طبقاتی نظام کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کا کردار

تحریر۔۔۔۔۔قسیم احمد
25 جنوری 2020 کی سرد رات اور اس جوڑی تلخ یادیں شاید آج بھی ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہوگی جب ٹی وی چینلز پر خبر چلی کے دانش ،ڈرامہ سیریل "میرے پاس تم ہو” کے مرکزی کردار حرکت قلب کی بندش سے ڈرامے میں اس وقت فوت ہوئے جب اس کے اور اس کے سابقہ دو ٹکے کی بیوی کے درمیان سرد مہری ٹوٹ گئی ( انا للہ و انا الیہ راجعون ) یہ خبر واقعی پاکستانی عوام کیلئے کسی عظیم صدمے سے کم نہیں تھا جب ہم ڈرامے میں ایک عظیم شخصیت کے کردار سے محروم ہوئے
میڈیا مالکان سے البتہ یہ شکوہ ضرور تھا کہ زبردست کوریج نہ ملنے پر حکومت نے قومی احساسات اور جذبات کے برعکس حکومتی سطح پر کسی سوگ کا اعلان نہیں کیا پر میں اس شکوے کو نا شکرہ پن سے تشبیہ دیتا ہوں جو ہم پاکستانیوں کی فطرت میں موجود ہے میڈیا کے ذمے اور ذمہ داریاں بھی تو سپرد ہیں کونسی خبر قابل تشہیر ہے یہ کام تو ان کو اپنے صوابدید پر کرنا ہے غیر ضروری خبریں جیسے پیرکوہ ڈیرہ بگٹی میں سسکتی انسانیت کا بوند بوند پانی کیلئے ترسنا ،صحرا چولستان میں دھوپ برساتی سورج اور قلت اب سے انسانوں اور جانوروں کی ہلاکت،شیرانی اور ژوب کی جنگلات کا جل کر راکھ میں تبدیل ہونا ،سندھ کی صحرائے تھر میں ہر سال زندگی کی بنیادی ضروریات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں خودکشی کے واقعات ، کو تو نشر کرکے سکرین کی زینت نہیں بنا سکتے اور نہ ہی ان جیسی نیچلے طبقے کے بے معنی خبروں سے خواب خرگوش کے مزے لینے والے حکمرانوں کو جگا سکتے ہیں بات جب لائق تشہیر ہوتی ہے تو پھر سرحد پار ہمارے ازلی دشمن انڈیا کے گلوکارہ لتا منگیشکر کی موت کئی گھنٹوں تک شہ سرخیوں رہ سکتی ہے سنیٹر عثمان کاکڑ نے خود گھم کھاتے کی بات کی تو ان ان کی موت نے بھی گھم کھاتے میں ہی رہنا تھا ،سرحد پار کے فلمی ستارے ویکی کوشل اور کترینہ کیف کی شادی کو ہیڈلائنز میں جگہ مل سکتی ہے مگر بلوچ بہنوں اور ماووں کی چیخ و پکار کو نہیں ،ٹک ٹاکر ڈولی کی ویڈیو میں دیکھی جانے والی آگ کی خبر عدالت تک پہنچ سکتی ہے میڈیا کے ذریعے لیکن شیرانی کی جنگلات سے اٹھنے والی دھواں کسی کو دیکھائی نہیں دیتا کیونکہ جھوٹ اور سچ ،سیاہ اور سفید ، اہم اور غیر اہم بننے کا محور ذرائع ابلاغ کے گرد گھومتا ہے جن پر با اثر طبقے کا اثر ہے ان کا کتا بھی بھی بیمار ہو تو طوفان اجاتا ہے ہمارے خون کا سیلاب بھی آئے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ان کا باہر ملک سفر پر پابندی لگے بھی نظام معطل ہوجاتا ہے ہمارا واحد سرکاری جامعہ کئی مہینوں تک بند رہے تو کسی کو پرواہ نہیں وجہ صرف ایک ہے نیچلے طبقے سے تعلق جو ہے تبھی تو میڈیا کو بھی ہمارے مسائل سے کوئی سروکار نہیں
میں اس بات کا ایک بار پھر برملا اقرار کرتا ہوں کے ڈرامے میں دانش کی موت یقینا ایک عظیم صدمہ تھا پر میرے لئے ایک حد تک معمولی تھا اگر اپ حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہو تو اس جسے کئی واقعات، جنہیں دیکھ کر اعصاب شل ہوجاتے ہیں، دیکھنے کو ملیں گے جی ہاں حیدر آباد میں گدھا کرنٹ لگنے سے جان بحق ہوا ، خاتون مالک نے اپنی بلی کے قتل میں ملوث مشکوک افراد پر مقدمہ درج کیا فلاں ہوٹل کے کمرے سے چوہا برآمد ہوا اب گدھا جو اہم قومی سرمایہ اور اساسہ سمجھا جاتا ہے ،جناب مآب کا یو انسانی غفلت سے مرنا میرے جیسے محب وطن کیلئے ناقابل فراموش اور میڈیا کیلئے قابل اشاعت خبر ہےاور پھر جس شہر سے تعلق تھا اس کا بھی لحاظ تو رکھنا تھا یہ تو خیر سے انہونی خبریں تھی دیگر اہم قومی خبریں جنہیں اگر صبح شام نشر نہ کی جائے تو 22 کروڑ عوام کو بے خبری اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کا مترادف سمجھا جائے گا اس ان کو خاص و عام تک پہنچانا میڈیا کی اولین ترجیح ہے ان میں عمران خان کی تسبیح ، مریم کی ہاتھ پہنی گھڑی کی قیمت ، بلاول کی اردو ، مولنا کی پی جانی والی لسی کا تخمینہ یا اس سے بھی اہم خبریں جیسے شوہر کے متعلق حریم شاہ کی بیان، جنت مرزا کا ملک چھوڑنے کا فیصلہ، عامر لیاقت کی تیسری شادی اور "نچ پنجابن کے بول چوری ہونے کے بعد ابرار الحق کا قانونی چارہ جوئی پر غور وغیرہ شامل ہیں
یہاں تک تو بات بجا اور حق بجانب ہے کیونکہ آئین پاکستان نے ہر کسی کو اظہار رائے اور تنقید کا کرنے کا پورا پورا اختیار دیا ہے ارٹیکل 19 (اے)اظہار رائے کی آزادی کا ضامن ہے اور اسی ضمن میں ازاد صحافت بھی آجاتی ہے لیکن کبھی کبھار یہ اظہار آزادی آئین پامالی کی حدود تک پہنچ جاتی ہے خاص کر ارٹیکل نمبر 28 کی تو دھجیاں بکھیر دی جاتی ہے جو تمام لوگوں کی ثقافت کی فروغ میں معاونت کا یقین دلاتا ہے لیکن جناب یہاں گنگا الٹا بہتا ہے ہمارے ٹی وی چینلز میں مخصوص طبقوں کی ثقافت،جن میں پشتون اور بلوچ سرفہرست ہیں،کو مختلف پروگراموں اور ڈراموں میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہیں ان کے ثقافت اور مخصوص لب و لہجے پر طنز و مزاح کے نشتر برسائے جاتے ہیں فن اور فنکار جن کے ذریعے دنیا امن ور محبت کا پیغام پھیلاتے ہیں ہمارے ہاں تعصب اور نفرت کی علامات بن چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ ایک منصوبے کے تحت محکوم قوموں اور اقلیتوں کی ایک ایسی تصویر دیکھاتی ہے جو غیر مہذب اور وحشی تصور کیا جاتا ہے طبقاتی نظام کے اس احساس محرومی دلانے والے سرگرمیوں سے جہاں ملک کی وفاق کو نقصان پہنچتا ہے وہی ان سے صوبائیت کو تقویت ملتی ہے اور پروان چڑھتا ہے
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق سب کو مساوی تصور کیا جائے اور ذرائع ابلاغ کے بے لگام گھوڑے کو قانون کے مطابق قابو کیا جائے آزاد صحافت کے خوبصورت اور رومانوی نام پر سیاہ کو سفید ٹھرانے کا اختیار ان سے سلب کیا جائے مزید یہ ملک کسی بھی قسم کے سطحی اور قومی تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے اس لئے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سب کو اپنے دائرہ کار کے اندر کام کی اجازت دی جائے اور مساوات کی بنیاد پر تمام قوموں کی رسم و رواج کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے تاکہ یہ ملک امن اور آشتی کا گہوارہ بن سکے