکیں ، مذہبی اجتماعات، جمعہ وعیدین کے مواقع پر بھی انھیں بھیک مانگنے سے منع کیاجائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ، ان کو بھیک نہیں دی جائے ، یہ بھیک مانگیں تو کام کرنے کی ترغیب دی جائے ، اس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور یہ باعزت طریقہ پر کمانے کے عادی ہوں گے بہت سے لوگ جمعہ وغیرہ میں کھلے پیسے لے کر آتے ہیں اور روپیہ دو روپیہ ہر فقیر کو دیتے چلے آتے ہیں ، بہ ظاہر یہ کارِ خیر ہے ؛ لیکن بالواسطہ یہ اپنی قوم کے ایک گروہ کو گداگری کا عادی بنانا ہے ، (ہندوستان کے پہلے وزیرِ داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل جو اپنے مذھبی نظریات میں حد سے زیادہ متعصب تھے انکے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ ‘ہندوؤں کے بچے اگر تمہارے پاس بھیک مانگنے آئیں تو انہیں چت لگاکر بھگادو، لیکن مسلم قوم کا بچہ آئیں تو انہیں ضرور اپنی پونجی دو تاکہ اسے یہ عادت لگ جائے، اس طرح مستقبل میں وہ قوم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ہی اپنا نصب العین سمجھنے لگے گی’ اس لئے اس سے اجتناب ہی قوم کے مفاد میں ہے ، معاشرے کو اس سے صاف کرنا از حد ضروری ہے’۔رسول اللہ کااسوہ ہمارے سامنے موجود ہے ، کہ ایک طرف آپ نے بھیک مانگنے والوں کو دینے سے انکارکر دیا اور دوسری طرف انھیں محنت و مزدوری کر کے اپنی ضروریات پوری کرنے کی ترغیب بھی دی اور اس کی تدبیر بھی فرمائی ، اگر ہم اپنی قوم کو اس لعنت سے بچاناچاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر یہ مزاج پیدا کرنا ہوگا کہ ہم کسی گداگر کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ صحیح مصرف میں صحیح جگہ پر خود سے تحقیق کرکے مستحقین تک اپنا مال پہونچانے کی کوشش کریں ، تاکہ امتِ مسلمہ سے یہ بدنما داغ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے

اپنا تبصرہ بھیجیں