جوگی سانپ کے دانت اور انقلاب

تحریر: انورساجدی
میں نے کچھ عرصہ قبل لکھا تھا کہ عمران خان کا کام انقلاب لائے بغیر نہیں بنے گا کیونکہ پاکستان میں 75سال سے اسٹیٹس کو چل رہا ہے یہاں پر حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں جنہیں انجینئرڈ یا اریج کیاجاتا ہے یہ بات عمران خان سے زیادہ کس کو پتہ ہے کہ2018ء میں ان کی کامیابی کا کیسے اہتمام کیا گیا اور شروع کے ڈھائی سال کس طرح انگلی پکڑ کر انہیں چلایاگیا عمران خان سے پہلے تین مرتبہ کی فضیلت نوازشریف کو حاصل رہی تاہم انہوں نے متبادل تلاش کرلیا تو نوازشریف کو پانامہ میں پھنسایا گیا لیکن پانامہ کا کیس ثابت نہ ہوسکا اس لئے آئین کی دفعہ62اور 63کے تحت انہیں یو اے ای کا اقامہ چھپانے کے جرم میں نااہلی اور قید کی سزا سنائی گئی اس کا مقصد اپنے نئے انتخاب کیلئے راہ ہموار کرنا تھی چنانچہ2018ء میں عمران خان کو 80نشستیں ملنا تھیں جو کہ115کردی گئیں اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ پاکستان میں پہلے اور آخری آزادانہ اور شفاف انتخابات 1970ء کے تھے لیکن صحیح الیکشن کروانے کے بعد ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا چنانچہ اس صورتحال میں جبکہ عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے اپنی تذلیل کے بعد سخت غصے میں ہیں اور وہ جلد انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں تو انہیں ادراک ہونا چاہئے کہ اس بات کی کیا گارنٹی کے انتخابات شفاف ہوں اور عمرانخان ہی فاتح قرار پائیں انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ
جوگی اپنے سانپوں کے دانت نکال دیتے ہیں تاکہ وہ کاٹنے کے قابل نہ ہوں
آئندہ انتخابات جب بھی ہوں اگر عمران خان کا طرز عمل یہی رہا تو جوگی پہلے ان کے دانت نکالنے کی کوشش کریں گے۔
سابق آمر اور کچھ عرصہ تک عمران خان کے پسندیدہ حکمران جنرل پرویز مشرف نے2003ء کے سال میں واشنگٹن ڈی سی کے فورسنیز ہوٹل میں صحافیوں کے ایک گروپ کو واضح طور پر بتایا تھا کہ پاکستان میں کبھی مغربی جمہوریت رائج نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے انہوں نے یہ بھی واضح طور پر کہا کہ قومی معاملات میں فوج ہمیشہ شریک رہے گی کیونکہ وہی ملکی سلامتی کی ضامن ہے ورنہ سیاستدان اسے بیچ کر کھاجائیں گے ان سے پوچھا گیا کہ ترکی کی طرح (ترکی کے متروکہ آئین)پاکستانی آئین میں فوج کامستقل رول کیوں رکھا نہیں جاتا توانہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟
ہمارے نزدیک آئین اور پارلیمان سے زیادہ ملک کی سلامتی اہم ہے لہٰذا آئین میں رول متعین کرنے کی ضرورت نہیں فوج جب بھی خطرات محسوس کرتی ہے تو سیاستدانوں کو ہٹاکر براہ راست انتظامات سنبھالتی ہے۔جنرل مشرف نے کہا کہ سیاسی حکمران اس قابل نہیں کہ وہ خارجہ پالیسی چلائیں یہ کام ہمیشہ فوج کرتی ہے صرف1972ء سے 1975ء تک ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پالیسی بنائی لیکن جب بھٹو خطرہ بن گیا تو دنیا نے اس کا حشر دیکھ لیا۔
یہ بات کون نہیں جانتا کہ ضیاء الحق نے1984ء کے ریفرنڈم کے بعد پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام ڈیزائن کیا انہوں نے پہلے غیر جماعتی انتخابات کروائے اور دلیل دی کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہیں سیاسی گروہ تفرقہ پھیلاتے ہیں جبکہ اسلام میں ملکی سربراہ کے حق میں بیعت کرنا لازمی ہے اور جو بیعت نہ کرے اسے باغی تصور کیاجاتا ہے انتخابات کے بعد انہوں نے ایک تاریخی یوٹرن لیا اور مسلم لیگ کے نام سے ایک عدد جماعت بنوائی تاریخ میں اس جماعت کو جونیجو لیگ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے ضیاؤ الحق سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان محمد خان جونیجو کو وزیراعظم مقرر کردیا اور تمام اراکین کو حکم دیا کہ وہ نوتشکیل جونیجو لیگ میں شمولیت اختیار کرلیں چونکہ ایم آر ڈی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اس لئے قومی اسمبلی کے اندر کوئی اپوزیشن نہیں تھی ضیاؤ الحق نے میانوالی کے ڈاکٹرشیرانگن اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیف اللہ کو اپوزیشن میں ڈال دیا تاکہ نظام چلے تاہم جب جونیجو نے خود کو بااختیار وزیراعظم سمجھ کر افغانستان سے روسی انخلا کی راہ ہموار کرنے کیلئے جنیوأ معاہدہ کرلیا تو ضیاء الحق نے انہیں برطرف کردیا جونیجو نے معاہدے پر دستخط امریکی احکامات کے تحت کئے تھے امریکہ نام نہاد افغان جہاد سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا جب ضیاؤ الحق نے مخالف کی تو طارق بشیر چیمہ کام آئے اور خدا کے حکم سے سی 130طیارے کو حادثہ پیش آیا۔
ضیاؤ الحق کے بعد جو انتخابات ہوئے جنرل مرزا اسلم بیگ اور مرحوم حمید گل نے پورا زور لگایا کہ ضیاء الحق کانظام برقرار رہے اور اس کے کاشت کردہ پودے پھلیں پھولیں لیکن بینظیر اتنی مقبول تھیں کہ جھرلو انتخابات کے باوجود وہ جیت گئیں انہیں ضیاء الحق کے سیاسی جانشین غلام اسحاق خان نے کافی دنوں تک حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی لیکن بالآخر یہ کڑوی گولی کھانا پڑی بینظیر کو ایک دن بھی چلنے نہیں دیا گیا حتیٰ کہ حمید گل نے کہاکہ وہ سیکورٹی رسک اور ملک کے وفادار نہیں اس لئے انہیں کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ دیکھنے کی اجازت نہیں دی جائیگی اقتدار کے ایک سال بعد ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی گئی یہ چھانگا مانگا کی اصطلاح اسی عدم اعتماد سے متعمل ہوئی کیونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نوازشریف نے خریدے گئے ارکان اسمبلی کو پنجاب کے جنگل چھانگا مانگا میں چھپادیا تھا یہ تحریک تو ناکام ہوگئی تھی لیکن صدر اسحاق نے آئین کے آرٹیکل 58 2بی کے تحت ان کی حکومت برطرف کردی۔1990ء کے جھرلو انتخابات میں نوازشریف وزیراعظم بن گئے لیکن دو سال بعد جب انہوں نے خود کو بااختیار سمجھنا شروع کردیا تو انہیں تیسرا سال پورا کرنے نہیں دیا گیا اس دوران بینظیر نے بھی مقتدرہ سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا کیونکہ اس کے بغیر پاکستان میں اقتدار نہیں مل سکتا وہ 1993ء میں دوسری باروزیراعظم بنی تھیں لیکن ضیاؤ الحق کی تربیت یافتہ طاقتوں نے1997ء کے انتخابات میں بازی پھر پلٹ دی لیکن 12اکتوبر1999ء کو پرویز مشرف کی قیادت میں فوج نے ایک بار پھر براہ راست ملک کا نظام سنبھال لیا۔
جنرل پرویز مشرف نے عمران کو ساتھ ملایا تھا اور خان صاحب بھی ریفرنڈم میں ان کے پولنگ ایجنٹ بن گئے تھے لیکن انتخابات میں بدترین شکست کی وجہ سے وہ وزیراعظم نہ بن سکے تھے جنرل مشرف نے بعد میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان نے اپنے ایک سو امیدواروں کی کامیابی کا مطالبہ کیا تھا یعنی2002ء کے انتخابات مذاق سے کم نہ تھے اسکے باوجود پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کرلی لیکن مشرف نے یہ پارٹی توڑ کر اپنی حکومت بنائی یہ ہیں وہ حالات کہ ان کا مطالبہ کرکے عمران خان کو دوبارہ کامیابی حاصل کرنی ہے اور پاکستان کو کیوبا وینزویلا ایران اور شمالی کوریا کی طرح آزاد اور خود مختار ملک بنانا ہے پاکستان کا جو پاور اسٹرکچر ہے تو وہ بہ یک وقت اندرونی طاقتوں سیاسی مخالفین اور امریکہ سے لڑکر کامیابی حاصل نہیں کرسکتے بلکہ انتخابات کے ذریعے وہ سرے سے اپنا مقصد حاصل ہی نہیں کرسکتے کیونکہ انتخابات میں کامیابی کیلئے انہیں کسی نہ کسی فریق سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ کامیابی سے دور رہیں گے اپنے لاہور کے جلسہ میں انہوں نے ذمہ دار حلقوں سے مطالبہ کیا کہ انہوں نے میری حکومت ہٹاکر جو غلطی کی ہے اس طرح ٹھیک ہوسکتی ہے کہ فوری طور پر انتخابات کروائے جائیں ان کا خیال ہے کہ اس وقت ان کی مقبولیت عروج پر ہے اس لئے فوری الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی یقینی ہے انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ان کا مطالبہ نہیں مانا گیا تو وہ عوام کو اسلام آباد آنے کی کال دیں گے یعنی ایک اور لانگ مارچ اور دھرنا دیں گے یہ مطالبہ سیاسی تو ہے لیکن سطحی ہے کیونکہ جن لوگوں نے انہیں برخاست کیا ہے وہ مطالبہ انہی سے کررہے ہیں اگر اس دوران مذاکرات ہوئے تو بھی انہی سے کرنے پڑیں گے اور سب جانتے ہیں کہ انہیں اقتدار سے باہر اس لئے نہیں کیا گیا کہ فوری طور پر انہیں واپس لائیں اگر شہبازشریف کوکچھ وقت ملا تو وہ چیری بلاسم کا اتنا استعمال کریں گے کہ انہیں جمنے سے کوئی نہیں روک سکے گا لہٰذا اگر عمران خان واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو وہ پورے نظام اسٹیٹس کو اور اس کے علمبرداروں کو چیلنج کریں اور انقلاب کا باقاعدہ اعلان کریں انہیں تاریخ بھی پڑھنے کی ضرورت ہے وہ لنین ماؤسے تنگ اور فڈل کاسترو کامیریڈ کم ال سنگ اور ہوگو شاویز کے انقلابات کاجائزہ لیں اگر عمران خان اسلامی ذہن کے مالک ہیں اور اپنے نعرہ کے مطابق ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں امام آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انقلاب ایران کا مطالعہ کرنا چاہئے یہ تمام شہرہ آفاق اکابرین کسی انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے کامیاب نہیں ہوئے تھے بلکہ عوامی قوت کے بل بوتے پر اقتدار پرقابض ہوئے تھے فڈل کاسترو نے تو تمام عمر امریکہ جیسی سپر پاور سے جنگ لڑی تھی حالانکہ کیویا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور امریکہ کے پہلو میں واقع ہے کامریڈ کم ال سنگ جنگ کوریا کے بعد آمر مطلق بننے میں کامیاب ہوئے تھے ان تمام اکابرین کے انقلابی جدوجہد کے دوران ان کے لاکھوں پیروکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے کیا عمران خان 70 سال کی عمر میں ایسی جدوجہد کیلئے تیار ہیں؟یا ان کی جماعت ان تمام اکابرین کی کمیونسٹ پارٹیوں کی طرح منظم اور کارکنوں کا وسیع کیڈر رکھتی ہے عام جلسوں میں رمضان کے دوران پارٹی ترانوں پر مردوزن کے ناچنے سے کوئی انقلاب نہیں آتا عمران خان کا واحد مقصد وزارت عظمیٰ کی کرسی ہے جو سمجھوتہ کرنے سے ملتی ہے ان کی اتنی طاقت نہیں کہ وہ کوئی انقلاب برپا کرسکیں لہٰذا انہیں اپنی طاقت کے مطابق چلنا چاہیے بے شک چیری بلاسم کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے سمجھوتے اور فرماں برداری کے اصولوں کے تحت ہی انہیں دوبارہ کرسی مل سکتی ہے انہیں زرداری کے صبر کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔حکومتوں اور مخالفین کو جل دینے کی نوازشریف کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کرنا چاہئے ورنہ وہ جلسوں میں روتے رہیں گے اور ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں