انوکھا لاڈلہ

تحریر۔۔۔انور ساجدی
عمران خان نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا یہ انوکھا مطالبہ کیا ہے کہ6دن کے اندر چاند کو نیچے اتار کر ان کی ہتھیلی پر رکھ دیاجائے ورنہ وہ اپنا لاؤ لشکر دوبارہ اسلام آباد لے آئیں گے مطالبہ کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ عام انتخابات جون میں کروائے جائیں کپتان نے اعتراف کیا کہ اس مرتبہ ان کی تیار پوری نہیں تھی اگلی بار وہ پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ ہمیں مکمل تحفظ فراہم کرے گی خیر تحفظ تو اس مرتبہ بھی فراہم کیا گیا تھا لیکن لوگ بڑی تعدادمیں باہر نہیں نکلے حالانکہ کپتان نے25لاکھ لوگ لانے کا دعویٰ کیا تھا کپتان کی پریس کانفرنس کیا تھی ناکامیوں اور محرومیوں کا اعتراف تھا یہ بھی کہا کہ حکومت کی تیاری زیادہ تھی اور ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس کا پلان کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ فوج سے ان کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے تاہم فوج درمیان میں پڑی ہے تو ہمیں جلد انتخابات چاہئیں اس سے ان اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کسی کے کہنے پر عمران خان نے ڈی چوک جانے سے گریز کیا اور جلدی جلدی خطاب کرکے چلتے بنے انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے کم از کم 20ہزار لوگوں کو بے یارومددگار چھوڑدیا معلوم نہیں کہ یہ بے چارے کیسے واپس گئے ہونگے بات سیدھی ہے کہ عمران خان فوج اور عدلیہ کے سامنے سپاس گزارہیں کہ انہیں دوبارہ اقتدار میں لایاجائے موصوف نے مذاکرات پر بھی آمادگی طاہر کرتے ہوئے شرط رکھی کہ صرف جون میں الیکشن کے مسئلہ پر ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ پر امن احتجاج کی خاطر انہیں تحفظ فراہم کیاجائے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اگر ایک شخص چند ہزار افراد کو لیکر حکومت کا تختہ الٹنے دارالحکومت پرچڑھائی کرے تو سپریم کورٹ انہیں تحفظ فراہم کرے بے شک وہ اسلام آباد آکر گھیراؤ جلاؤ کرے املاک کو نقصان پہنچائے اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو کیا سپریم کورٹ حکومت کے ہاتھ پیر باندھ کر حکم دے گی کہ عمران خان جو بھی کرے ان سے کچھ نہ پوچھا جائے اگر عمران خان کے بنیادی حقوق ہیں تو حکومت کے نہیں ہیں آئین کے تحت کسی کو یہ اختیار نہیں دیاجاسکتا وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ خون خرابہ سے بچنے کیلئے وہ ڈی چوک نہیں گئے سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی وہ جب اگلی بار حملہ آور ہوں تو خون خرابہ نہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ آزادی مارچ کی ناکامی نے سیاسی اعتبار سے عمران خان کو شدید دھچکہ دیاہے اس ناکامی کی وجہ عمران خان کی خوش فہمی تھی انہوں نے عوام کی موبلائزیشن اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات کئے بغیر صرف اپنے حکم کو کافی جانا کہ لوگ ان کی اپیل پر چل پڑیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا لاہور اور پنجاب کے بیشتر بڑے شہروں سے تحریک انصاف کی قیادت عوام کو باہر لانہ سکی بلکہ خود بھی باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکی لہٰذا اپنی ناکامی کو دوسروں کے سرتھوپنا کوئی عقلمندی نہیں ہے عمران کو چاہئے کہ وہ اپنے بیانیہ اپنے سیاسی فلسفہ اور تحریک کے خدوخال پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کریں حکومت میں آنے سے پہلے اور پونے چار سال تک حکومت کرنے کے دوران انہوں نے بڑے یوٹرن لئے ہیں اور سیاسی مقاصد کی خاطر بار بار پینترے بدلے ہیں انہوں نے سیاسی اختلاقیات کا دیوالیہ نکالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے عمومی طور پر یہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی فوائد کی خاطر کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے منفی بیانیہ کے ذریعے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سبق دیا ہے کہ سیاسی مخالفین ذاتی مخالفین ہوتے ہیں اور ان پر ہر طرح کا حملہ کرنا جائز ہے اسی لئے انہوں نے اپنے مخالفین کو اخلاقیات سے گرے ہوئے القابات سے نوازا اور ایسے ریمارکس دیئے جو ادب آداب کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
