ایک گھڑی دوارب ڈالر میں پڑگئی

تحریر: انورساجدی
آنے والے ہفتوں میں سیاسی محاذ آرائیں اتنی بڑھ جائیگی کہ یہ باقاعدہ جنگ وجدل کی شکل اختیار کرجائیگی جناب عمران خان اور ان کے پیرو کاروں کویقین نہیں آرہا کہ وہ اقتدار کی ٹرین سے اترچکے ہیں ان کا رویہ ضدی بچوں کی طرح ہے کیا صدر کیا گورنرپنجاب کیا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کپتان کا اپنا مطالبہ ہے کہ فوری الیکشن کرواکر اقتدار ان کے حوالے کیاجائے ان کاخیال ہے کہ فوری الیکشن ہوئے تو وہ دوتہائی اکثریت حاصل کرلیں گے کپتان کو مستقبل قریب میں کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں ان کا انہیں اندازہ نہیں ہے بے شک عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہو لیکن مسٹرکلین یا صادق اور امین کا ان کا امیج چور چور ہوچکا ہے فی الحال تو توشہ خانہ کے تحائف کااسکینڈل سامنے آیا ہے بہت جلد دیگر اسکینڈل بھی منظر عام پر آجائیں گے توشہ خانہ کے مال غنیمت سے نوازشریف زرداری یوسف رضا،شوکت عزیز اور جنرل مشرف بھی استفادہ کرچکے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ انہوں نے تحائف اپنے پاس رکھے جبکہ کپتان نے انہیں سرعام نیلام کرکے رقم اپنے پاس رکھ کرلی ماشاء اللہ سے موصوف جھوٹ پورے یقین کے ساتھ بولتے ہیں یہ دعویٰ کہ تحائف فروخت کرنے کی رقم سے انہوں نے بنی گالا کی سڑکیں بنائی ہیں سوفیصد جھوٹ ہے انہوں نے مین روڈ سے اپنی پہاڑی تک ایک یادوفرلانگ کی سڑک بنوائی ہے باقی پیسے انہوں نے ہضم کرلئے ہیں سنا ہے کہ جب سعودی ولی عہد کو پتہ چلا کہ تحفے میں دی گئی ان کی گھڑی فروخت کیلئے دوبئی کے ڈیلر کے پاس پہنچی ہے تو انہیں بے حد افسوس ہوا اور انہوں نے ڈیلر سے کہا کہ یہ گھڑی لیکر انہیں بھیج دیں اس واقعہ کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات اچانک خراب ہوگئے سعودی عرب نے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیلئے دیئے گئے 2ارب ڈالر واپس مانگ لئے جوچین سے لیکر دیئے گئے جبکہ ادھار پر تیل کی فراہمی بھی بند کردی گئی جو تاحال بند ہے اسی طرح جن عالمی شخصیات نے کپتان کو سونے کی کلاشنکوف ہیرے سے مزین بریس لیٹ نہایت قیمتی کف لنکس اور دیگر تحائف دیئے تھے یہ جان کر کہ پاکستانی لیڈر نے ان کے تحائف اوپن بازار میں نیلام کردیئے ہیں تو ان پر کیا گزری ہوگی یا پاکستانی قیادت کی کم ظرفی کے بارے میں انہوں نے اپنے ذہن میں کیا تاثرات قائم کئے ہونگے توشہ خان کا مقدمہ لڑنے والے صحافی رانا ابرار نے جیو ٹی وی پردعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو ملنے والے تحائف کی اصل مالیت2ارب روپے سے زائد تھی لیکن انہوں نے ان کی بہت کم قیمت لگواکر اور صرف2کروڑ 80لاکھ روپے ادا کرکے سارے کے سارے قیمتی تحفے ہڑپ لئے۔
کپتان کیخلاف بہت جلد نام نہاد سونامی ٹری والا معاملہ بھی آنے والا ہے اس منصوبہ پر اربوں روپے خرچ کئے گئے زیادہ درخت دکھانے کی خاطر قدرتی جنگلات کو بھی اس میں شمار کیا گیا جب تحقیقات ہوگی تو نتائج ہوش اڑانے والے ہونگے کیونکہ اس میں بہت زیادہ خردبرد کی گئی ہے اگرچہ پشاور بی آر ٹی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اس میں ہیرپھیر10سے20ارب تک محدود ہے لیکن چینی اور گندم اسکینڈل بہت بڑے ہیں مطلب یہ ہے کہ کپتان صبح وشام اپنی راست بازی اور پارسائی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے لیکن انکے باطن کا یہ حال ہے کہ انہوں نے بھی پونے چار سال میں اتنی ذادراہ جمع کرلی کہ وہ زندگی کے باقی محدود سال انتہائی عیش وعشرت کے ساتھ گزارسکتے ہیں ایک اسکینڈل راولپنڈی اسلام آباد رنگ روڈ کا ہے جس کی طوالت اور مالیت بڑھائی گئی صرف وزیراعظم ہاؤس سے بنی گالا تک ہیلی کاپٹر کابے رحمانہ استعمال ان کی پارسائی کے پرخچے اڑانے کیلئے کافی ہے انہوں نے 10کلومیٹر کا فاصلہ ہیلی کاپٹر پرسفر کرکے ایک ارب روپے اڑالئے۔
البتہ یہ ماننے کی بات ہے کہ عمران خان ایک اچھے مبلغ ہیں اور انہوں نے پاکستان کے سادہ لوح سیاسی کارکنوں کا اچھا نفسیاتی مطالعہ کیا ہے انہوں نے سیاسی تبلغ حضرت مولانا طارق جمیل سے سیکھی ہے جو روزانہ ایک سے زائد ٹی وی چینل پر ایک بات باربار دھراتے ہیں اور لوگ واہ واہ کررہے ہوتے ہیں عمران خان بھی اپنی بات سمجھانے کیلئے ایک بات کئی بار دہراتے ہیں لیکن ان کے پیروکاروں کوناگوار نہیں گزرتا انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی فلمیں باربارچلاکر دیکھی ہیں اور کسنجر کی اس دھمکی کوکئی بار غور سے سنا ہے جوایٹمی مسئلہ پر اس نے بھٹو کو دی تھی اس لئے وہ بھٹو کوایک خوددار اور ان کی خارجہ پالیسی کو آزاد مانتے ہیں انہوں نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں فرمایا کہ پاکستان کی تاریخ میں دولیڈروں کو امریکہ سے دھمکیاں ملیں ایک بھٹو کو اور ایک مشرف کو لیکن انہوں نے تفصیل نہیں بتائی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ امریکی دھمکی کا مقابلہ کرکے بھٹو پھانسی چڑھ گئے تھے جبکہ پرویز مشرف لیٹ گئے تھے عمران خان پرویز مشرف کو ملنے والی دھمکی کی تفصیل اس لئے نہیں بتائی کہ انہوں نے امریکی کولیشن کا حصہ بننے کے پرویزمشرف کے فیصلے کی تائید کی تھی جس کا ریکارڈ موجود ہے اور کئی ٹی وی چینلوں نے کئی بار دکھا بھی دیا ہے جہاں تک خواجہ آصف کی بات کا تعلق ہے تو ان کی بات سوفیصد سچ ہے لیکن یہ وقت کاجبر ہے کہ بھٹو کی پھانسی کی صبح خواجہ صاحب نے سیالکوٹ میں مٹھائی بانٹی تھی۔
عمران خان نے جو یوتھ فورس بنائی ہے اس کا خیال انہیں ہٹلرکے یوتھ فورس اورخاص طور پر ہندو بھگوانوں کے دیومالائی کہانیوں یقینی متھ سے لیا ہے۔ہندوبھگوان رام نے کس طرح تبلیغ سے لاکھوں لوگ اپنے پیچھے لگائے اور انہوں نے مان لیا کہ وہ بھگوان میں ان کی کہانی کے مطالعہ سے عمران خان نے بہت کچھ سیکھا ہے اسی طرح انہوں نے راون اور ہنومان کا بہت مطالعہ کیا ہوگا یقینی طور پر بھگوان کرشن اور ان کے بھائی نے مہابھارت جس طرح برپا کی وہ بھی ان کے ذہن میں ہوگا کو روپانڈو کی جنگ میں ارجن کرشن سے کہتا ہے کہ حق وباطل کے درمیان جب جنگ ناگزیر ہوتو کیا کرنا چاہئے اس پر بھگوان کرشن کہتا ہے پھر جنگ لازمی ہوجائے گی۔
مہابھارت آج ہندومت کی بنیاد اور ان کی مقدس ترین کتاب ہے دنیابھر کے ڈیڑھ ارب ہندو اسکے پیروکار ہیں تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ راون سے جنگ کے مسئلہ پر اورمہابھارت شروع ہونے سے پہلے دونوں ہندوبھگوانوں نے یوٹرن لیا غالباً یہ یوٹرن بھی عمران خان نے انہی شخصیات کے مطالعہ سے سیکھا ہے ہندومت میں بھگوان کے گرو اور ان کے چیلے ہوتے ہیں تحریک انصاف کے سارے کارکن اپنے لیڈر کے چیلے ہیں وہ ان کے ہر عمل کی حمایت کرتے ہیں ہر جھوٹ کوسچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہریوٹرن کے حق میں دلائل دیتے ہیں اگرچہ فی زمانہ کسی نئے مذہب کا احیاء کرنا ممکن نہیں ہے لیکن دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی مذہبی کلٹ موجود ہیں اوران کے پیروکاروں کی تعداد ہزاروں میں ہے کچھ دہائی قبل امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص عالیحاہ محمد نے اسلام کو بگاڑ کر ایک کلٹ بنایا تھا تقریباً سواسو سال پہلے ایک عالم دین غلام محمد نے قادیان کے مقام پر خود کو لسیوع اور مہدی موعود قراردے کر اپنے فرقہ کی بنیاد رکھی تھی جو احمدی یا قادیانی فرقہ کے نام سے مشہور ہے کوئی 60سال پہلے لاہور میں ایک پڑھے لکھے شخص غلام احمد پرویز نے بھی ایک نئے فرقہ کی بنیاد رکھی تھی جو پرویزی مکتبہ فکر کے نام سے مشہور ہوا تھا عمران خان کا طریقہ کار ان سب سے جداگانہ ہے وہ ریاست مدینہ کا نام لیکر اورخود کو راسخ العقیدہ مسلمان ظاہر کرکے اپنا علیحدہ کلٹ بنارہے ہیں اس سے قطع نظر کہ ان کے عفیفال کے کیا عقائد تھے اور ان کے والد کس مسلک سے تعلق رکھتے تھے عمران خان پڑھے لکھے نوجوانوں کو پاگل اورجنونی بنانے میں مصروف ہیں گزشتہ14برس میں وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ شریف خاندان اور زرداری سب سے بڑے چور اور ڈاکو ہیں ان کے پیروکارشریفوں اور زرداری کو روزگالیاں نکالتے ہیں اور بھلا براکہتے ہیں یہ تو معلوم نہیں کہ عمران خان رام کے پیروکار ہیں یا راون کے فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں لیکن موصوف کو گرانے کیلئے وہی طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا جو رام نے راون کو گرانے کیلئے کیا تھا اس طریقہ کار کے بغیرکوئی انہیں گرا نہیں سکے گا کیونکہ ان کے اندھے پیروکاروں میں ویٹرن یعنی سابق جرنیل بڑے بڑے پروفیسر ایاز امیر جیسے دانشور کئی نامور صحافی اور شمشاد جیسے بیوروکریٹ بھی شامل ہیں یہ سارے لوگ عمران خان کو شریف اور زرداری کے مقابلہ میں نہ صرف بہتر بلکہ نجات دہندہ سمجھتے ہیں اب جبکہ انہوں نے ایک جھوٹی کہانی کے ذریعے امریکہ کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے تو متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے کارکن دیوانہ دار حد تک انکے گرویدہ نظرآتے ہیں اگر حکومت اور مخالفین نے عمران خان کا موثر بندوبست نہیں کیا تو ان کے لانگ مارچ اور دھرنے میں لاکھوں لوگ شرکت کریں گے اور وفاقی دارالحکومت کوکافی عرصہ تک جام کردیں گے تاکہ یہ حکومت رخصت ہوجائے اور نگراں حکومت آجائے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب مہنگائی لوڈشیڈنگ اور دیگرمسائل میں اضافہ ہوگا تو لوگ حکومت کے خلاف زیادہ شدت کے ساتھ نکلیں گے ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس دوران اگرفارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ تحریک انصاف کیخلاف آجائے اور غیر ملکی فنڈنگ کے جرم میں وہ تحلیل ہوجائے تو یہ پارٹی پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ سکتی ہے۔
یہ جو میں نے عمران خان کے مطالعہ کا اوپر ذکر کیا ہے یہ فرضی ہے کیونکہ حالات وواقعات سے ثابت ہے کہ عمران خان نے آج تک کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا ان کی ہرطرح کی معلومات بہت کم ہیں اور لگتانہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے شخص ہیں وہ افغانستان کے حادثاتی سربراہ ”بچہ سقہ“ کی طرح ان پڑھ اور ناسمجھ دکھائی دیتے ہیں یہ الگ بات کہ انہیں لوگ اکٹھا کرنا اور پیروکار بنانے کا ہنر آتاہے۔
نئے وزیراعظم شہبازشریف نے انکشاف کیا ہے کہ وہ طاقتورحلقوں کے ساتھ بلوچستان کے مسنگ پرسنز یعنی لاپتہ افراد کامسئلہ اٹھائیں گے یہ ایسی بات ہے کہ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے اگر شہبازشریف وزیراعظم ہونے کے باوجود مقتدر نہیں ہے تو ان سے کسی کی قسم کی امید باندھنا بے کار ہے اگروہ بتادیتے کہ مقتدر حلقے کون ہیں تو ان کی مہربانی ہوتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں