صاحب کردار

تحریر: انورساجدی
خوب تماشہ ہے عوام کو تفریح طبع کا سامان وافر مقدار میں میسر آرہا ہے وفاقی کابینہ بن گئی ہے لیکن مکمل نہیں ہے کیونکہ چاغی کے دلخراش واقعہ کو لیکر سردار اخترمینگل نے شمولیت سے انکار کردیا ہے وزیراعظم نے سانحہ کی تحقیقات کی یقین دہانی کروائی ہے جس کے بعد تھوڑا سا دلاسہ پاکر بی این پی شمولیت کرسکتی ہے اگرتحقیقات بھی ہوئی تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ یہ پاکستان کی روایت ہے کہ بڑے سے بڑے واقعہ کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنادیا جاتا ہے پھر وقت گزرنے کے ساتھ کمیشن اپنی رپورٹ سمیت داخل دفتر ہوجاتا ہے لاپتہ افراد کے کمیشن کا حال دیکھئے سب سمجھ میں آجائیگا ٹی وی اینکروں نے اخترجان مینگل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جس بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں ان کیلئے مناسب ہوگا کہ وہ حکومتوں میں شامل نہ ہوں غالباً یہ اینکر جانتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری انسانی المیہ مستقبل میں زیادہ شدت پکڑے گا اس لئے اگر بی این پی آج کابینہ میں شامل ہوئی تو اسے کل نکلنا پڑے گا اس سے بہتر ہے کہ یہ جماعت کابینہ سے دور رہے بلکہ حکومت سازی میں بھی حصہ نہ لے حکومت سازی کو لیکر اخترمینگل دو طرح کے دباؤ کا شکار ہیں اگر وہ سانحہ چاغی جیسے واقعات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں تو انہیں اندرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اگر وہ شور مچاتے ہیں تو انہیں وفاقی اداروں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا سنا ہے کہ محسن داوڑ کو اس لئے کابینہ سے ڈراپ کیا گیا کہ انہوں نے اپنے علاقہ کے بارے میں ایک زور دار تقریر کی تھی گویا بلوچستان اور فاٹا مفتوحہ اورممنوع علاقے ہیں وہاں پر جو جبر اور زیادتیاں ہوتی ہیں ان کے بارے میں آواز اٹھانا جرم ہے پارلیمانی رہنماؤں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ علاقے وفاقی حکومت کے دسترس سے باہر ہیں ان کے بارے میں فیصلہ سازی کا اسے اختیار نہیں ہے اس کے باوجود وہ ہر نئی حکومت کے ساتھ یہ توقع باندھتے ہیں کہ وہ ضرور ان کے مسائل حل کرے گی کافی عرصہ پہلے تک یہ خیال تھا کہ بلوچستان کی مرکز گریز جماعتوں کوناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے لیکن ثابت ہوا کہ میانہ رد پارلیمانی جماعتوں کے کام کرنے کی گنجائش بھی ختم کردی گئی ہے اس سلسلے میں بی این پی ایک زندہ مثال ہے اس جماعت نے ہمیشہ انتخابات میں حصہ لیا پاکستان کی پارلیمان میں پہنچ کر ریاست سے وفاداری کا حلف بھی اٹھایا اس کے باوجود اسے مشکوک نظروں سے دیکھاجاتا ہے غالباً وفاقی ادارے یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایسی جماعتیں کام کریں جن کی بنیاد انہوں نے ڈالی ہے باقی لوگ سیاست سے پارلیمان سے اور عوامی مسائل سے دور رہیں۔
پیپلزپارٹی کو ہی لیجئے یہ وفاقی کا نعرہ لگاتی ہے یہ نعرہ لگاتے ہوئے یہ اپنا بانی چیئرمین کھوچکی ہے یہ اپنے طویل دورانیہ کی عالمی قدو قامت کی لیڈر بینظیرسے محروم ہوگئی ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں نرینہ اولاد قتل ہوچکی ہے اس نے تمام تر مصائب ومشکلات کے باوجود ریاست کی وحدت کو سربلند رکھا لیکن اس کے باوجود اس جماعت کی وفاقیت اور حب الوطنی پر شک کا اظہار کیا جاتا ہے حال ہی میں شریف خاندان کو مسند اقتدار پر بٹھانے کا کریڈیٹ آصف علی زرداری کو جاتا ہے لیکن مسلم لیگ یہ احسان ماننے کو تیار نہیں ہے اس جماعت اس بات سے انکاری ہے کہ آصف علی زرداری کو صدارت کے عہدہ پر فائز کردیا جائے کیونکہ مقتدرہ حلقے اس کے حق میں نہیں ہیں اس کے باوجود کہ عمران خان کو نکالنے کیلئے زرداری کا بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا تحریک انصاف کے باغی اراکین کو توڑنے کا کام زرداری نے کیا اے این پی آزاد اراکین باپ بی این پی اور دیگرجماعتوں کو عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت پر آمادہ زرداری نے کیا اور ضمانت دی کہ نئی حکومت میں انہیں اچھی نمائندگی دی جائے گی لیکن ن لیگ کی حکومت قائم ہوتے ہی زرداری کی ضمانت ضبط کرلی گئی یہی حالات تھے کہ میں نے پیپلزپارٹی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بے شک نئی حکومت کی حمایت کرے لیکن کابینہ میں شمولیت سے دور رہے اسے اسپیکر کا عہدہ مل گیا تھا یہی کافی تھا اسی طرح بلاول کو اس کابینہ سے دوررکھنا چاہئے تھا کتنی بے عزتی کی بات ہے کہ اپنی بات منوانے کیلئے بلاول کولندن جاکر بڑے میاں کی قدم بوسی کرنا پڑرہی ہے۔شروع میں شہبازشریف کہتے تھے کہ وہ خود مختار ہیں اور تمام اتحادیوں کا مکمل خیال رکھا جائیگا لیکن اب وہ بہانہ بازی پر اترآئے ہیں جو کام نہ کرنا ہو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کافیصلہ تو بڑے میاں صاحب کریں گے حالانکہ نوازشریف سے کہہ دیا گیا ہے کہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود ن لیگ کی حکومت بننے دی گئی ہے لہٰذا وہ اس حکومت سے دور رہیں لندن میں لو پروفائل زندگی گزاریں اور مجرم ہونے کے ناطہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ کے حصول کی کوششیں ترک کردیں لیکن وہ باز نہیں آرہے ہیں وہ اپنے بھائی کے ہر فیصلہ پر اثر انداز ہورہے ہیں حال ہی میں ایک بڑی شخصیت کی آڈیو لیک ہوئی جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ عمران خان ناقابل برداشت ہوگئے تھے اس لئے انکو ہٹانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ایک غیرمعمولی تقریب کے شرکاء کوبتایا گیا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو کوئی تجربہ نہیں تھا انہوں نے بچے کی طرح وزیراعظم کی انگلی پکڑ کر انہیں چلایاجہاں جہاں امداد لینی تھی وہ خود ان کے ساتھ گئے لیکن اس کے باوجود وہ فیل ہوگئے انہوں نے اعتراف کیا کہ جب2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو ان کی مقبولیت صرف7فیصد تھی جو حکومت سے نکلنے کے بعد27 فیصد ہوگئی ہے چونکہ عمران خان کا اور متبادل نہیں تھا اس لئے شہبازشریف کا انتخاب کیا گیا حالانکہ جس دن وہ وزیراعظم بن گیئے اسی دن منی لانڈرنگ کے الزام میں ان پر فردجرم عائد ہونے والی تھی عمران خان کا پکاارادہ تھا کہ انہیں گرفتار کرکے اٹک جیل بھیجاجائے لیکن ان کی اپنی حکومت کا عین اسی دن خاتمہ ہوگیا اور یوں شہبازشریف مقصودچپڑاسی سے آنے والے 16ارب روپے کے الزام سے بچ گئے اب تو ایف آئی اے ان کے ہاتھ کے نیچے ہیں آئی بی کا سربراہ بھی انہی کا بندہ ہے اور کچھ ہو نہ ہو وہ اپنے خلاف سارے ثبوت ادھر ادھر کردیں گے بلکہ عمران خان اور ساتھیوں کیخلاف کرپشن کے لاتعداد مقدمات بنوالیں گے تاکہ ان کے وزیر اور مشیر سلطانی گواہ بن کر عمران خان کے کرپشن کے ثبوت فراہم کردیں لیکن ہوگا کچھ نہیں اگر شہبازشریف بچ سکتے ہیں و عمران خان بھی بچ جائیں گے کیونکہ اس ریاست میں انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر شور مچاہوا ہے کہ عدلیہ سیاسی مقدمات کی بجائے اگرعام مقدمات کی سماعت رات12بجے تک کرے تو لاکھوں مقدمات کا جلد فیصلہ ہوجائیگا او رلاکھوں لوگوں کی داد رسی ہوجائے گی بے شک جج صاحبان اپنی تنخواہ اور مراعات جتنی سہولتیں اضافی لے لیں یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا جہاں تک ن لیگی حکومت کیخلاف عمران خان کی طوفانی مہم کاتعلق ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عمران خان کو لیکر ادارے بھی تقسیم کا شکار ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ کسی لیڈر کے مسئلہ پر یہ تقسیم وقوع پذیر ہوگئی ہے اداروں کی تقسیم سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر کافی معاملات پر اختلاف رائے ہے اس لئے یہ توقع کرنا کہ شہبازشریف ملک اور معیشت کوچلانے میں کامیابی حاصل کرلیں گے محض خام خیالی ہے کیونکہ بظاہر خزانہ خالی ہے اور اتنی غیر ملکی امداد آنے کی توقع نہیں ہے کہ خسارہ کم ہوجائے عمران حکومت جاتے جاتے خزانہ پر ہاتھ صاف کرگئی تھی اور اس نے زرمبادلہ کے ذخائر کے بارے میں جھوٹ بولا تھا اپوزیشن کے دباؤ پر اس نے تیل اور دیگرمصنوعات پر ناقابل برداشت سبسڈی دی تھی جسے نئی حکومت واپس لینے والی ہے جس کا شور مچاکر عمران خان سیاسی فائدہ اٹھائیں گے لیکن تحریک انصاف کی روح فارن فنڈنگ کیس میں بندہے اور یہ جماعت کوشش کررہی ہے کہ چند ماہ تک یہ مسئلہ ٹل جائے ورنہ یہ جماعت خلاف قانون ہوکر اپنا وجود کھوبیٹھے گی لیکن یہ معلوم نہیں کہ بڑے کیا چاہتے ہیں اگر عمران خان نے ان کیخلاف مہم بند نہ کی تو ان کی جماعت پر قانون کا جان لیوا حملہ ضرور ہوگا کیونکہ اس کے بغیر وہ سیاسی منظر سے غائب نہیں ہوسکتے انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر عمران خان آئندہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ انہیں وزیراعظم تسلیم کرلیں گے لیکن انہیں امریکہ کیخلاف بچوں والی مہم اور دیگر بچکانہ حرکتیں ترک کرنا ہونگی
نئے وزیراعظم شہبازشریف اپنی نئی نویلی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے بھاشن دے رہے تھے کہ آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے اشعار کا موقع وبحل کے برخلاف استعمال کوئی سیکھے تو شہبازشریف سے سیکھے یہ تو قیامت کی نشانی ہے کہ شہبازشریف صاحب کردار ہونے کی تلقین کررہے ہیں ماضی میں وہ حبیب جالب مرحوم کے اشعار پڑھتے ہوئے مائک توڑتے تھے اور لوگوں کو اچھی تفریح فراہم کرتے تھے جب شہبازشریف جالب کی روح کو تکلیف پہنچاتے تھے تو اس وقت بھی وہ ارب پتی تھے جبکہ جالب غریب عوام کے نمائندہ شاعر تھے
ادھر عمران خان نے شہبازشریف کو کرائم منسٹر کا خطاب دیا ہے فوادچوہدری نے کہاہے کہ آدھی کابینہ ضمانتوں پر ہے جبکہ جلد تحریک انصاف کے وزیربھی ضمانتوں کیلئے عدالتوں کا چکر لگاتے نظر آئیں گے۔ بہرحال صورتحال جوبھی ہو پاکستانی سیاسی وغیرسیاسی اکابرین نے ثابت کیا ہے کہ دور جدید میں ”بنانا“ ریاست کا کیا ہوتی ہے اور ملک بے آئین کیا ہوتا ہے انہوں نے اپنی حرکتوں اور کرتوتوں سے 25کروڑ عوام کو زندہ درگور کردیا ہے اتنی ناسمجھ نااہل اور مطلب پرست اکابرین شائد دنیا کی کسی اور ریاست میں ہوں انہوں نے اپنے وطن کو مذاق بناکر رکھ دیاہے۔