اب جبکہ شہبازشریف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ ایک سال کی مدت پوری کرے گی تو خان صاحب یہ سن کر آگ بگولہ ہوگئے ہیں انہوں نے پشاور کی پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کسی قیمت پر موجودہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے اور اس کے خاتمہ تک جہاد جاری رکھیں گے اقتدار سے محرومی کے بعد جو صورتحال ہے وہ ان کی برداشت سے باہر ہے اس صورتحال میں ان کا اضطراب اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے جب کسی لیڈر کا یہ عالم ہو تو وہ صحیح فیصلے نہیں کرسکتا جیسے کہ انہوں نے حالیہ آزادی مارچ کا فیصلہ کیا جو بدترین ناکامی سے دوچار ہوا غالباً یہ پہلاموقع ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی دقعت کم ہوگئی البتہ یہ بات درست ہے کہ جن عناصر نے ان کو قیمتی قومی اثاثہ بنایا ہے وہاں اب بھی ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اس لئے جب مشکل وقت آئے تو وہاں پر مدد کیلئے آواز لگاتے ہیں اکثر انکو کمک بھی آجاتی ہے مارچ سے پہلے جو مذاکرات ہوئے اس کا واضح ثبوت ہے اسی طرح وہ واحد لیڈر ہیں جو اپنے مطالبات سپریم کورٹ کے سامنے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہ عدالت عظمیٰ نہ ہو کوئی وزارت قانون ہو ان کا یہ مطالبہ عجیب وغریب ہے کہ وہ حکومت ہٹانے کیلئے جب اسلام آباد آئیں گے تو سپریم کوڑٹ ان کو تحفظ دیں جیسے سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ عدالت نہ ہو تحریک انصاف کی طرفدار ہو اس طرح عمران خان سارے اہم اداروں کی توہین کا ارتکاب کررہے ہیں اور یہ تاثر مضبوط کررہے ہیں کہ پاکستان میں انصاف کا دوہرا معیار ہے ایک مخصوص علاقہ کے بارے میں فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں اور باقی علاقوں کے بارے میں اور مثال کے طور پر سندھ بلوچستان اور فاٹا کے لوگ اپنے بنیادی انسانی حقوق کیلئے کافی عرصہ سے دہائی دے رہے ہیں لیکن نہ اداروں میں ان کی شنوائی ہوتی ہے نہ اعلیٰ عدالتیں ان کی داد رسی کرتی ہیں اس وقت حکومت بلوچستان اور فاٹا میں بنیادی انسانی حقوق کو جس بے دردی کے ساتھ کچل رہی ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی زندگی سے دور اور موت سے قریب جانے پر مجبور ہیں اگر شیریں مزاری گرفتارہوجائیں تو نصف شب کو انہینانصاف مل جاتا ہے لیکن بلوچستان کی خواتین کو یہ فضیلت حاصل نہیں کہ انہیں جائز طور پر انصاف فراہم کیاجائے مسنگ پرسنز کا معاملہ ہو خواتین کی جبری گرفتاری ہو یا کچھ اور ان مظلوم لوگوں کی بات کوئی سننے کوتیار نہیں۔
حال ہی میں پریس کلب کے سامنے دو خواتین کو پریس گرفتار کرکے لے گئی کیا ان کے بنیادی حقوق نہیں تھے یا بحیثیت خاتون ان کی کوئی عزت نہیں تھی ایسے لگتا ہے کہ چادر اور چاردیواری کی پامالی ایسی اصطلاع ہے جو بلوچستان میں روبہ عمل نہیں ہے عمران خان نے سپریم کورٹ سے مدد کی درخواست تو کی ہے بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ وہ سپریم کوڑٹ سے مطالبہ کریں کہ انہیں دوبارہ بحال کیاجائے۔
بہرحال انصاف کایہ دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا اور انصاف کی فراہمی کو یکسان لاگو کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں