پرویز مشرف:مکافات عمل

تحریر:انور ساجدی
ڈاکٹروں نے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو جواب دیدیا ہے یعنی ان کی صحت یابی کی کوئی امید باقی نہیں ہے وہ لائف سپورٹ پر ہیں جس کے بغیر ان کی سانسیں بحال ہونا مشکل ہے ڈاکٹروں کے مطابق پرویز مشرف ایک ایسی ہولناک عارضہ میں مبتلا ہیں جو کروڑوں انسانوں میں سے کسی ایک کو لاحق ہوتا ہے اس بیماری کا آغاز حرام مغز سے ہوتا ہے جس کے بعد مریض کی قوت مدافعت ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے بڑے اعضاء فیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں کئی سال پہلے جب جنرل صاحب بیمار ہوئے تو ان کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی بلکہ یہ افواہ بھی پھیل گئی تھی کہ وہ ”ایڈز“ میں مبتلا ہیں تاہم کچھ عرصہ بعد امریکی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے مرض کی تشخیص کی جو اگرچہ ایڈز نہیں ہے لیکن ایڈز جیسی علامات رکھتا ہے تین روز قبل جنرل صاحب کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر پھیل گئی تھی جس کی تردید کردی گئی اسی اثناء ان کی فیملی نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے انہوں نے عوام سے دعا کی اپیل کی تاکہ ان کا آخری وقت سکون سے گزرے۔سنا ہے کہ جنرل صاحب کی حالت دیکھ کر ان کی فیملی نے پاکستان میں اعلیٰ حکام سے رابطہ قائم کیا اور ان کی ممکنہ تدفین کے بارے میں انہیں اعتماد میں لیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل صاحب کی فیملی ان کی تدفین پاکستان میں کرنا چاہتی ہے تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ اس کیلئے کراچی کا انتخاب کرتے ہیں یا راولپنڈی کا
اگرجنرل صاحب کی موت ہوگئی تو اس پر صرف میاں محمد بخش کے اس شعر کے ذریعے اپنے احساسات کااظہار کیاجاسکتا ہے
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے
سجناں وی مرجانا اے
جنرل پرویز مشرف ایک انتہائی متنازعہ حکمران اور شخصیت کے حامل تھے وہ پرانی دلی سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے دلی میں ان کی دوہزار گزپر بنی حویلی تھی جو نہروالی حویلی کے نام سے مشہور تھی ان کا خاندان پڑھا لکھا اور انڈین سول سروس میں تھا ان کے والد سید مشرف الدین احمد علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔1947ء میں یہ خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا جسے فارن سروس میں جگہ دی گئی دوسال بعد ان کے والد کو انقرہ بھیج دیا گیا جہاں پرویز مشرف نے ابتدائی تعلیم حاصل کی وہیں پر انہیں کتے پالنے کا شوق ہوا۔
واپس کراچی آکر مشرف نے صدر کے سینٹ پیٹرک کالج میں داخلہ لیا کراچی کے بعد وہ لاہور کے ایف سی کالج میں داخل ہوگئے اور وہیں سے ایف اے کیا
ان کی والدہ محترمہ زرین مشرف کے مطابق پرویز بہت ہی شرارتی تھے اس لئے انہوں نے اسے فوج کے ڈسپلن میں بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن فوج میں جانے کے باوجود وہ شرارتوں سے باز نہیں آئے
پرویز مشرف کو مشروبات اور عشق کا شوق تھا جب کوئٹہ میں پوسٹ تھے تو کوئٹہ گرامر اسکول کی ایک ٹیچر سے عشق شروع کردیا انہوں نے خود ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ چھٹی کے وقت سائیکل لیکر اسکول کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تاکہ محترمہ صہبا کی ایک جھلک دیکھ سکیں موصوف جب تک صحت مند تھے ان کا یہ شوق جاری رہا موسیقی کاشوق انہیں اپنی والدہ سے ورثے میں ملا تھاجو جوانی میں کلاسیکل کلام گاتی تھیں اور بھارت ناٹیم کی ماہر تھیں۔
18سال کی عمر میں پرویز مشرف ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈمی میں داخل ہوئے اور پاسنگ آؤٹ کے بعد فوجی پیشے کا آغاز ہوا کچھ عرصے بعد وہ آرٹلری سے ایس ایس جی میں گئے پرویز مشرف تعلقات بنانے کے ماہر تھے انہوں نے ضیاؤ الحق کو قریب کرکے ان کا چہیتا بن گئے تاہم وہ سیاچن کی جنگ ہارگئے۔
1995ء میں جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو انہوں نے دو سینئرترین جرنیلوں کو نظرانداز کرکے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنادیا اس کیلئے انہوں نے کافی لائبٹنگ کی تھی اور چوہدری نثار علی خان کی خدمات حاصل کی تھیں جو اس وقت نوازشریف کے دست راست تھے۔
آرمی چیف بنتے ہی مشرف کے تیور بدل گئے وہ بھارت سے جنگ کی منصوبہ بندی کرنے لگے اطلاعات کے مطابق انہوں نے1989ء میں بینظیر کو بھی کارگل پر حملے کا مشورہ دیا تھا لیکن انہوں نے رد کردیا1998ء میں پرویز مشرف نے وزیراعظم کو بتائے بغیر کارگل پر حملہ کردیا پہلے انہوں نے کہا کہ کارگل کی مہم میں مجاہدین حصہ لے رہے ہیں تاہم جب فوجی جوان جاں بحق ہوئے تو سارا راز کھل گیا اور یہ ماننا پڑا کہ یہ کارروائی فوج کررہی ہے جب بھارت نے کارگل کی چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا تو مشرف کے ہاتھ پیر پھول گئے نوازشریف کے مطابق انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کچھ کریں ہم پھنس چکے ہیں چنانچہ نوازشریف امریکہ گئے اور بل کلنٹن کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالا کہ جنگ بندی کی جائے یہ اتنی بڑی جنگ تھی کہ1965ء اور1971ء کی جنگوں سے زیادہ جانی نقصان ہوا حتیٰ کہ کیپٹن شیر اور حوالدار لالک جان کو نشان حیدر دیاگیا۔
کارگل کی جنگ ہارنے کے بعد نوازشریف نے پرویز مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کیا لیکن ان میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ ان کی موجودگی میں یہ کام کرتے چنانچہ جب وہ سری لنکا کے دورے پر تھے تو نوازشریف نے انہیں ہٹاکر آئی ایس آئی چیف ضیاؤ الدین بٹ کو آرمی چیف لگایا لیکن فوج کے ٹاپ جرنیلوں نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیانوازشریف سے یہ غلطی ہوگئی کہ انہوں نے حکم دیا کہ جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترنے نہ دیا اس کی اطلاع ان کے ساتھی جرنیلوں نے طیارے کے رابطے سے مشرف کو دی اس پر انہوں نے جہاز کا اندر سے کنٹرول سنبھال لیا نیچے جنرل عبدالقادر بلوچ نے رینجرز کے دستوں کے ذریعے ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا جس کے نتیجے میں مشرف کا طیارہ کراچی میں لینڈ کرگیا وہ ایئرپورٹ پر ہی تھے کہ ان کے ساتھیوں نے پی ٹی وی پر قبضہ کرکے اور وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بول کر نوازشریف کا تختہ الٹ دیا اس طرح پاکستان میں تیسری فوجی آمریت قائم ہوئی۔
مشرف نے نوازشریف پر ہائی جیکنگ دہشت گردی اور اقدام قتل کے مقدمات قائم کئے جو کراچی کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے یہ عدالتیں خود نوازشریف نے قائم کی تھیں مشرف کا پکا ارادہ تھا کہ وہ نوازشریف کو بھٹو کی طرح پھانسی پر لٹکا کر سویلین بالادستی کے خواب کو ہمیشہ کیلئے چکنا چور کردے لیکن امریکہ اور سعودی عرب کے دباؤ پر وہ ایسا نہ کرسکے انسداد دہشت گردی کی کینگرو کورٹ نے مشرف کے کہنے پر نوازشریف کو عمر قید کی سزا سنائی کچھ عرصہ بعد یعنی دسمبر1999ء کو انہیں سعودی فرماں رواں کی سفارش پر سعودی عرب جلا وطن کردیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے عروج میں کئی معاملات چھیڑے انہوں نے آئینی مطالبات پر نواب اکبر خان شہید کیخلاف کارروائی کی اور2005ء میں ڈیرہ بگٹی پر بمباری کی جس میں بھاری جانی نقصان ہوا اس واقعہ کے بعد جنرل مشرف نے چوہدری شجاعت کے ذریعے نواب صاحب سے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا لیکن اسی دوران انہوں نے نواب صاحب کوقتل کرنے کا منصوبہ بنایا شہید نواب اکبر خان اچھی طرح جانتے تھے کہ مشرف کیا کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ مری ایریا کے پہاڑی سلسلہ تراتانی گئے یہ ایک سمبالک عمل تھا کہ وہ اپنے گھر میں بے چارگی کی حالت میں جان نہیں دیں گے بلکہ میدان جنگ میں مزاحمت کی علامت بن کر جان دیں گے چنانچہ پرویز مشرف نے بمباری کرکے انہیں شہید کردیا وہ اتنے زعم میں تھے کہ اکبرخان کی موت کا کوئی ردعمل نہیں ہوگا لیکن وہ خوش فہمی میں تھے اپنے اس بہیمانہ عمل کے ذریعے انہوں نے پورے بلوچستان کو آگ میں جھونک دیا جو تحریک تھی وہ جنگ آزادی میں بدل گئی اور بلوچستان کے طول وعرض میں پھیل گئی۔
نواب صاحب کے قتل سے ریاست کو ابتک کھربوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور وہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے۔پرویز مشرف نے اسلام آباد کی جامعہ حفصہ کی بچیوں کیخلاف بھی طاقت کا استعمال کیا ان کے آپریشن سے سینکڑوں بچیاں مدرسہ کے اندر جاں بحق ہوئیں جس کے بعد ردعمل میں خیبرپختونخواہ اور فاٹا میں دہشت گردی شروع ہوئی جس پر آج تک قابو پایا نہ جاسکا موصوف نے دو مرتبہ آئین توڑا ایک دفعہ 12اکتوبر1999ء کو اور دوسری مرتبہ ایمرجنسی لگاکر وہ جس طاقتور حلقہ سے تعلق رکھتے تھے انہیں پتہ تھا کہ ان کے اعمال کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا ان پر کمپنی باغ راولپنڈی میں محترمہ بینظیر کے قتل کاالزام بھی ہے لیکن ریاست نے کبھی ان سے ایک حرف بھی نہیں پوچھا 2013ء میں جب نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بن گئے تو انہوں نے آئین شکنی پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ6کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا اس مقدمہ پر بڑی رکاوٹیں آئیں لیکن پشاور کے جج جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی ووقار سیٹھ ایک مختلف جج تھے ورنہ اور کوئی بھی جج یہ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ مشرف اتنے چہیتے تھے کہ سنگین مقدمات کے باوجود ایک دن بھی کسی عدالت میں پیش نہیں ہوئے موت کے بعد سب سے بڑی عدالت کے سامنے ضرور پیش ہونگے۔
جسٹس سیٹھ نے یہ بھی لکھا کہ اگر پرویز مشرف فوت ہوگئے تو ان کی ہڈیاں نکال کر انہیں مین چوک پر پھانسی دی جائیں اور تین دن تک انہیں لٹکا رہنے دیا جائے غالباً انہوں نے یہ فیصلہ انگلینڈ کے آئین شکن اولیور کرامویل کی سزا سے متاثر ہوکر لکھا کرامویل کی ہڈیوں کو لندن کے میں اسکوائر پر پھانسی دے کر تین دن تک لٹکایا گیا۔
اگرچہ پرویز مشرف کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا لیکن تاریخ میں لکھا جائیگا کہ وہ آئین توڑنے کے مرتکب ہوئے جس کی سزا موت ہے اور ایک بے مثال جج نے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا۔