اشرافیہ کی لڑائی کہاں جاکر رکے گی

تحریر: انورساجدی
عمران خان کا آزادی مارچ ہودھرنا ہو اداروں کے درمیان کشیدگی ہو یا ایگزیکٹو اور پارلیمان کے اختیارات عدلیہ اپنے ہاتھوں میں لے جو کچھ بھی ہو اس کا سیدھا سادا معنیٰ یہ ہے کہ اشرافیہ اقتدار اور مفادات کی خاطر ریاست کو چلنے نہیں دے رہی ہے اور اسے قطعی پراہ نہیں کہ پاکستان سری لنکا بنتا ہے یا صومالیہ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
بھولا صحافی مطیع اللہ جان نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور عدلیہ ایک پیج پر آگئے ہیں
ادھر پنجاب میں بھی خوب دھماچوکڑی ہے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ تومجھے مار اور میں تجھے ماروں کپتان نے اپنے تاریخی مارچ اور دھرنے سے قبل اسدعمر کے ذریعے پیغام بھیجا ہے کہ اگر کپتان کو گرفتار کیا گیا تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے یعنی کپتان اگر خونی مارچ کی دھمکی دے انقلاب کی دھمکی دے تمام اداروں کوگالیاں دے قانون اپنے ہاتھوں میں لے تو بھی وہ قانون سے بالاتر ہے۔
ایک طرف کپتان کہتے ہیں کہ انہیں جان کی بھی پرواہ نہیں اور دوسری جانب انہوں نے پشتونخوا سے 2ہزار کمانڈو بنی گالا بلالئے ہیں جنہوں نے وسیع عریض محل کے اطراف میں اپنے کیمپ قائم کردیئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف گرفتاری کیخلاف مزاحمت کاارادہ رکھتے ہیں اگر مزاحمت سادہ ہو اور بندوق کے بغیر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر بندوق بردار یوتھیاز اور پولیس کے درمیان مسلح تصادم ہوا تو اس کا بہت ہی بھیانک نتیجہ نکلے گا کپتان ملتان میں جلسہ سے خطاب کے بعد سیدھے بنی گالا جائیں گے اور قافلوں کے دارالحکومت پہنچنے تک وہیں مقیم رہیں گے کیونکہ یار لوگوں نے انہیں خوفزدہ کردیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اسی اثناء شاہ محمود قریشی نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ اگر حکومت نے عمران خان کو گرفتار کرلیا تو ملک بھر کے لوگ سڑکوں پر نکلیں شاہراؤں سڑکوں بلکہ ہر جگہ دھرنے پربیٹھیں تاکہ پورا ملک جام ہوسکے۔
اقتدار کی جو یہ جنگ ہے غالباً یہ 1971ء کے بعد سب سے سنگین جنگ ہے1971ء میں بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی رولنگ ایلیٹ کا دماغ کام نہیں کررہا تھا ایک مخبوط الحواس شخص صدر اور کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائز تھا اس کی خواہش تھی کہ عام انتخابات کے بعد بھی وہ صدر کے عہدے پر فائز رہے چاہے اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنا پڑے یہی وجہ ہے کہ اس نے قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کرنے کے باوجود عین اجلاس کے دن فوجی آپریشن شروع کردیا یہ آپریشن 16دسمبر تک جاری رہا اس دوران پاکستان کی پوری سیاسی وعسکری قیادت فیل ہوگئی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کوحل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی مغربی پاکستان کی پوری ایلیٹ کا تقریباً متفقہ فیصلہ دیا تھا کہ اقتدار کسی صورت میں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان منتقل نہ کیاجائے ایلیٹ کے بھونڈے دلائل تھے کہ شیخ مجیب وفاقی کیپٹل راولپنڈی سے ڈھاکہ منتقل کریں گے جی ایچ کیو بھی ڈھاکہ چلا جائیگا اسٹیٹ بینک اور کمرشل اداروں کے صدر دفتر بھی کراچی سے ڈھاکہ چلے جائیں گے اگر ایسا ہوجاتا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑتی آخر ملک کی اکثریت مشرقی پاکستان میں رہتی تھی تو سیاست اور اختیار کامرکز بھی اسی کو ہوناچاہئے تھا لیکن کوئی نہیں مانا بلکہ پاکستان اس وقت دولخت ہوگیا تھا جب25مارچ کی رات کو جب مغربی پاکستان کے سپاہیوں نے ملک کے سب سے بڑے اور منتخب لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو تھپڑ مارے تھے۔
آج کی جو لڑائی ہے یہ بھی اقتدار کی ایسی جنگ ہے لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے جو سابقہ مغربی پاکستان ہے اس کی جگہ سب سے بڑے صوبے پنجاب نے لے لی ہے کیونکہ وہ آبادی کا60فیصد ہے اگرچہ گزشتہ مردم شماری انجینئرڈ اور فراڈ تھا اور بہر حال اس کے مطابق پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے ریاست کا کیپیٹل بھی پنجاب میں واقع ہے فوج کا ہیڈ کوارٹر بھی پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ہے ملک کے تمام محاصل اکھٹے ہوکر اسلام آباد جاتے ہیں اور وہاں سے60فیصد پنجاب کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں جبکہ قدرتی وسائل کا 80فیصد حصہ سندھ اور بلوچستان میں ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں پنجاب ایلیٹ نے اپنے سب سے بڑے حریف سے جان چھڑائی تھی لہٰذا اس کے بعد تو اس کا حق بنتاتھا کہ وہ باقی صوبوں یا ملک پر حکمرانی کرے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ملک ٹوٹنے کے وقت سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی تھی۔جس کا سربراہ ایک سندھی تھا سقوط ڈھاکہ کے بعد چونکہ اشرافیہ پھنس چکی تھی اس لئے انہوں نے بچے کچھے ملک کا اقتدار بھٹو کے حوالے کردیا بھٹو نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور صرف دوسال میں معیشت کو بحال کردیا ریاست کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیا وہ اس وقت پنجاب کے ”ہولی سولی“لیڈر تھے لیکن اسی دوران جماعت اسلامی جس کی تنظیم الشمس اور البدر نے مشرقی پاکستان اور خاص طور پر ڈھاکہ میں خونی ڈیتھ اسکواڈ کا کردار ادا کیا تھا اس نے اداروں کے ساتھ ایک پیج پر آکر کہنا شروع کردیا کہ شرابی کبابی یحییٰ خان ملک ٹوٹنے کے ذمہ دار نہیں تھے بلکہ اس کے اصل ذمہ دار بھٹو تھے جب1973ء کا آئین بنایا جو بڑے صوبہ کے مفادات کا آئینہ تھا تو اس پروپیگنڈے کو تیز کردیاگیا۔آہستہ آہستہ بھٹو کو نجات دہندہ سے ولن بنانا شروع کردیا گیا اس کے باوجود کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی اور دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تھی لیکن اشرافیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بھٹو پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے تھے 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد وہ وزیراعظم منتخب ہوئے یہ وہ زمانہ تھا کہ یو پی سی پی سے آنے والے اردو مہاجرین اور مشرقی پنجاب سے آنے والے پنجابی اشرافیہ ایکتا کرکے پارٹنر بن گئے چونکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور16دسمبر کے سرنڈر کے زخم تازہ تھے اس لئے اس کا بدلہ لینے کیلئے بھٹو کے ذریعے بلوچستان پر فوج کشی کی گئی بجائے کہ انڈیا سے بدلہ لیا جاتا اپنے ہی ملک کے غریب لوگوں پر ہلہ بول کر گویا ملکی سا لمیت کو مضبوط کیا گیا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایلیٹ نے فوجی کمانڈر ضیاؤ الحق کے پاؤں پکڑ کر اسے آمادہ کیا کہ وہ بھٹو کا قصہ تمام کردے۔
مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے مطابق امیر جماعت میاں طفیل محمد ضیاؤ الحق کے قدموں میں پڑے تھے کہ بھٹو کا قصہ ختم کرنے سے پہلے انتخابات نہ کروائیں
بھٹو کی پھانسی کے بعد مشرقی پنجاب کی ایلیٹ نے فوجی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا حالانکہ ضیاؤ الحق تو جالندھر سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے اباؤ اجداد اور خاص طور پر سسرال کا تعلق ہندوستان کے متحدہ صوبہ یعنی یوپی سے تھا ضیاؤ الحق کی اہلیہ کی کزن بیگم پارہ اور ان کا پورا خاندان آج بھی انڈیا کے شہری ہیں۔ضیاؤ الحق وقتی طور پر بھٹو کے اثرات ذائل کرنے اور صوبہ سندھ کو پیچھے دھکیلنے کی خاطر صوبہ سرحد کو اپنا جونیئرپارٹنر بنالیا جبکہ انہوں نے لسانی تنظیم ایم کیو ایم کی بنیاد بھی رکھی یہ مارشل لاء دراصل ایک اور قسم کا فوجی انقلاب تھا جو مقصد لیاقت علی خان کے راولپنڈی میں قتل خواجہ ناظم الدین اور سہروردی کو کھڈے لائن لگانے سے حاصل نہیں ہوا تھا ضیاؤ الحق نے اقتدار پر قبضہ کے بعد حاصل کرلیا انہوں نے بڑی خوبصورت منصوبہ بندی کرکے پنجاب کو مشرقی پنجاب اور کشمیر مہاجرین کے حوالے کردیا جبکہ سندھ کے شہری علاقوں کو اردو مہاجرین کے قبضہ میں دیدیا یہ دراصل ایک ایسی مراجعت تھی کہ جس سرزمین کانام پاکستان ہے اس کے مقامی لوگوں کو اقتدار اور وسائل سے محروم کردیا گیا آج بھی پنجابی ایلیٹ وہاں کے فرزند زمین باشندوں کو چوڑے چمار کمی کمین اور نہ جانے کیا کیا نام دیتی ہے ضیاؤ الحق نے غیر جماعتی الیکشن کا ڈھونگ رچاکر پنجاب میں ایک نئی قیادت متعارف کروادی جس کی کمان نوجوان نوازشریف کو سونپ دی گئی وہ پہلے1983ء میں وزیر1985ء میں وزیراعلیٰ اور 1990ء میں وزیراعظم بن گئے ضیاؤ الحق اور ان کے ساتھیوں کا سلوک جنوبی پنجاب کے ”آدے واسیوں“ کے ساتھ صحیح نہیں تھا انہوں نے ملتان میں روہتک اور حصار سے آنے والے لوگوں کی دستگیری کی جبکہ بہاولپور اور بہاول نگر کے آرائین اس کی جان تھے ضیاؤ الحق کسی لگی لپٹی کے بغیر پاکستان کا صدر ہونے کے باوجود انجمن آرائیں کے سرپرست بن گئے انہوں نے کوئٹہ کے حلوائی چوہدری محمدحسین کو حکم دیا تھا کہ وہ سارے پاکستان کے آرائیوں کی تنظیم بنادے ضیاؤ الحق اتنے نسل پرست اور علاقہ پرست تھے کہانہوں نے سارے اہم عہدوں پر جالندھرسے آنے والوں کو تعینات کردیا تھا ان کے وزیراطلاعات جنرل مجیب الرحمن اور ان کے بھائی آئی جی حبیب الرحمن جالندھری تھے انہوں نے مولوی مشتاق کو لاہور ہائی کورٹ اور انوارالحق کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا ان کے علاوہ بھی بے شمار جالندھری ان کی ٹیم میں شامل تھے۔
ضیاؤ الحق کے بعد جو آنکھ مچولی ہوئی وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن طاقت کے عناصر نے2014ء میں عمران خان کا جوانتخاب کیا ان کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ تھی کہ ان کے ننھیال کا تعلق جالندھرسے تھا۔
یہ جو اقتدار کی وموجودہ جنگ ہے یہ رولنگ ایلیٹ کے درمیان ہے لیکن ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ یہ جو ہمارا حاکم یاآقا ہے یعنی پنجاب اس کے لوگوں میں نہ دوستی کا سلیقہ ہے اور نہ دشمنی کا ڈھنگ ہے پنجاب نے تاریخ میں صرف پہلی اور آخری بار راجہ رنجیت سنگھ سندھو کے ذریعے حکومت کی ہے انگریزوں کے مطابق پنجابی اچھے ماتحت واقع ہوئے ہیں یعنی وہ حکمرانی کے قابل نہیں ہیں انہیں احکامات بجالانے کا ہنر آتا ہے لیکن اس وقت حقیقت یہی ہے کہ پاکستان پر ان کی حکمرانی ہے اور انہوں نے وارے نیارے ہونے کے بعد پختونخوا کو بھی پارٹنر شپ سے ہٹادیا ہے۔
چونکہ ہم لوگ کسی گنتی میں نہیں ہیں لیکن کھیل کا حصہ ہیں لہٰذا تین غلام صوبوں کو چاہئے کہ وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہوں باقی یہ ایلیٹ کی مرضی کی وہ اپنی ریاست کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں اسے ایک خوشحال ریاست بنائیں یا نہ بنائیں وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں