اقبال بیان

تحریر …انور ساجدی
سلامت: بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر جس طرح ناکامی کا منہ دیکھا ہے اس سے ان کی عوامی مقبولیت کا بھنڈا پھوٹ گیا ہے ان انتخابات کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ بلوچستان میں حالات اتنے نارمل ہیں کہ وہاں پر بلدیاتی انتخابات یا عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہے سیاسی جماعتوں نے حصہ لیکر حکومتی اداروں کی مدد فرمائی ہے جس کامقصد عام انتخابات میں حصہ بقدر جثہ وصول کرنا ہے تعریفی اسناد اور بخشش بونس اور چند ایک مراعات اسکے علاوہ ہونگی کوئی کچھ کہے حکومت لاکھ دعویٰ کرے لیکن یہ61فیصد ٹرن آڈٹ اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ معاملات کچھ مشکوک ہیں بادی النظر میں ان انتخابات کو بھی ماضی کے تناظر میں فراڈقراردیا جاسکتا ہے غالباً61فیصد تناسب تو سندھ اور پنجاب میں بھی نہیں آتا بلوچستان میں ایسا کچھ کیا ہوگیا کہ سارے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے حکومت اپنی کامیابی پر اتنی خوش ہے کہ گزشتہ روز مانسہرہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف لولکل مسائل بھول گئے اور خوشی سے جھوم اٹھے کہ بلوچستان میں پرامن اور کامیاب بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا ہے۔
مقام افسوس ہے کہ قوم پرستی اوروطن دوستی کی دعویدار جماعتیں اس وقت بلوچستان میں موجود انسانی المیہ کو ملفوف کرکے سلطانی گواہ بن گئی ہیں کہ صوبے میں حالات معمول کے مطابق ہیں اور لوگ قطار میں کھڑے ہوکر ووٹ دے رہے ہیں اس مسئلہ پر حکومت کی طمانیت توبنتی ہے لیکن کچھ زرا اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ بلوچستان کے طول وعرض میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کیا ہے؟ زرا صوبے کاہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس دیکھنے کی زحمت بھی گوارا کریں انہیں نظر آجائیگا کہ دنیا کے جو غریب ترین خطے ہیں بلوچستان کا شمار ان میں ہوتا ہے یہاں کے مفلوک الحال لوگ ایک وقت کی روٹی کیلئے محتاج ہیں ٹی بی دنیا سے ختم ہوچکی ہے لیکن بلوچستان میں یہ موجود ہے روزگار سرے سے موجود نہیں ہے صوبے کی80فیصدآبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں پر زندگی نہیں ہے جو ہے وہ اجیرن ہے آبادی کے بڑے حصے میں لوگ ماتم کناں ہیں مسنگ پرسنز کی تعداد ہزاروں میں کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے سارے ملک میں ہو نہ ہو بلوچستان میں فریڈم آف ایکسپریشن وجود نہیں رکھتا مظلوموں کی آواز بند یا مدھم کردی گئی ہے او رسب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو اصل مسئلہ ہے یا مرض ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے اور علاج غلط ہورہا ہے کافی عرصہ سے کچھ سیاسی لیڈر یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی طور پر حل کیاجائے وہ جان بوجھ کر اقبالی بیان دے رہے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ قطعاً سیاسی نہیں ہے بلکہ وہ ایک قومی مسئلہ ہے ریاست ایسے اقدامات کررہی ہے کہ ایک طرف ڈیموگرافک تبدیلی آجائے جس کے بعد کہاجائے کہ اکثریت قومی تحریک سے متفق نہیں ہے اس طرح وہ مرکزی سرکار کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں کہ وہ بے شک ساحل لے جائے وسائل لے جائے مقامی لوگوں کے ساتھ شودر یا ہریجن کا سلوک کرے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کردے کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا ہماری بعض جماعتیں سہولت کار کا کردارادا کررہے ہیں وہ ضرور جوچاہیں کردارادا کریں لیکن اتنا تو لازم بنتا ہے کہ وہ اپنے گلے سے نام نہاد قوم پرستی کا طوق اتاردیں اور واضح اعلان کریں کہ وہ لوگ مرکز پرست اور قومی سیاستدان ہیں یہ غریب بلوچوں کو کارڈکھیلنے کا پرانا مگر فرسودہ کاروبار بند کردیں۔
اس وقت ریاست کی اپنی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اس کی معیشت جان بلب ہے سیاسی قوتیں ایک دوسرے سے دست بہ گریبان ہیں اداروں میں ہم آہنگی نہیں ہے74سال بعد بھی ریاست کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے ایک آئین موجود ہے لیکن اسے کوئی مانتا نہیں ہر طرف انارکی اور انتشار کا ماحول ہے انصاف کے ادارے بھی تقسیم ہیں ایک ہی معاملہ پر الگ الگ قسم کے فیصلے ہورہے ہیں کسی کو سمجھ میں آنہیں آرہا کہ کیا کریں لیکن ایک بات پر سارے متفق ہیں کہ بلوچستان میں ایک جعلی نظام چلایاجائے۔یہاں پر جو انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اسے نظرانداز کیاجائے انجینئرڈ قسم کے انتخابات کا بندوبست کیاجائے اور اسی کے ذریعے معاملات چلائے جائیں کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں 1970ء کے بعد کبھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے خاص طور پر1988ء کے بعد مذاق ہی مذاق کیاجارہا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر مختلف اوقات میں مختلف جماعتوں کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے گزشتہ انتخابات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک عدد اپنی جماعت ہونی چاہئے تاکہ مرکزی جماعتوں کی محتاجی سے چھٹکارا پالیا جائے چنانچہ25جولائی2018ء کے انتخابات میں اچانک نوتشکیل جماعت باپ کو کامیاب قرار دیا گیا اور اس کی حکومت قائم کی گئی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ لوکل مینوفیکچرنگ نقلی تھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی اور تجربہ کیاجائے لیکن جب تک بلوچستان کے عوام کو حق حاکمیت اور مالکانہ حقوق سے محروم رکھا جائے گا حالات جوں کے توں رہیں گے بلوچستان کی جماعتیں جو این جی اوز کا کردارادا کررہی ہیں عوام سے لاتعلق ہیں اور انہوں نے اصل مسائل پر آنکھیں بند کررکھی ہیں بلوچستان کا صوبائی بجٹ چھٹ کرجانے کے بعد وہ اپنے اصل مقام پر آئی ہیں یعنی بلدیاتی اداروں کا سنبھال کر ان کے مسائل سے اپنا گزربسر کریں گی ویسے بھی اکثر ایم پی اے حضرات اپنے فنڈز سے نالیوں کی تعمیر اور اسٹریٹ لائٹس لگانے کا کام کرتے تھے اب تو باقاعدہ یہ کام انہیں تفویض ہوگیا ہے سیاسی جماعتوں کی لوکل لیڈر شپ کافی عرصہ سے بے روزگار تھی اب وہ کونسلوں کے چیئرمین بن کر برسرروزگار ہوجائیگی۔
ایک بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ سیاسی اعتبار سے اور انتخابات کے حوالے سے جو تجربات کئے گئے وہ شدید ناکامی سے دوچار ہیں۔ماضی میں تین بار ن لیگ کو لانے کا تجربہ کیا گیا لیکن وہ کامیاب نہیں رہا ایک مرتبہ راتوں رات ق لیگ بنائی گئی اور جھرلو کے ذریعے اسے حکومت بناکر دی گئی لیکن اس جماعت کے خالق پرویز مشرف کی معزولی کے بعد یہ بھی ختم ہوگئی2018ء کے انتخابات میں قومی ہیرو عمران خان کو زبردستی مسلط کیا گیا لیکن وہ بھی ساڑھے تین سال کے عرصہ میں ناکامی کا پہاڑ بن گیا پرانی جماعتوں پر مشتمل حالیہ حکومت کا قیام بھی ایک تجربہ ہے جو جلد ناکامی سے دوچار ہونیوالا ہے یہ معلوم نہیں کہ آئندہ انتخابات میں کس نوعیت کا تجربہ کیاجائیگا عمران خان نے اپنے دوراقتدار میں احتساب کا عامیانہ نعرہ بلند کیا لیکن نکلا کچھ نہیں موجودہ حکومت بھی عمران خان سے نبرد آزما ہے اور برسوں پرانے طریقے آزمارہی ہے لیکن نتیجہ صفر نکلے گا۔
البتہ عمران خان بہت ہی منفرد شخصیت ہیں وہ کسی بات کو نہیں مانتے خود نمائی اتنی ہے کہ انہیں اپنے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا مثال کے طور پر انہوں نے چارسدہ کنونشن میں الزام لگایا کہ موجودہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہی ہے حالانکہ یہ کوشش انہوں نے خود کی تھی اسرائیل جانے والا وفد ان کے دور میں گیا تھا پی ٹی وی کے صحافی احمد کے مطابق ان کے ساتھ جو پاکستانی یہودی اسرائیل گیا تھا اس کی منظوری خود عمران خان نے دی تھی لیکن اس کا الزام وہ موجودہ حکومت پر لگارہے ہیں البتہ ایک بات ضرور ہے کہ ایک دوست ملک کے سربراہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اسے پانچ ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی۔معلوم نہیں کہ یہ تجویز عمران خان کو پیش کی گئی تھی یا موجودہ وزیراعظم کو بہر حال اتنے بڑے اقدام کے عوض صرف پانچ ارب ڈالر کی حقیر رقم۔ ظاہر ہے کہ ایک قلاش ملک کی بہت تھوڑی قیمت لگائی جاسکتی ہے اسرائیل کو شام کے سوا چیدہ چیدہ عرب ممالک تسلیم کرچکے ہیں صرف سعودی عرب اور پاکستان رہتے ہیں سعودی ارب اندر کھاتہ اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے حتیٰ کہ اسرائیل سعودی عرب کو21ویں صدی کا جدید شہر بھی تعمیر کرکے دے رہا ہے سعودی عرب کی جانب سے صرف رسمی اعلان باقی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کے ساتھ مل کر یہ سعادت حاصل کرے لیکن پاکستان کی کوئی بھی حکومت یہ جرأت نہیں کرسکتی کیونکہ یہاں کافی عرصہ سے اسرائیل کے بارے میں منفی تاثر پیدا کیا گیا ہے اس لئے عوام یہ سننے کیلئے تیار نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیاجائے تاہم جلد یا بدیر کسی بھی پاکستانی حکومت کویہ قدم اٹھاناپڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں