یکساں تعلیم نصاب اور شناختی بحران

تحریر: جیئند ساجدی
اپنی 75سالہ تاریخ میں پاکستان متواتر سیاسی ومالی بحران کا شکار رہا ہے۔سیاسی و مالی بحران کے علاوہ یہ ملک شروع دن سے شناختی بحران کا بھی شکار رہا ہے۔اسی سیاسی،مالی اور شناختی بحران کی وجہ سے پاکستان کانام ناکام ریاستوں میں اکثر اوقات ٹاپ10 میں رہتا ہے۔شناختی بحران کے بڑے ذمہ دار اس وقت (1947)کے مسلم لیگ کی قیادت اور شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے نام نہاد دانشورتھے جنہوں نے نصاب تعلیم کی کتابیں لکھی تھی۔مسلم لیگ کے رہنماء اور ان دانشوروں میں ایک چیز مشترکہ تھی کہ یہ دونوں طبقات اکثر ہندوستان سے ہجرت کر کے نئے ملک پاکستان آئے تھے اور ان کو یہاں کے لسانی گروہوں،یہاں کی جغرافی اور مقامی تاریخ کے حوالے سے کوئی علم نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس خطے کے زمینی حقائق سے واقف تھے۔اس کے علاوہ ان میں ایک اور چیز مشترکہ تھی کہ انہیں قومی ریاست (Nation-State)اور جغرافیائی ریاست جسے (-State Nation)کہتے ہیں ان کے متعلق بھی انہیں کوئی علم نہیں تھا۔قومی ریاست ان ریاستوں کو کہتے ہیں جہاں ایک ہی قوم کی اکثریت آباد ہو جبکہ جغرافیائی ریاستوں میں مختلف اقوام کے لوگ رہتے ہیں اسی لئے انہیں اکثر کثیرالقومی ریاستیں بھی کہاجاتا ہے۔قومی ریاستوں کی نسبت کثیر القومی ریاستوں کی حکومت و انتظامیہ چلانا کافی مشکل ہوتا ہے۔کثیر القومی ریاستوں میں امن اور استحکام اس وقت تک ممکن ہے جب مرکز اور ریاست تمام اقوام کے جائز سیاسی و معاشی حقوق تسلیم کرے اور ان کی شناخت کو بھی تسلیم کرے۔اپنی کم علمی کی وجہ سے ن لیگی رہنماؤں اور ہندوستانی دانشوروں نے پاکستان کو کثیرالقومی ریاست کی بجائے ایک قومی ریاست سمجھا اور ایسا نصاب تیار کیا گیا جس میں انہوں نے یہاں کی بولی جانے والی زبانوں،ثقافت،تاریخ اور مقامی ہیروز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور بیرونی یا درآمد کردہ ہیروز کو نصاب کا حصہ بنایا ان درآمد کردہ ہیروز میں محمود غزنوی،محمد غوری اور احمد شاہ ابدالی کے نام شامل ہیں۔
اردو جو 1947ء میں محض 3فیصد لوگوں کی زبان تھی اس کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا اسی وجہ سے بنگالی اور اردو زبان بولنے والوں میں تضادات بھی ہوئے نصاب میں مذہب پر خاص توجہ دے کر علاقائی شناختوں کو ختم کرنے اور ایک تصوراتی یا فرضی قوم بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔غالباًلیگی رہنماء اور نیم پڑھے لکھے دانشور اس تاریخ سے بھی ناواقف تھے کہ مسلم نیشلزم کبھی بھی ایک مضبوط سیاسی نظریہ نہیں بن سکا ہے عربوں نے ایران پر فتح ضرور حاصل کی تھی اور ایرانیوں نے بڑی تعداد میں اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن انہوں نے اپنی علاقائی وقومی شناخت کبھی نہیں چھوڑی اور عربوں کے کمزور ہونے کے بعد ایرانیوں نے اپنے ملک سے عرب حکومت کا خاتمہ کر کے پھر سے مقامی حکومت قائم کرلی تھی اسی طرح سلطنت عثمانیہ (ترکی) کے دورمیں تمام عرب دنیا ترکوں کے ماتحت تھی لیکن جب ترکوں کی سلطنت کمزور ہوئی تو عربوں نے اپنے علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنی اپنی آزادیوں کا اعلان کیا۔مسلم نیشلزم کے حوالے سے معروف بلوچ قوم پرست رہنماء میر غوث بخش بزنجو یہ کہتے ہیں کہ ”مجھ پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ میں مسلم نیشلزم کے خلاف ہوں میں ہر گز مسلم نیشلزم کے خلاف نہیں کیونکہ مسلم نیشنلزم ایک فرضی چیز ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں بلا میں کسی فرضی چیز کے خلاف کیسے ہوسکتا ہوں؟مسلم نیشلزم ایک فرضی چیز ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ نہ عرب،نہ ایرانی اور نہ ہی ترک اپنے اپنے ممالک میں ہمیں بڑے عہدے دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی ہم اپنے ملک میں ان کو بڑے عہدے دینے کے لئے رضا مند ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم قوم پرستی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک فرضیچیز ہے“۔میر غوث بخش کی تقریر کا مقتدرہ اور نام نہاد مسلم قوم پرستوں پر کوئی اثر نہیں پڑاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ سال بعد فرضی مسلم قوم پرستی کو بنگالی قوم پرستی سے شکست ہوئی اور آدھا ملک ٹوٹ گیا لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کے تصوراتی نظریے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔بھٹو جنکو کافی لبرل سمجھا جاتا ہے انہوں نے پاکستان کو شناختی بحران سے نکالنے کی بجائے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا انہوں نے مولوی حضرات اور مسلم قوم پرستوں کو خوش کرنے کے لئے 1973ء کے آئین میں متعدد مذہبی نکات شامل کیں۔سانحہ بنگال سے نہ بھٹو نے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی ان کی کابینہ نے۔جامعہ قائد اعظم کے اسسٹنٹ پروفیسر سلمان سفی شیخ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”جب غوث بخش بزنجو نے اسمبلی اجلاس میں یہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ پاکستان میں آباد تمام اقوام کے حقوق تسلیم کئے جائیں تو اس بات پر بھٹو کے وزیر داخلہ قیوم خان نے یہ جواب دیا کہ پاکستان میں صرف ایک ہی قوم آباد ہے اور وہ پاکستانی ہے جس کے جواب میں میر غوث بخش بزنجو نے یہ کہا تھا کہ پاکستان میں چار قومیں بلوچ،پشتون،سندھی اور پنجابی آباد ہیں۔جتنی جلدی آپ اس بات کو تسلیم کرینگے اتنا ہی یہ ہمارے اور اس ملک کے حق میں بہتر ہوگا“میر غوث بخش بزنجو کی بات کا جو زمینی حقائق پر مبنی تھی اس کا پھر سے مرکز پر کوئی اثر نہیں پڑا بھٹوکے بعد ضیاء الحق نے مسلم نیشلزم کا کئی گناہ بھیانک کارڈ کھیلا اور نصاب اورسیاست میں مذہب کا اتنا استعمال کیا کہ ملک میں بد ترین قسم کی فرقہ واریت پھیلی جو کہ خود مسلم قوم پرستی کے نظریے کے برعکس ہے اور اس مذہب کے سیاسی استعمال کی وجہ سے ملک میں فرقہ واریت ابھی تک اپنی مضبوط جڑیں پکڑی ہوئی ہیں۔
عمران خان نے اپنی آمد سے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملک کو محض 90دنوں میں سیاسی ومالی بحران سے نکالیں گے لیکن انہوں نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو مزید سیاسی ومالی عدم استحکام کا شکار بنادیا ہے اس کے علاوہ انہوں نے شناختی بحران کے خاتمے کے لئے یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ یکساں نصاب تعلیم کے ذریعے ایک قوم بنانے کی کوشش کرینگے۔ان کے مطابق ایک جیسا تعلیمی نصاب کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی ایک قوم نہیں بن پائی۔اس نصاب میں اور ماضی کی نصابوں میں یہ فرق ہے کہ اس نصاب میں مذہب اور اردو زبان پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دی گئی ہے اور کچھ ماہر تعلیم کے مطابق یہ نصاب ضیاء الحق کے دور نصاب سے بھی زیادہ خطرناک ہے جس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔جس طرح عمران خان نے مالی اور سیاسی بحران کو حل کرنے کی بجائے مزیدگھمبیر بنادیا ہے اسی طرح سے ان کی یکساں نصاب تعلیم سے شناختی بحران بھی حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوجائے گا۔عمران خان کی اس نصاب کے سب سے بڑے حمایتی ان کے سابق وزیر تعلیم شفقت محمود تھے۔پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے انہوں نے 2009 میں عمران خان کے متعلق ایک تحریر لکھی تھی کہ عمران خان اکثر مغربی کلچر کی مخالفت کرتے ہیں دراصل عمران خان کی مغربی کلچر کی مخالفت جدیدیت کی مخالفت ہے شفقت محمود نے مزید لکھا کہ اگرعمران خان کی سیاسی نظریات پر عمل کیا گیا تو ملک میں اتنی انتہا پسندی پھیلے گی کہ ملک القاعدہ اور طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے گا لیکن چونکہ اب شفقت محمود پی ٹی آئی کا حصہ ہیں تو وہ اسی عمران خان کی مغربی کلچر یا جدیدیت کی مخالفت خود کرکے ایک ایسے نصاب کی حمایت کررہے ہیں جس سے ملک میں مزید انتہا پسندی بڑھنے کا خطرہ ہے اور اس نصاب کا مقصدبنیادی طور پر سیاسی ہے علمی ہرگز نہیں بلکہ شفقت محموداس نصاب کی حمایت میں خود فرما چکے ہیں کہ اس نصاب سے قومی ہم آہنگی اور حب الوطنی کو فروغ ملے گااور ہم سچے اور نیک مسلمان بن پا ئیں گے۔یہ عمل غیر دانشمندانہ کے علاوہ غیرآئینی بھی ہے چونکہ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی سبجکٹ ہے نہ کہ وفاقی۔حکومت سندھ نے اس نصاب تعلیم کو نافذ کرنے سے صاف انکار کردیا ہے ابھی تک یہ نصاب صرف پنجاب میں نافذ ہے۔نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ عمران خان کے بر عکس آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اسے باقی صوبوں پر مسلط نہیں کریں بلکہ بہتر یہی ہوگا کہ مکمل طور پر اس نصاب تعلیم کو ختم کریں کیونکہ اس کی نفاذ سے پاکستان مزید شناختی بحران کا شکار ہو جائیگا بہتر یہی ہوگا کہ مقتدرہ اور مرکز مسلم نیشلزم کی بجائے یہاں پر مقیم تمام اقوام کے وجود کو تسلیم کرے اور ان کو ان کی سرزمین پر اختیارات بھی دے۔ملک میں شدید مالی وسیاسی بحران کی اہم وجہ شناختی بحران ہے اگر مرکز اقوام کی شناخت اور حقوق تسلیم کریگی تو تب ہی اس کثیر القومی ریاست کے حالات کچھ بہتر ہونگے لیکن اب بھی مرکز اس فرضی مفروضے پر قائم رہے کہ مسلمان ایک قوم ہے اور پاکستانی ایک قومی ریاست تو حالات مزید اسی طرح رہیں گے۔البرٹ آئنسٹائن لکھتے ہیں کہ ”پاگل پن کی ایک نشانی یہ ہے کہ آپ ہی کام بار بار کریں اور مختلف نتائج کی امید رکھیں“۔