ڈرامہ کا کلائمکس

تحریر: انورساجدی
لگتا ہے کہ جو نیا ہائی ڈرامہ شروع ہوا ہے اس کا باقاعدہ ایک اسکرپٹ ہے حالانکہ بظاہر ایسے دکھائی دیتا ہے کہ جو کچھ اسٹیک ہولڈرز کررہے ہیں وہ اچھے خاصے ”شمس الجہلا“ دکھائی دیتے ہیں گیم ایسی ہے کہ سمجھ سے بالاتر ہے سوال یہ ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو عدم اعتماد کی تحریک کیوں لائی گئی اور کامیاب کروائی گئی بلکہ اس حد تک اہتمام کیا گیا کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نصف شب کو کھوتی گئیں اور عدالت عظمیٰ کے ہی حکم پر ووٹنگ کروائی گئی اب کافی کچھ بدلا بدلا نظر آرہا ہے اور شک ہے کہ عمران خان کی پونے چارسالہ ناکامیوں کو چھپانے اور انہیں نئی سیاسی زندگی بخشنے کیلئے بڑے بڑے ڈرامے رچائے گئے یہ تو معلوم نہیں کہ ڈرامہ کے اسکرپٹ میں کیالکھا ہے لیکن چند روز میں عمران خان اپنے جلسوں میں فوج اور عدلیہ سے باقاعدہ فرمائشیں کررہے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر شریف خاندان کے کرپشن کے کیسز سنے اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے مقدمات میں تفتیشی افسران کے ردوبدل کا از خود نوٹس لے لیا سووموٹو کی سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ نیب اور ایف آئی اے میں تبادلے روکے جائیں نہ جانے اس کے بعد کیا کچھ ہوگا کیونکہ سیاسی لڑائی کی وجہ سے بے شمار آئینی معاملات اعلیٰ عدالتوں میں آئیں گے حتیٰ کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ گورنر اور اسپیکر کامسئلہ بھی عدالتوں میں جاچکا ہے سپریم کورٹ نے63اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا جو فیصلہ دیا ہے اس کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو جائیگا جس سے وزیراعلیٰ حمزہ شریف خطرے میں پڑ گئے ہیں ادھر بلوچستان میں جو تحریک عدم اعتماد وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کیخلاف پیش کی گئی ہے یہ بھی کوئی آسان مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس تحریک کی وجہ سے باپ پارٹی دوحصوں میں تقسیم ہوگئی ہے اگر یہ تقسیم مرکز میں بھی ہوئی تو شہباز شریف کی حکومت شدید خطرے سے دوچار ہوجائیگی کیونکہ اسکی اکثریت محض دو ووٹوں پرقائم ہے اگر باپ کے دو اراکین منحرف ہوگئے تو یہ حکومت تو گئی قومی امکان ہے کہ صدر عارف علوی کسی وقت بھی وزیراعظم شہبازشریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں اگر وہ اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو انہیں گھر جانا پڑے گا یعنی پوری مخلوط حکومت ختم ہوجائے گی جس کے بعد اسمبلیاں توڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا اگر ایسا ہوا تو یہ کپتان کے اصل مطالبہ کی تکمیل ہوگی کیونکہ ان کی عوامی تحریک جلد انتخابات کیلئے ہے وہ جمعہ کو ملتان میں ہونیوالے جلسہ عام میں اسلام آباد مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے گوجرانوالہ کے جلسہ میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انکے مارچ میں فوجی خاندانوں کے افراد بھی شامل ہونگے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس بات کو فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے عمران خان اس وقت جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک بدمست ہاتھی کی مانند ہیں وہ کھلے عام سیاسی مخالفین کے علاوہ اداروں کو بھی دھمکیاں لگارہے ہیں ایک پاکستانی صحافی نے گزشتہ دنوں اسرائیل کا دورہ کیا وہاں کے صدر سے ملاقات کی اور پارلیمنٹ ہاؤس کا دورہ کیا اس نے دعویٰ کیا کہ وفد میں شامل ایک پاکستانی یہودی کو وزیراعظم کے حکم پر پاسپورٹ جاری کیا گیا اور اس میں اسرائیل کا اندراج کیا گیا صحافی کے اعترافی بیان کے بعد تحریک انصاف کی لیڈر شیریں مزاری نے کئی دھمکیاں دیں اور کہا کہ اس مسئلہ کو عمران خان سے جوڑ کر ان کیخلاف سازش کی جارہی ہے عجیب بات ہے کہ کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اس کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اگر چہ یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر صحافی نے وزیراعظم کی اجازت سے اسرائیل کا دورہ کیا ہے تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ایک طرف وہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگارہے ہیں اور دوسری جانب وہ اسرائیل سے راہ ورسم بنارہے ہیں حال ہی میں یروشلم میں نوجوانوں یہودیوں نے ایک مظاہرہ کیا وہ ہاتھوں میں جو پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے ان پر تحریر تھا کہ مدینہ اور یروشلم ہمارے تھے اور ہمارے رہیں گے یہ الگ بات کہ عرب ممالک کو ایسی باتوں کی پرواہ نہیں ہے بلکہ اکثر چیدہ چیدہ عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرلئے ہیں مطلب یہ ہے کہ عمران خان پہلے تو لاڈلے تھے لیکن تبدیل شدہ حالات میں انہیں پہلے سے زیادہ لاڈپیار کیاجارہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی ادارے ان کے حق میں ماورائے آئین فیصلے کررہے ہیں اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے تفتیشی ادارہ کا کردار ادا کیا ہے جیسے کہ پانامہ کیس میں لیکن موجودہ دور میں حکومتی کاموں میں مداخلت کا مطلب یہی ہے کہ یہ حکومت آزادانہ فیصلے نہ کرسکے یہ بالکل اسی طرح کا ایکٹ ہے جو افتخار محمد چوہدری نے زرداری حکومت کے ساتھ کیا تھا چوہدری صاحب نے ایک دن بھی زرداری حکومت کو چلنے نہیں دی۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ملکی معیشت ڈوب چکی ہے ڈالر کی قدر2سو روپے بڑھ گئی ہے دوست ممالک نے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا ہے لیکن اقتدار کی لڑائی اور سیاسی وادارتی بالادستی کی جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اگر ان نازک حالات میں موجودہ حکومت کو بے عزت کرکے نکالا گیا یا کام کرنے نہیں دیا گیا تو ملک کیسے چلے گا معیشت کیسے سنبھلے گی اور بجٹ کیسے پیش ہوگا اگر تمام رعایتیں عمران خان کیلئے ہیں تو عدالت سے رجوع کیاجائے کہ عمران خان کو بطور وزیراعظم بحال کیا جائے اتنے ہائی ڈرامہ کی کیا ضرورت ہے عمران خان کی اتنی طاقت ہے کہ اس کے کارکن اور رہنما باقاعدہ وال چاکنگ کرکے اداروں کیخلاف نعرے لکھتے ہیں ایک پارٹی لیڈر جبران ناصر کی باقاعدہ یہ وڈیو آگئی ہے کہ وہ دیواروں پر نعرے لکھ کر انکو کالا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اتنی دہشت ہے کہ سارے ادارے خوفزدہ ہیں اب تو وہ باقاعدہ جلسوں میں سب کو ڈکٹیٹ کررہے ہیں چند روز قبل انہوں نے ایف آئی اے کے افسر کو دل کا دورہ پڑنے کی بات کی تھی ان کی اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے مقدمات کی تفتیش کرنے والے افسران کے تبادلوں پرپابندی لگادی ہے یہ جو وہ مارچ میں فوجی خدانوں کی شمولیت کی بات کررہے ہیں یہ بھی ایک طرح سے دھمکی ہے کہ فوجی خاندان ان کے ساتھ ہیں خیر یہ کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ پاکستان کے آدھے لوگ ان کے ساتھ ہیں ان کی سیاسی تحریک تبلیغ کی قوت اور سوشل میڈیا کی طاقت نے پورے سماج کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے یہ تقسیم ہر جگہ ہر ادارہ اور حساس مقامات پر نظر آتی ہے عوامی حمایت یا سرپرستوں کی بدولت وہ بلاخوف آگے بڑھ رہے ہیں ان کے اداروں سے ظاہر ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار سے کم کوئی چیز قبول نہیں کریں گے مثال کے طور پر الیکشن کمیشن اپنی مرضی کا چاہتے ہیں انتخابات بھی وہ چاہتے ہیں جس میں انکو اکثریت حاصل ہوجائے اگر وہ ہار گئے تو اپنی ہار نہیں مانیں گے اور فوری طور پر سڑکوں پر آجائیں گے ان کے پاس وسائل اتنے ہیں کہ صرف ایک جلسہ کی لائٹنگ پر65لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں جلسوں پر کل کیا خرچ آتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یعنی تحریک چلانے اور ہار نہ ماننے کیلئے ان کے پاس اربوں روپے کے وسائل موجود ہیں اوورسیز پاکستانی دل کھول کر انہیں بھاری رقومات بھیج رہے ہیں کوئی دو روز قبل ان کے ایک قریبی ساتھی نے انکشاف کیا ہے کہ بنی گالا کامحل ایک بینک ہے جس میں اربوں روپے رکھے ہوئے ہیں عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی اس مبینہ بینک کی تصدیق کی ہے لیکن کسی میں جرأت نہیں کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے۔
حکام بالا نے جو اسکرپٹ تیار کیا ہے اس کا کلائمکس جلد آنے والا ہے شہباز حکومت کے دانت نکال دیئے گئے ہیں یہ کمزور حکومت تادیر نہیں چل سکتی اگر اسے بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا تو یہ غنیمت ہے ورنہ بجٹ کے بعد انتخابات کا اعلان ناگزیر ہے اگر حکومت نے لیت ولعل سے کام لیا تو اسے بری طرح سے بے عزت کرکے چلتا کردیا جائیگا بہانہ یہ ہوگا کہ معیشت کو چلانے کیلئے معاشی ماہرین پر مشتمل حکومت اہم قومی ضرورت ہے اپنے حفیظ شیخ تو کہیں نہیں گئے انہوں نے پوری نگراں کابینہ فائنل کرلیا ہے بس یہ اتنا اہتمام ضروری ہے کہ پاکستان سری لنکا نہ بن جائے سری لنکا کے وزیراعظم نے گزشتہ ہفتہ اہم ممالک کے سفیروں کو بلاکر باقاعدہ ”بدھا“ کے نام پر بھیک مانگی لیکن ابھی تک کسی ملک نے رحم کھاکر کوئی بھیک نہیں دی اس طرح بحرہند کایہ موتی نااہل حکمرانوں کی وجہ سے اس حال پر پہنچا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں