عمران خان کا جنونی کلٹ

تحریر: انورساجدی
قطر سعودی عرب کے پہلو میں ایک چھوٹا ملک ہے آبادی بہت کم اور آمدنی بہت زیادہ ہے اس لئے کاغذوں پر فی کس آمدنی کے حوالے سے یہ دنیا کا خوشحال ترین ریاست ہے یہاں پر بادشاہت اور ترقی دونوں عروج پر ہیں آئندہ سال یہاں پر فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلے ہونگے دوحہ ایئرپورٹ کی توسیع کا کام تیزی سے جاری ہے گزشتہ پانچ سال میں دوحہ ایئرپورٹ آمدورفت کا بڑا حب بن گیا ہے اندر ٹرین چلتی ہے قطر کی خارجہ پالیسی علاقائی ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتاجب سعودی عرب نے اس کا ناطقہ بند کردیا تو اس نے ترکی سے فوجی تعاون طلب کرلیا ایک طرف اس کے تعلقات اسرائیل سے استوار ہیں تو دوسری جانب وہ یمن کی جنگ کا مخالف ہے ایران سے بھی اس کے تعلقات اچھے ہیں قطر نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کاکام انجام دیا جس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی انخلا ہوا اور طالبان کو کابل کا اقتدار ملا۔
قطر کوئی تاریخی ملک نہیں ہے وہ اپنی نئی تاریخ رقم کررہا ہے کاروباری حالات اتنے اچھے ہیں کہ دوحہ اپنی ترقی سے دوبئی اور یو اے ای کو ٹکر دے رہا ہے قطر کی ایک وجہ شہرت نوازشریف دور کے بدنام زمانہ احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کا وہاں مستقل قیام ہے وہ شاہی خاندان کے بہت قریب ہیں اور اس کا بزنس ایڈوائزرہے عمران خان کے دور میں جب نوازشریف بیماری کا بہانہ بناکر لندن گئے تو ایئر ایمبولینس کا انتظام سیف الرحمن نے کیا تھا اور جہاز قطری شاہی خاندان نے عنایت کیا تھا۔
قطر نے مختصرعرصہ میں دو عظیم ادارے بنائے ہیں ایک الجزیرہ ٹی وی ہے جس کا عرب دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں ہے یہ قطری امیر کی ملکیت ہے اور یہ 10 ارب ڈالر کے ابتدائی سرمایہ سے شروع کیاگیا تھا جبکہ اس وقت اس کی مالیت ایک سو ارب ڈالر سے زائد ہے دوسرا ادارہ قطری ایئرویز ہے جو رینکنگ میں دنیا کی نمبر ایک فضائی کمپنی ہے اس نے یہ اعزاز امارات ایئر لائنز سے چھینا ہے قطری ایئر ویزدنیا کی دس چھوٹی کمپنیوں کو آپریٹ بھی کرتی ہے۔
قطر ایئر ویز کی فلائٹ جو لندن سے دوحہ اور کراچی چلتی ہے لگتا نہیں کہ یہ کسی مسلمان ملک کی ملکیت ہے کیونکہ اس کی پرواز کے دوران رمضان شریف نظر نہیں آیا مشروبات کی آزادانہ فراہمی جاری تھی حالانکہ قطرمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے یا پاکستان سے زیادہ قریب ہے لیکن ریاست مدینہ کا نعرہ پاکستانی لیڈر عمران خان لگاتے ہیں خود سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک یہ نعرہ نہیں لگاتے بلکہ وہ ترقی کے نئے دور اور دوڑ میں شامل ہیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی ہی عالم اسلام کے وارث اور شرعی نظام کے سب سے بڑے علمبردار ہیں ضیاؤالحق کے دور سے ابتک جو نظام چلا آرہا ہے اس نے پاکستان کو نہ صرف پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے بلکہ عالمی برادری میں اس کی بے توقیری قابل افسوس ہے۔
پاکستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ طے نہ ہونا ہے کہ یہ ریاست ہے کیا کوئی جمہوری ملک ہے اسلامی ملک ہے یا یہاں کا نظام آمرانہ ہے اگر جمہوری ملک ہے تو یہاں پر مغربی جمہوریت نظر نہیں آتی اگر آمرانہ ملک ہے تو آمریت بھی صحیح معنوں میں نافذ نہیں ہے آئین ہے لیکن آئین شکنی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے سیاسی ادارے کمزور اور سیاسی رہنما کٹھ پتلی کا کرداد ادا کررہے ہیں پی ڈی ایم نے جیسے کہ میں پہلے لکھ چکا تھا اقتدار میں آکر عمران خان کی ساری ناکامیوں کو اپنے ذمہ لے لیا ہے اور عمران خان عوامی سطح پر پہلے سے زیادہ مقبول بن کر ابھرے ہیں اس لئے اسلام آباد میں غور کیا جارہا ہے کہ ان کی عوامی طاقت کا مقابلہ کیسے کیا جائے تحریک انصاف کے مخالف سیاستدان اور ادارے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ فارن فنڈنگ کے کیس کا فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف کا وجود مٹ جائے گا جیسے کہ 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد اس کا وجود مٹ گیا تھا یہ ایک تدبیرہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کا نتیجہ مخالفین کی خواہش کے مطابق نکلے اگر تحریک انصاف پر پابندی لگی تو عمران خان ایک نئی جماعت بناکر میدان میں اتریں گے اگر انہیں تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ جارحانہ سرگرمیوں کے ذریعے اسے اپنی طاقت بناکر دکھائیں گے۔
پی ڈی ایم کے رہنما پہلے کہتے تھے کہ عمران خان کے جانے کے بعد فوری انتخابات ہونے چاہئیں لیکن اب شہباز شریف کو لطف آرہا ہے اور وہ کرسی سے چمٹ کر سوا سال کی باقی مدت بطور وزیراعظم گزارنا چاہتے ہیں نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معیشت کو کیسے چلائے گی کیونکہ خزانہ خالی ہے ادائیگیوں کا توازن بگڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگا اگر سعودی عرب نے مالی مدد نہیں کی تو حکومت کو لینے کے دینے پڑیں گے عمران خان اس حکومت کو چلنے نہیں دیں گے مبصرین قیاس آرائی کررہے ہیں کہ لاہور کے جلسہ کے بعد عمران خان اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اوردھرنے کا اعلان بن کرسکتے ہیں چنانچہ اداروں کو ان کے پر کاٹنے پڑیں گے کیونکہ عمران خان نے امپورٹڈ حکومت کا ٹرینڈ چلاکر اور امریکہ مخالف بیانیہ دے کر عوام کو اپنے پیچھے لگالیا ہے۔
امریکہ مخالفت پاکستانی عوام کا پسندیدہ بیانیہ ہے ضیاؤالحق جو کہ امریکی تعاون سے مارشل لاء لگا کر آئے تھے انہوں نے راولپنڈی میں سائیکل چلانے کے ڈرامہ کے موقع پر کہا تھا کہ جن لوگوں نے خانہ کعبہ پر قبضہ کیا ہے وہ امریکی سازش ہے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں نے امریکی سفارتخانہ پر حملہ کردیا تھا اور بڑی مشکل سے حالات کو کنٹرول میں لایا گیا تھا اگرچہ عمران خان ضیاؤالحق نہیں لیکن ایک لحاظ سے ان سے بدترہیں وہ ایوب خان،ضیاؤالحق اور مشرف کے فرسودہ اور آمرانہ نظریات کو جوڑ کر ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں بادی النظر میں پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کی اقتدار کیلئے یہ جنگ چھوٹے صوبوں کیلئے سود مند ثابت ہوگی۔
لیکن ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ حکومتیں آئیں یا جائیں حکومت ن لیگ کی ہو تحریک انصاف کی ہو یا پیپلز پارٹی کی بلوچستان کے بارے میں ان کی پالیسی ایک رہتی ہے بلوچستان میں جینے کا حق کوئی بھی دینے کو تیار نہیں یہاں پر لوگوں کو اسی طرح قتل کیا جاتا ہے جیسے یہ جانور ہوں چاغی کا حالیہ واقعہ اس کا ثبوت ہے اس طرح کے مظالم تو اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھتا کوئی بھی تبدیلی آئے بلوچستان میں خون بہتا رہے گا ریکوڈک سندک اور گوادر بکتے رہیں گے بلوچستان کے سیاسی رہنما سابقہ اور لاحقہ کی طرح نام نہاد قومی جماعتوں کا ساتھ دیتے رہیں گے کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے عمران خان نے بڑے بلندو بانگ دعوے کئے تھے لیکن ان کے دور میں بھی لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوسکے اور نہ ہی زندگی چھیننے کا سلسلہ بند ہوسکا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
عمران خان اس وقت ایک کلٹ لیڈر کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں ان کے پیروکار انہیں ولی قطب اور اوتار ماننے لگے ہیں اور ان کے ہر عمل اور ہر لفظ کو حرف آخر سمجھتے ہیں بھٹو کے بعد عمران خان دوسرے کلٹ لیڈر بن اہل یوتھ عمران خان کو سیاسی اوتارمہاتما اور پیامبر تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ انہوں نے گالیوں اور بدکلامی کے ایک بدترین کلچر کو جنم دیا ہے جب تک عمران خان سیاست میں ہیں یہ کلچر پروان چڑھتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں