راسکوہ کا نوحہ

تحریر:انور ساجدی

عجیب لوگ ہیں ایٹم بم پھوڑنے پر جشن بناتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ یہ انسانیت کے خلاف کتنا تباہ کن ہے کوئی ان سے پوچھے کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی میں کیا ہوا تھا یا یوکرین کے شہر چرنوبل میں کتنے ہزار لوگ ایٹمی تابکاری سے لقمہ اجل بنے تھے جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں فوکوشیما کا ایٹمی پلانٹ جب تباہ ہوا تھا تو کتنے معصوم لوگ اس کا شکار ہوئے تھے۔
پاکستان نے 28 مئی 1998 کو راسکوہ کے پہاڑی سلسلہ میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق اس کیلئے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے تھے قرب و جوار کی آبادیوں کو محفوظ مقام پر منتقل نہیں کیا گیا تھا دھماکوں کے بعد بھی یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی تھی کہ اس کے مقامی آبادی چرند پرنددرختوں اور مجموعی ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوئے تھے جب نواز شریف نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا تو انہوں نے اسے یوم تکبیر قرار دیا تھا لیکن صرف ایک سال بعد یوم تکبیر اپنے خالق کا اقتدار کھا گیا تھانہ صرف یہ بلکہ یہ ایٹم بم اپنے اصلی خالق ذوالفقار علی بھٹو کو نگل گیا تھا چاغی کا انتخاب ذوالفقار علی بھٹو نے خود کیا تھا وہ نوشکی ایک جلسہ سے خطاب کرنے گئے تھے اور وہاں سے انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راسکوہ پہاڑ لے جایا گیا تھا اس دورے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا ان کے ہمراہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ٹکا خان، ڈاکٹر قدیر خان ایٹمی انرکمیشن کے سربراہ اور چند سائنسدان تھے یہ 1976 کی بات ہے اس وقت کے بعد سے اس ایٹمی سائٹ پر کام ہورہا تھا وہاں پر چرواہوں اور عام لوگوں کا جانا منع تھا ضیاؤالحق کے دور میں پہاڑ کی کھدائی شروع کردی گئی تھی امکانی طور پر ایک سے دو ہزار فٹ گہرائی کے ٹنل بنائے گئے تھے کیونکہ 1983 میں پاکستان ایٹمی دھماکہ کرنے کے قابل ہوگیا تھا لیکن ضیاؤالحق نے جان بوجھ کر دھماکے نہیں کئے کیونکہ بھٹو کی پھانسی اور مارشل لاء کی وجہ سے وہ عالمی تنہائی کا شکار تھے تاہم افغانستان میں امریکی جہاد کے بعد جب ضیاؤالحق مغرب کے لاڈلہ بن گئے تھے تو انہوں نے تیزی کے ساتھ کیا اور غلام اسحق خان کو مطلوبہ وسائل فراہم کردیئے تاکہ یہ پروگرام پائیہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
اگرچہ ایٹمی ہتھیار بنانا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے اگر پاکستانیوں کے نزدیک یہ واقعی بڑا کارنامہ ہے تو اس کا کریڈٹ بھٹو کو جاتا ہے لیکن ضیاؤالحق کے پیروکار یا جانشین مقتدرہ نے بھٹو کے کردار کو کبھی تسلیم نہیں کیا حتیٰ کہ جب 28مئی1998 کو دھماکے کئے گئے تو پاکستانی میڈیا سارا کریڈٹ نوازشریف کو دے رہا تھا بھٹو مخالف میڈیا لابی کے سربراہ مجیب الرحمن شامی نے کہاکہ بھٹو نے سوچا تھا ضیاؤالحق نے اسے مکمل کیا اور نوازشریف نے اہم ترین کارنامہ سرانجام دیا اس وقت سے ابتک شاید ہی پاکستانی میڈیا نے بھٹو کا نام لیا ہو۔
پاکستانی عوام اتنے معصوم ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا کیا ہیں انہیں برین واش کیا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار ازلی دشمن بھارت کے عزائم کی توڑ ہیں جس کے بعد بھارت میلی نظر سے پاکستان کی طرف نہیں دیکھ سکتا عوام جانتے نہیں کہ ریاستیں تباہ کن ہتھیاروں سے نہیں اقتصادی خوشحالی کے ذریعے آگے بڑھتی ہیں جب سوویت یونین ٹوٹا تو اس کے پاس سب سے زیادہ ایٹمی بلکہ ہائیڈروجن ہتھیار تھے لیکن وہ معاشی طور پر دیوالیہ ہوگیا تھا اس لئے یہ ہتھیار اس کی وحدت کو بچا نہیں پائے یہ حقیقت ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی معیشت کبھی نہیں سنبھلی جس دن دھماکے ہوئے پاکستان دیوالیہ ہوگیا تھا اور وزیراعظم نوازشریف نے عوام کے ڈالر اکاؤنٹس ضبط کرلئے تھے اگر سعودی عرب فوری مدد نہ کرتا تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا۔
ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کوئی معمولی کام نہیں ہے نیویارک ٹائمز کی ایک پرانی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ایک سو ایٹمی ہتھیار ایک کھرب ڈالر میں بنائے ہیں اگر اتنی بڑی رقم ملک کی عمومی ترقی اور عوام کی خوشحالی پر خرچ ہوتی تو پاکستان ملائشیاء اور ترکی جتنی ترقی کرچکا ہوتا نہ صرف یہ بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کی سیکورٹی اور تحفظ بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس پر بھی اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں منوبھائی مرحوم کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی حکومت اور سائنسدان ایٹم بموں کی بجائے کوئی ایسے بیج ایجاد کرتے جن سے غذائی قلت ختم ہوجاتی تو وہ زیادہ بڑا کارنامہ ہوتا کیونک ایٹم بم سے فاقہ زدہ لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے اور نہ ہی ان کا ڈھنگ کا علاج معالجہ ہوسکتا ہے۔
ایٹم بم تو اپنی جگہ لیکن ریاست کی ناکامی کی بڑی وجہ بیڈگورننس کرپشن اور نظام کا عدم استحکام ہے ضیاؤالحق کے بعد سے پتہ نہیں چلتا کہ ملک کا نظام کون چلارہا ہے کہا جاتا ہے کہ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے لیکن نہ منتخب حکومت کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی پارلیمان کی کوئی وقعت ہے آدھا تیتر اور آدھا بیٹر کا سلسلہ چل رہا ہے سیاستدانوں کو کافی عرصہ سے بدنام کیا جارہا ہے کہ ملک کو لوٹ کر انہوں نے کنگال کردیا ہے لیکن یہ آدھا سچ ہے کیونکہ ملک کو کنگال کرنے میں کئی دیگر عوامل بھی کارفرماہیں خاص طور پر جو غیر پیداواری اخراجات ہیں وہ اتنے بڑھا دیئے گئے ہیں کہ ملکی آمدنی ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے سینکڑوں ایسے سویلین اور دیگر ادارے ہیں جو نقصان میں چل رہے ہیں اور ان کا خسارہ کھربوں روپے تک جاپہنچا ہے گزشتہ دور میں نواز شریف نے بجلی کے ایسے پلانٹ لگائے جو کوئلہ سے چلتے تھے اور کوئلہ 10 ہزار کلومیٹر دور انڈونیشا سے لانا پڑتا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان نے یہ پلانٹ بند کردیئے اسی طرح جو بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ ادارے ہیں انہیں گیس پر منتقل کیا گیا جبکہ گیس کی قلت ہے اس کی وجہ سے دوبارہ لوڈشیڈنگ لوٹ آئی ہے خزانہ کی حالت پتلی ہے اس لئے لوڈشیڈنگ رواں سال سردیوں تک جاری رہے گی ماہر معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت اپنی شہہ خرچیاں بند نہیں کرتی اور دفاعی بجٹ کا وہ حصہ جس کا تعلق جنگی ساز و سامان نہیں ہے کم نہیں کرے گی بحران جاری رہے گا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام کوکیپنہیں کیا جاسکتا دفاعی اخراجات کم نہیں کئے جاسکتے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے اخراجات ہی کم کردے ڈویلپمنٹ کے نام پر ہرسال کھربوں روپے ضائع ہوجاتے ہیں اس لئے ایک جامع پنج سالہ منصوبہ کی ضرورت ہے تاکہ کھربوں روپے کرپشن اور ناقص کاموں کی وجہ سے ضائع نہ ہوسکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے قدرتی وسائل اتنے نہیں کہ 25 کروڑ عوام کا گزارہ اس پر ہو اس کیلئے پاکستان کو اپنی خارجی اور داخلی پالیسیوں کو تبدیل کرنا پڑے گا یہ جو اڑوس پڑوس میں دشمنی کا معاملہ ہے اسے ختم کرنا پڑے گا ہر ہمسایہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا پڑے گا یہ عہد کرنا ضروری ہے کہ عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرنا ہوگا بھارت نے جو کرنا تھا کرلیا کشمیروہ ہڑپ کرچکا دریاؤں کا رخ موڑ کر اس نے کشمیر سے آنے والا پانی بند کردیا ہے اس سے زیادہ وہ اور کیا کرسکتا ہے لہٰذا عالمی طاقتوں کی ثالثی میں اس سے ایک جامع امن معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ کے خطرات ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیں اگر دونوں ملک تجارت شروع کردیں تو اپنی تمام ضروریات گھر کی دہلیز پر پورا کرسکتے ہیں۔
یہ جو ملک کے اندر دہشت گردی ہے اس کا تعلق خارجہ پالیسی سے ہے اگر افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑا جائے اور یہ خیال دل سے نکال دیا جائے کہ افغانستان اس کی تزویراتی ڈیپتھ ہے تو معاملات کافی حد تک سدھر جائیں گے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سیاسی مداخلت بند کرکے شفاف انتخابات ہونے دیئے جائیں جو پارٹی اکثریت حاصل کرے اقتدار اسے منتقل کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ عمران خان،باپ اور ق لیگ جیسی جماعتوں کی تخلیق کا تجربہ بند کیاجائے اگرایسے تجربات ناگزیر ہیں تو انہیں بھی چلنے دیا جائے تاکہ نوزائیدہ جمہوریت جڑپکڑسکے یہ جمہوریت کو آہنی خود پہناکر شاہ دولے کے چوہوں کی طرح پست قامت بنانے کا تجربہ آئندہ نہ کیا جائے ایک اور بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اپنے لوگوں کے خلاف جنگ بند کی جائے اپنے اندر اتنی کشادگی پیدا کیجئے کہ آپ میں معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے فاٹا اور بلوچستان کے عوام کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے اور ان کو لگے زخم مند مل کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں اگر یہ اقدام نہ اٹھائے گئے تو کب تک آپ خیرات امداد چندہ اور قرضوں پر چلیں گے آخر کار آپ ایسی بندگلی میں پہنچ جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں