میڈیا اور بوتل کا جن

تحریر: انورساجدی
عمران خان جان گئے تھے یا بھانپ گئے تھے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے چنانچہ انہوں نے متعدد ٹیمیں بنائیں جو24گھنٹہ عمران خان کی سحر انگیز اور کرشماتی شخصیت کی تعریف وتوصیف اور حکومت کے ایسے کارنامے بیان کرتے تھے جو اس نے کئے نہیں تھے حکومت میں آنے کے بعد مرکزی سرکار نے سوشل میڈیا کے اپنے نیٹ ورکس کیلئے بھاری فنڈز مختص کئے اور چند ایک ٹی وی چینلز کی سرپرستی بھی کی جوعمومی طور پر حکومت کا گن گاتے تھے کم از کم ایک سے زائد چینلوں کو ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے کی چھوٹ بھی دی گئی صرف ایک چینل کو ایک ارب روپے کا ریلیف دیا گیا۔
سوشل میڈیا کے عروج کے دور میں جبکہ پرنٹ میڈیا بوجوہ جان بلب تھا تحریک انصاف کی حکومت نے اس کا مزید گلا گھونٹنے کا فیصلہ کیا اگرچہ چینلوں کو کنٹرول کیلئے پمرا کا قانون تھا لیکن پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے مرکزی حکومت نے براہ راست مداخلت کی18ویں ترمیم کے باوجود اے بی سی کو سخت کردیا گیا جبکہ رجسٹریشن کے ضوابط کو بھی جان بوجھ کر مشکل بنادیا گیا پرنٹ میڈیا کیلئے اشتہاروں کی مقداراورتعداد کم کردی گئی علاقائی اخبارات کیلئے مختص25فیصد کوٹہ ختم کردیا گیا اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ اشتہارات کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا انصاف کے دعوؤں کے باوجود مرکزی ادارے میں اشتہارات اسٹیٹ بینک کے ٹی بلز کی طرح نیلام ہوتے تھے ایک بڑے مافیا کی سرپرستی کی گئی جوروزانہ بولی لگاتا تھا اس طرح کی صورتحال اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی اشتہارات کا80فیصد حصہ بڑے گروپوں یعنی کارپوریٹ اخبارات کیلئے مختص کردیا گیا جبکہ درمیانی درجہ اور علاقائی اخبارات کو صرف20فیصد اشتہارات وہ بھی بھاری کمیشن کے عرض جاری کئے جاتے تھے تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے وزیراطلاعات فواد چوہدری علی الاعلان کہتے تھے کہ ان کی حکومت کے دور میں پرنٹ میڈیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک سوشل میڈیا زیادہ موثر میڈیم ہے اور شروع کے دور میں تحریک انصاف اس شعبہ پر چھائی ہوئی تھی تین سال قبل صدر عارف علوی نے سی پی این ای کی ایک تقریب میں انکشاف کیا تھا کہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کی تشکیل انہوں نے کی تھی اور ان کے سارے بچے ٹیم کا حصہ تھے تاہم بعدازاں حکومت مضبوط ہونے کے بعد عارف علوی ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے اب جاکر یہ پتہ چلا ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کمپیئن چلانے پر کم از کم ایک ارب روپے سالانہ خرچ کرتی تھی تمام تر کوششوں کے باوجود پرنٹ میڈیا ابھی تک زندہ ہے۔گوکہ پاکستان میں اس کی صورتحال اچھی نہیں ہے لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پرنٹ میڈیا زیادہ طاقت کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہے دوسال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے خوشحال پرنٹ میڈیا بھارت کا ہے کیونکہ وہ دنیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے کئی برس سے اس کی سالانہ شرح نمو8فیصد سے زائد ہے وہاں پر بے شمار سرمایہ کاری آرہی ہے جس کی وجہ سے اشتہارات کی بہتات ہے اور اس کا بڑا حصہ پرنٹ میڈیا کو چلا جاتا ہے بھارت کی یہ پالیسی ہے کہ ترقیات سے متعلق ٹینڈرز نوٹس علاقائی اخبارات کو جاری کئے جاتے ہیں اور ڈسپلے کے اشتہارات بڑے اخبارات کو دیئے جاتے ہیں اس کے برعکس پاکستان میں کوئی پالیسی نہیں ہے ہر حکومت ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر پالیسی بناتی ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر چاپلوسی اورمدح سرائی کی بنیاد پر من پسند اخبارات کو نوازتی ہے اس سلسلے میں صرف مرکزی حکومت نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کا بھی براحال ہے۔محکمہ اطلاعات کے تمام دفاتر میں یکساں پالیسی نظرآتی ہے اس سلسلے میں سب سے براحال سندھ اور بلوچستان کا ہے بلوچستان کا بجٹ کھربوں تک پہنچنے کے باوجود اشتہارات کی تعداد اورمالیت وہی ہے جو گزشتہ دہائیوں میں تھی جب شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے بہت بہترپالیسی بنائی تھی اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ادائیگیوں کو یقینی بنایا تھا اب جبکہ شہبازشریف وزیراعظم بن چکے ہیں تو دیکھنا ہے کہ وہ پنجاب والی پالیسی مرکز میں بھی اپناتے ہیں کہ نہیں۔
پاکستان میں پرنٹ میڈیا کو ناقابل بیان مسائل کا سامنا ہے مثال کے طور پر یوکرین پر روس کے حملہ کے بعد اور ڈالر کی بلند شرح کی وجہ سے نیوز پرنٹ ناپید ہوگیا ہے بیشتر اخبارات بلیک مارکیٹ سے کاغذ خریدنے پر مجبور ہیں جس کا ریٹ280روپے فی کلو یا دو لاکھ80ہزار فی ٹن پہنچ چکا ہے اگر روس نے کاغذ کی فراہمی شروع نہیں کی تو اکثر علاقائی اخبارات کاخاتمہ ہوجائیگا 2018ء کے بعد اخباروں کی لاگت میں کم از کم 6گنااضافہ ہوچکا ہے اوپر سے سرکولیشن کو بہت نقصان پہنچا ہے جو آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا اخبارات کو ٹیکنالوجی میں ترقی اور جدید ذرائع کی کمی کا بھی سامنا ہے ترقی یافتہ ممالک کے اخبارات بنیادی تبدیلیاں لے آئے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے عام خبروں کو نظرانداز کرنا شروع کردیا ہے جبکہ ان کا زور تجزیوں اورتحقیق پر بنی رپورٹوں کی اشاعت پر ہے اس سلسلے میں پہل نیویارک ٹائمز کی ہے وہ اپنے سرورق پر روز مرہ کی خبروں کی اشاعت نہیں کرتا جبکہ اس کی تحقیقاتی خبروں کو اگلے دن تمام سوشل نیٹ ورکس اور خبررساں ایجنسیاں جاری کرتی ہیں اس سلسلے میں پاکستانی اخبارات کو بھی اپنا پیٹرن تبدیل کرنا ہوگا لیکن عظیم ٹیکنالوجی تبدیلیوں کے باوجود پاکستانی اخبارات لکیر کے فقیر ہیں تمام اخبارات کے سرورق ایک جیسے ہیں 90فیصد خبریں اور سرخیاں یکساں ہیں تمام خبریں باسی اور گزشتہ روز کی ہوتی ہیں اگر ایک اخبار لیاجائے تو دوسرے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے پابندیوں اورسیلف سنسر کی وجہ سے تمام اخبارات تحقیقاتی اور اچھی خبریں شائع کرنے سے قاصر ہیں تحریک انصاف کی حکومت نے جہاں مالی اعتبار سے اخبارات کا گلاگھونٹا تو وہاں اچھی خبروں کی اشاعت روک کر اس کے تابوت میں آخری کیل ٹونکی۔
ایک مرتبہ فوادچوہدری کہہ رہے تھے کہ اخبارات اپنا ماڈل آف بزنس تبدیل کردیں اور حکومت پر انحصار نہ کریں اس پر ہم نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے لیکن حکومت بھی ایک کام کرے وہ اخبارات کو آزاد چھوڑدے اپنی خبریں اور تصاویر جاری کرنا بند کردے اشتہارات کااجرأ بھی نہ کرے لیکن جو اسکینڈل آئیں گے اس پر صبروتحمل سے کام لے لیکن حکومت کسی بات پر راضی نہ ہوئی یہی سبب ہے کہ پریس سے حکومت کے تعلقات شدید طور پر متاثر ہوئے عمران خان نے خود دشمنی مول لیکر کہا کہ پریس اس کا دشمن ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا حامی ہے حالانکہ2014ء کے دھرنے کو جس طرح کوریج دی گئی تھی اس سے پہلے اس کی مثال موجود نہیں تھی فوادچوہدری اگرچہ اپنے دوسرے اورآخری دور میں نرم پڑگئے تھے اور یہ کہا تھا کہ مادر پدر سوشل میڈیا نے ہماراناطقہ بند کردیا ہے اس نے افواہوں اور دشنام طرازی کابازار گرم کردیا ہے اس کے برعکس پرنٹ میڈیا بہت ذمہ دار اور افواہوں سے دور ہے لیکن ان کے نائب فرخ حبیب لائلپوری تھے وہ ہر وقت آتشی زبان استعمال کرتے تھے اور آزاد میڈیا کو کاٹنے کو دوڑتے تھے اخباری اداروں کو یہ توقع ہوچلی ہے کہ نئی حکومت معقولیت اور انصاف کا راستہ اختیار کرے گی سابقہ حکومت نے پریس انفارمیشن اور اطلاعات کے اداروں کو بلڈوز کردیا ہے ان کی تعمیر نو کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی پرنٹ میڈیا کو نئے دور کے جدید اطوار اپنانے پڑیں گے۔
حال ہی میں ایک انگریز مدیر نے بڑی دوراندیش بات کی ان کا کہنا تھا کہ مین اسٹریم میڈیا کیلئے وسعت کی گنجائش کم ہے البتہ ریجنل پریس کیلئے گنجائش بہت زیادہ ہے لیکن انگریز مدیر کومعلوم نہیں تھا کہ ریجنل میڈیا کس طرح قہرآلود پابندیوں اور بے جاسنسرشپ کاشکار ہے اگر وہ آزاد ہو اور اپنے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرے تو بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے ایک بڑا مسئلہ افرادی قوت کا ہے شروع میں جب دھڑا دھڑ چینل کھل گئے تھے تو وہ پرنٹ میڈیا کا سارا تربیت یافتہ عملہ لے گئے تھے کیونکہ وہ زیادہ اجرت دیتے تھے تاہم جب چینلوں کی پھوں پھاں ختم ہوئی تو انہوں نے اپنا اکثر عملہ فارغ کردیا لیکن وہ پرنٹ میڈیا کی بجائے دیگر کاموں میں لگ گئے بہرحال مجبوریاں جو بھی ہوں حالت زار ابتر کیوں نہ ہو اخبارات کو اپنا موجودہ طرز اشاعت اور خبروں کی پیشکش کا انداز تبدیل کرنا پڑے گا اس مقصد کیلئے نئے دور کی جدید ٹیکنالوجی کے حامل افرادی قوت کی ضرورت ہے جو ہنوز ناپید ہے اس مقصد کیلئے سی پی این کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا جبکہ اے پی این ایس بوجوہ غیر موثرہوچکا ہے سی پی این ای کو نئے صحافیوں کی تربیت کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ نئے دور کے تقاضوں سے عہدہ براہواجاسکے۔
موجودہ حکومت کو عمران خان کے حشر سے سبق سیکھنا چاہئے گوکہ وہ تمام پارٹیوں اور لیڈروں کے مقابلے میں کافی مقبول ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کس حد تک برقراررکھ سکیں گے۔اگر جلد الیکشن ہوئے تو انہیں زیادہ کامیابی حاصل کرنے سے روکنا بہت مشکل ہوگا تاہم ایک سال کے بعد الیکشن ہوئے تو عمران خان کی مقبولیت اپنے اصل مقام پر آجائے گی۔
لاہور کے جلسہ میں انہوں نے بہ یک وقت امریکہ مقتدرہ اور مخالف رہنماؤں کو کھلا چیلنج دیا حالانکہ ان کا جلسہ بہت بڑا تھا لیکن2011ء جتنا بڑا نہیں تھا ان کے پیروکاروں کا جوش اور ولولہ بڑھتا جارہا ہے جوں جوں کپتان پر جنوں طاری ہوتا رہے گا اس جوش میں اضافہ ہوگا لیکن آہستہ آہستہ وہ آسمان سے زمین کی طرف آئیں گے ان کا جنونی کلٹ اگرچہ آگ اگلتا رہے گا لیکن تادیر وہ ثابت قدم نہیں رہ سکتا عمران خان کی مقبولیت کوروکنے کیلئے حکومتی جماعتوں کو مل کر چلنا ہوگا اور اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی حکومت کو عمران کی مالی کمزوریوں کو ثبوتوں کے ساتھ سامنے لانا ہوگا تاکہ عوام میں اس کاجادوئی سحر ٹوٹ جائے ورنہ سب کی خیر نہیں ہے البتہ جن قوتوں نے اس عفریت کوتخلیق کرکے بوتل سے باہر نکالا تھا یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں