شطرنج کے نامعقول کھلاڑی
تحریر: انورساجدی
شہرہ آفاق بنگالی فلم ڈائریکٹر ستیہ جیت رے کی مشہور فلم ہے شطرنج کے کھلاڑی یہ فلم اودھ کی ریاست پر انگریزوں کے قبضہ کے موقع پر قبل وہاں کی اشرافیہ کے کرتوتوں پر بنائی گئی ہے ریاست کے آخری نواب واحد علی شاہ کو ٹھمری گانے گلاب کے پھول سونگنے اور رقص سردوکی محفل برپا کرنے کا شوق تھا جبکہ جو روسا تھے وہ شطرنج کھیلنے کے رسیا تھے فلم میں دکھایا گیا ہے کہ جب لکھنؤ پر انگریز قبضہ کررہے تھے تو کسی کو کوئی فکر نہیں تھی بلکہ اشرافیہ کے لوگ پریشان تھے کہ شہر کے کس گوشہ سکون میں جاکر شطرنج کی بازی لگائی جائے۔
خود نواب کا یہ حال تھا کہ جب انگریز محل میں داخل ہوئے تو نواب صاحب ٹھمری گارہے تھے سپاہی جب محل میں داخل ہوئے تو سارے لوگ بھاگ گئے اور نواب اکیلا رہ گیا انگریز افسروں نے نواب کے پاس پہنچ کر حکم دیا کہ اٹھو آپ کو گرفتارکیاجاتا ہے تو موصوف نے کہا کہ کم بختو سارا کام خراب کردیا میں ٹھمری کی ایک نئی دھن بنارہا تھا لیکن بھول گیا نواب صاحب نے کہا کہ مجھے جوتے پہنائے جائیں کیونکہ میں خود جوتے نہیں پہن سکتا چنانچہ انہیں جوتے پہنائے گئے اور بنگال لے جاکر نظربند کردیا۔
اس وقت پاکستان کے حکمران اپوزیشن اور اشرافیہ کا جوحال ہے وہ انیسویں صدی کے اودھ لکھنؤ اور فیض آبادکے روسا جیسی ہے ملک ڈوب رہا ہے لیکن کسی کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے چونچلے اس طرح کے ہیں کہ وزیراعظم صاحب اپنی پوری اودھ کی کابینہ کو جہاز بھر کر8ہزار کلو میٹر دور لندن لے گئے تاکہ وہاں پر بڑے بھائی صاحب سے ملک چلانے کی ہدایات لے سکیں حالانکہ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے ڈالر200روپے کی سطح تک پہنچ رہا ہے ہرچیز کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں خزانہ خالی ہے قطر سے گیس منگوانے کیلئے مطلوبہ رقم نہیں۔خزانہ میں کل اتنی رقم ہے کہ اس سے بمشکل دوماہ کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں اس کے باوجود حکومت فکر مند نظر نہیں آتی حالانکہ مستقبل میں وزارت عظمیٰ کی امیدوار محترمہ مریم نواز نے صوابی میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ
ملک اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے اسے اس حال میں عمران خان نے پہنچایا ہے
مریم کی بات تو سوفیصد سچ ہے لیکن عمرانی پیروکار یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں ان کا کہنا ہے ملک کی یہ حالت نئی حکومت کے ایک ماہ کے دور میں ہوئی ہے مشکل یہ ہے کہ حکومت عوام کو قائل نہیں کرسکتی کہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ پھندا خود اپنے گلے میں ڈالا ہے جہلم کے پہلوان فواد چوہدری نے عمران خان کے جلسہ میں واضح تڑی لگائی تھی کہ جب گھر پر ڈاکو حملہ آور ہوں تو چوکیدار نیوٹرل نہیں ہوسکتا۔کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ چوکیدار نے دانستہ طور پر اپنے لاڈلے کو بچانے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا ہے ورنہ آئندہ انتخابات میں اس کا برا حشر ہوجاتا۔
عجیب وغریب صورتحال ہے شیخ رشید کے بقول اس وقت دو دووزیراعظم دودو وزرائے خزانہ اور دو تیل کے وزیر ہیں حضرت نوازشریف میں صبر کی اتنی کمی ہے کہ فوری طور پر وزیراعظم بن کر احکامات جاری فرمانے لگے ہیں ان کی موجودگی میں شہبازشریف کبھی بااختیار وزیراعظم نہیں بن سکتے بلکہ وہ ہر بات اور ہرفیصلہ بھائی جان سے پوچھ کر کریں گے خود بھائی سات سمندر پار بیٹھے ہیں وہ پاکستان کے زمینی حقائق سے اس طرح واقف نہیں ہیں جس طرح یہاں موجود لوگ واقف ہیں لہٰذا صرف تصور کی بنیاد پر فوری اور حقیقی فیصلے نہیں ہوسکتے۔اسی طرح اسحاق ڈار صاحب سینٹرل لندن میں بیٹھ کر معیشت کو کیسے چلاسکتے ہیں اور یہ دور نہیں کہ شاہد خاقان عباسی قطر یا کسی اور ملک سے مہنگے داموں ایل این جی خرید سکیں جو مزے انہوں نے لوٹنے تھے لوٹ لئے موجودہ صورتحال نارمل نہیں ہے بلکہ جنگی صورتحال ہے اور اس سے صرف جنگی بنیادوں پر نمٹا جاسکتا ہے لیکن حکومت کو کوئی ایمرجنسی دکھائی نہیں دہے رہی ہے اگریوں وقت ضائع ہوتا رہا تو اس حکومت سے نہ معیشت سنبھلے گی اور نہ ہی وہ عمران خان کو سنبھال پائے گی کیونکہ راولپنڈی میں بھی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے وہاں پر بھی یہ سوچ موجود ہے کہ جلد انتخابات کرواکر اس فتنہ سے نمٹا جائے کوئی سن گن کرکے فوادچوہدری نے کہا ہے کہ یہ حکومت دو ہفتوں سے زیادہ دیر نہیں چل سکتی کسی کو پرواہ نہیں کہ تین ماہ کیلئے جو نگران حکومت آئے گی وہ اتنے نازک سیاسی معاشی معاملات کوکیسے چلائے گی۔نگران حکومت حکومت کے تین ماہ تو تباہ کن ثابت ہونگے اگر آئی ایم ایف نے قرضہ نہیں دیا دوست ممالک نے مدد نہیں کی سیاسی افراتفری جاری رہی تو معاشی دیوالیہ پن کہیں نہیں گیا اگر عمران خان سے خوش اسلوبی سے نہیں نمٹا گیا تو وہ حالات کو اس نہج پر لے جائیں گے کہ وہان سے واپسی ناممکن ہو معلوم نہیں کہ عمران خان نے گزشتہ پونے چار سال جوکچھ کیا وہ جان بوجھ کر کیا یا ان سے نادانستگی سے سب کچھ سرزد ہوا ان کی تمام معاشی پالیسیاں ناکام ثابت ہوئیں خارجہ پالیسی تو پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین پالیسی تھی پاکستان دنیا میں بلکہ وتنہا رہ گیا تھا زرمبارلہ کے ذخائر کے بارے میں مسلسل جھوٹ بولا گیا آخری وزیرخزانہ شوکت ترین ایک خیالی دنیا کی تصویر پیر کرتے رہے عمران خان ہر چیز مسترد کرکے یک جماعتی آمریت کی طرف چل رہے تھے وہ پارلیمان آئین اورآئینی اداروں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے وہ اپنے جنوبی کلٹ کے جومٹ میں رہتے تھے اور ان کی کچن کابینہ انہیں 2028ء تک کے منصوبے بتاتی تھی لیکن اچانک وہ سرپرستی سے محروم ہوگئے ان کا سارا گندبلا ایک نئی حکومت پر ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا مشکل یہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں سردست تو انہوں نے منی لانڈرنگ کیس میں اپنے آپ کو این آر او دیدیا ہے فوری تبدیلی کیوں آئی اسکے بارے میں بلاول بھٹو نے نیا انکشاف کردیا ہے ان کے بقول تبدیلی سے ایک رات پہلے انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ ہمارے کہنے پر الیکشن مانو ورنہ مارشل لاء کیلئے تیار ہوجاؤ اس دھمکی کے بعد کوئی چارہ نہ تھا کہ عمران خان کاسارا بوجھ اپنے سرلیاجائے ادھر مریم نے یہ معصومانہ خواہش ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ نوازشریف کو دوتہائی اکثریت دی جائے یعنی جس طرح عمران خان مکمل اختیار چاہتے تھے اب ن لیگ بھی وہی چاہتی ہے لیکن زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں اگر عمران خان کو اپنے سائز پر نہیں لایاگیا تو تین بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کو دوتہائی اکثریت نہیں ملے گی زیادہ امکان یہی ہے کہ پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر آئے گی پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے کیلئے تحریک انصاف اور ن لیگ کو سرتوڑ کوشش کرنا پڑے گی اگر عمران خان کا غیر ملکی سازش اور غلامی والابیانیہ زور ہوا تو وہ سنگل لارجسٹ پارٹی ہوگی لیکن اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی لیکن انتخابات نگران حکومت اور پارٹی پوزیشن اس وقت طے ہوگی جب ریاست کی وحدت اور یک جہتی باقی رہے گی پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت شکر ادا کرے کہ اس وقت کوئی ایسی دشمن طاقت موجود نہیں جو ملک کی سلامتی کے نقصان سے دوچار کردے ورنہ انارکی اورخانہ جنگی کی فضا میں کچھ بھی ہوسکتا تھا اور سب باتیں ایک طرف پاکستان کے سیاسی وغیرسیاسی قیادت یہ تسلیم کرے کہ وہ ملک چلانے میں بری طرح فیل ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں پاکستان کوایک ٹیم ناکام ریاست کے طور رپ دیکھاجارہا ہے یہ لیڈران کرام وہی کچھ کررہے ہیں جو نواب واحد علی شاہ کے روسا لکھنؤ اور اودھ میں کرتے تھے یہ سارے کے سارے لوگ بے نقاب ہوچکے ہیں اور اس طرح بے نقاب ہیں کہ کسی کے تن پر کوئی پارچہ باقی نہیں رہا۔