کی بورڈ وارئیرز

تحریر۔۔۔۔۔انور ساجدی

بیشترمبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر عمران خان نے اپنے حالیہ مارچ کی ناکامی کے بعد ایک کامیاب مارچ نہ کیا تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی اگر ختم نہ ہوئی تو تحریک انصاف کئی درجہ تنزلی کے بعد اپنی پہلی پوزیشن والی حیثیت کھوبیٹھے گی کیونکہ عمران خان کا سارا انحصار اپنے ”کی بورڈ واریئرز“ پر تھا جن کی تعداد ہزاروں میں تھی جب یہ لوگ اپنے کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کھول کر بیٹھ جاتے تھے تو پروپیگنڈے کے زور پر مخالفین کو تنکے کی طرح بہالے جاتے تھے عمران خان کی یہ فوج عوام پر یہ تاثر چھوڑتی تھی کہ وہ مقبول ترین رہنما ہیں ان کا کوئی نعم البدل اور متبادل نہیں ہے وہ ریاست کیلئے ناگزیر ہے اگر وہ ہے تو ریاست ہے ورنہ ریاست نہیں رہے گی عمران خان کے کی بورڈواریئرز ہرروز ہزار مرتبہ زرداری نوازشریف اور مولانا کو چور ڈاکو غدار کرپٹ اور بے ایمان ثابت کرتے تھے حالانکہ ان شخصیات پر آج تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا تھا لیکن عوام الناس کو پکا یقین ہوگیا تھا کہ ان چوروں اور ڈاکوؤں نے پہلے30سال ملک کو لوٹ کر کنگال کیا ہے اگر یہ دوبارہ آگئے تو ملک کو نچوڑ کر اس کی جان لے لیں گے اور خود اپنے بیرونی محلات میں جاکر پرسکون اور خوشحال زندگی گزاریں گے عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم نوازشریف اور زرداری کے مقابلے میں اپنے لیڈر کو ہر عیب سے پاک اور فرشتوں جیسی سیرت والا ظاہرکرتے تھے وہ اس قدر چھائے ہوئے تھے کہ عمران خان کی جوانی کے کارنامے بھی غلط ثابت کرتے تھے اور انہوں نے لندن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک پلے بوائے کی جو زندگی گزاری تھی اسے اپنے مخالفین کی الزام تراشی سے تعبیر کرتے تھے امریکہ کی ایک عدالت کے اس فیصلہ کے باوجود کہ سابق اداکارہ سیتا وائٹ ان کی سریت (مسٹریس) تھی اور ان کے بطن سے جو بچی ٹیریان پیدا ہوئی تھی وہ عمران خان کی اولاد ہے لیکن عمران خان کے دیوانے اور فرزانے یہ بات تسلیم نہیں کرتے تھے حالانکہ سیتاوائٹ کی موت کے بعد عمران خان کی درخواست پر ان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے ٹیریان کو گود لے لیا اور وہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ اکھٹے رہ رہی ہے خود عمران خان میں بھی اتنی اخلاقی جرأت پیدا نہ ہوئی کہ وہ اپنی بیٹی کو باقاعدہ طور پر اپنالئے۔
عمران خان کا پکا خیال تھا کہ2018ء کے انتخابات میں ان کی جیت ”کی بورڈواریئر“ کی محنت کا نتیجہ تھا وہ بھول گئے تھے کہ الیکشن کی رات آر ٹی ایس سسٹم کیسے بیٹھ گیا تھا اور کس طرح محنت کرکے ان کی جیت کا بندوبست کیا گیا چنانچہ کامیابی کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا کے کام کو بہت وسعت دی اور اپنے واریئر کی تعداد میں تحاشہ اضافہ کردیا وہ اور ان کی میڈیا ٹیم کے اراکین برملا کہتے تھے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے باقی میڈیا اس کے سامنے ہیچ ہے چاہے وہ ٹی وی چینل ہوں یا پرنٹ میڈیا انہوں نے اشتہاری بجٹ کا بڑا حصہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے لئے مختص کردیا بلکہ آزاد ذرائع سے بھی بھاری فنڈنگ کا انتظام کروایا بے پناہ وسائل کی وجہ سے مخالفین بے بس تھے کہ ان کے پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں کیونکہ ن لیگ پیپلزپارٹی اور مولانا کے پاس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ”واریئر“ نہیں تھے اسی دوران عمران خان کی ٹیموں نے ”فیک نیوز“ کو بھی بہت فروغ دیا انہوں نے بدزبانی اور دشنام طرازی کو بھی بڑے پیمانے پر متعارف کروایا اس طرح یہ ”واریئر ایک کلٹ“ بنانے میں کامیاب ہوگئے جومغربی کلٹوں سے ملتا جلتا تھا یہ لوگ اپنے لیڈر کو بہت ہی عزت مآب برائیوں سے پاک اور دیدہ دار سمجھتے تھے ان کے کلٹ میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی ایسی خواتین جو غیر ملکی شہریت رکھتی تھی مغرب میں پرواں چڑھی تھی اپنے خاندان میں مغربی اقدار کی نمائندہ تھیں لیکن وہ عمران خان کے امریکہ مخالف نعروں اور ریاست مدینہ کے نظریہ کو داد دیتی رہتی تھیں یہی خواتین بڑی تعداد میں ان کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتی تھیں تحریک انصاف کی نمایاں خواتین لیڈرز میں محترمہ شیریں مزاری اور ملائیکہ شامل ہیں جو اعلیٰ غیر ملکی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہیں عاشق محمد مزاری نے اپنی بیٹی کو لندن اس لئے بھیجا تھا کہ وہ علم وادب میں کوئی کارنامہ سرانجام دیں لیکن انہوں نے تدریس کے بعد تحریک انصاف کا انتخاب کیا اور عمران خان کے کلٹ میں شامل ہوگئیں اس فیصلہ سے ان کے گھر کے اندر بھی اختلاف کاماحول ہے کیونکہ ان کی صاحبزادی ایمان مزاری حاضر بنیادی انسانی حقوق کی علمبردار ہیں وہ لبرل اور روشن خیال ہیں اور تحریک انصاف کے فرسودہ قرون وسطی کے نظریات سے اختلاف رکھتی ہیں ایمان کافی حد تک پگلی بھی ہیں وہ ایک پرتعیش زندگی میسر ہونے کے باوجود ایک الگ راستہ پر چل پڑی ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف اور احترام آدمیت کیلئے ہے۔بلوچوں کے مسئلہ کو لیکر وہ کافی جذباتی واقع ہوئی ہیں اسی لئے ان کیخلاف ایک ہائی پروفائل مقدمہ درج کرلیا گیا ہے حالانکہ ایمان کو لیکر درگزر سے کام لینا چاہئے تھا اس سنگین مقدمہ سے نکلنے کیلئے انہیں جان جوکھوں میں ڈالنا پڑے گا۔
ایک انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے کی بورڈ واریئرز کے سربراہ کوئی اور نہیں مملکت کے صدر عارف علوی خود ہیں ایک مرتبہ انہوں نے ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران خود اس بات کا انکشاف کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے سارے بچے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کا حصہ ہیں اس ٹیم میں کئی وی لاگرز ایسے ہیں جو ہرروز شہبازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور عمران خان کو وزیراعظم بناتے ہیں ان وی لاگرز میں سرفہرست ایک شخص عمران ریاض خان ہیں جو مخالفین کیلئے انتہائی کمتردرجہ کے پست الفاظ استعمال کرتے ہیں۔حالیہ واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ عمران خان کے کی بورڈ واریئرز جتنا زورلگائیں زمینی حقائق کو بہت حد تک نہیں بدل سکتے مثال کے طور پر ایک کمانڈر فوادچوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ48گھنٹوں کے اندر یہ حکومت جانے والی ہے عمران خان کی بدقسمتی کہیئے کہ شیخ رشید پیرانہ سالی کے باوجود چینلوں اور سوشل میڈیا پر روز ایسی بڑھکیں لگاتے تھے کہ بس جلد الیکشن ہونے والے ہیں اور عمران خان دوبارہ ملک کی قیادت سنبھالنے کیلئے تیار ہیں ایک اور حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اہم مقامات پر انتہائی طاقتور عناصرکو جس طرح تقسیم کیا تھا ان کا گروپ سردست پسپا ہوگیا ہے خاص طور پر ناکام مارچ کے بعد ان کے حوصلے بھی کمزور پڑگئے ہیں اگر دیکھاجائے تو اس وقت حکومت اور عمران خان دونوں پل صراط پر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر اتحادی حکومت کو محض دو ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جو کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے اسی طرح عمران خان بھی کمزور وکٹوں پر کھیل رہے ہیں ان کے اراکین اسمبلی نے استعفیٰ دیا ہے جبکہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ شاہ محمود قریشی شیریں مزاری اور فوادچوہدری کے استعفیٰ منظور کئے جائیں استعفیٰ دینے کے باوجود یہ اراکین پریشان ہیں اور استعفوں کی منظوری سے خوفزدہ ہیں خوفزدہ تو خودکپتان بھی ہیں جب سے ان کے کارکنوں کو رانا ثناء اللہ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی ہے کپتان کو ڈر ہے کہ کم بخت رانا کہیں انہیں گرفتار نہ کرلیں اسی خوف کی وجہ سے وہ کافی دنوں سے پشاور کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں قیام پذیر ہیں جہاں انہیں ہرسہولت مفت میسر ہے ساتھ میں اعلیٰ امین گنڈاپور کی صحبت بھی تحریک کی دیگر قیادت بھی پشاور کے سرکاری مہمان خانوں میں مفت روٹیاں توڑرہی ہے اگریہ لوگ پنجاب جاکر عوام کے جم غفیر لیکر لانگ مارچ میں شرکت کرنے اسلام آباد نہیں جائیں جیسے کہ پہلے انہوں نے کیا تھا تو آنے والا لانگ مارچ بھی ناکامی سے دوچار ہوجائے گا اگر اس طرح ہوا تو یہ کپتان کی سیاسی زندگی کا ایک فیصلہ کن توڑ ہوگا اسی لئے انہوں نے ساری امیدیں سپریم کورٹ سے لگارکھی ہیں اور ان کو توقع ہے لانگ مارچ کی ہررکاوٹ کو سپریم کورٹ دور کردے گی اگرعمران خان کی تنظیمی صلاحٰت کمزور ہوگئی ہے تو سپریم کورٹ لاکھ آرڈر جاری کرے عوام تو نہیں آئیں گے اسی خوف کی وجہ سے عمران خان زیادہ پریشان ہیں اگر اتحادی حکومت نے چھ سات ماہ گزار لئے تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر رہنا مشکل ہے۔اس دوران تحریک انصاف کی ذمہ دار قیادت کو چاہئے کہ وہ اپنے لیڈر کو بے سکونی کے لمحات میں سکون بخش مواقع فراہم کریں کیونکہ وہ سیاست میں شکست کے قائل نہیں ہیں اور شکست کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔
لگتا ہے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے کسی بورڈ واریئرز بھی وسائل کھوکرمیدان جنگ میں وہ کمال نہیں دکھاسکتے جو اب تک دکھارہے تھے اگر بجٹ کے بعد کسی غیبی طاقت نے کپتان کی مدد نہیں کی تو سمجھیں کہ ان کے بہت برے دن شروع ہونے والے ہیں ان کا اقتدار کا سورج تو پہلے غروب ہوچکا ہے ان کی شخصیت کی سحر بھی باقی نہیں رہے گی۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں