پیس جنرنلزم یا وار جنرنلزم اور بلوچستان

جئیند ساجدی
بلوچوں کو تینوں اقسام کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے
جیک لینچ آسٹریلیا کی جامعہ سڈنی کے شعبے ابلاغیات کے استاد ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کا امن صحافت (Peace Journalism) پر تحقیقی کام ہے انہوں نے تشدد کی تین اقسام بتائی ہیں اور یہ درس دیا ہے کہ میڈیا کو دوران جنگ یا تنازع تینوں اقسام کے تشدد کا ذکر کرنا چاہئے۔ ان کے مطابق اگر میڈیا اپنی رپورٹس میں ان تین اقسام کے تشدد کا ذکر نہیں کرے گا تو وہ جنگ کو مزید بڑھاوا دے گا جو وار جرنلزم کے دائرے میں آئے گی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اکثر لوگ صرف ایک ہی قسم کے تشدد سے واقف ہیں جنہیں انہوں نے ڈائریکٹ وائلنس (Direct Violence) کا نام دیا ہے۔ ان کے مطابق ڈائریکٹ وائلنس اسوقت ہوتی ہے جب کوئی طاقتور طبقہ یا ریاست کسی کمزور یا محکوم لسانی و مذہبی گروہ پر براہ راست عسکری طاقت کا استعمال کر کے تشدد کرتے ہیں اس کی مثالیں یہ ہیں جیسے کہ محکوم لسانی گروہ کے لوگوں کو مارنا پیٹنا ماورائے عدالت گرفتار و قتل کرنا اور اقلیتی اقوام کے علاقوں پر بمباری کرنا۔
جیک لینچ کے مطابق اکثر لوگ تشدد کی باقی دو اقسام سے بالکل نہ واقف ہیں حالانکہ ان دو اقسام کا ڈائریکٹ وائلنس سے کافی گہرا تعلق ہے، وہ لکھتے ہیں کہ کسی بھی کثیر القومی ریاست میں اکثریتی اقوام یا ان کی ریاست اقلیتی اقوام کے ساتھ ڈائریکٹ وائلنس کے استعمال سے پہلے اسٹریکلچرل وائلنس (Structural Violence) کا استعمال کرتی ہے۔ اسٹریکلچرل وائلنس سے مراد یہ ہے کہ اقلیتی قوم کو ریاست کے اہم انتظامی عہدوں سے منصوبے کے تحت دور رکھا جاتا ہے، اس کا مقصد ان کی معاشی، سماجی اور سیاسی طاقت کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ اقلیتی قوم کی ریاستی اداروں جیسے کہ قومی اسمبلی، پولیس، فوج، عدلیہ وغیرہ میں نمائندگی بہت کم ہوتی ہے۔ جب اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والے کچھ شعور یافتہ رہنماء یہ متعصبانہ رویہ محسوس کر کے ان ناانصافیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو بالادست طبقہ ان کے ساتھ کلچرل وائلنس Violence) (Cultural کرتا ہے۔ کلچرل وائلنس دراصل نسل پرستی کی ایک قسم ہے جس کو استعمال کر کے محکوم طبقے کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی پسماندگی کی ذمہ دار ریاست نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔ اس کی اہم وجہ اقلیتی قوم کی ثقافتی روایات ہیں جو قدامت پسندی پر مبنی ہیں جب محکوم اقوام کے لوگ ذہنی پختگی کا مظاہرہ کر کے ریاستی پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہوتے اور اپنے جائز حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھتے ہیں تو پھر طاقتور طبقہ اپنی فاشسٹ سوچ کا مظاہرہ کرکے ان پر اپنی سرکاری پولیس یا عسکری قوت کے ذریعے براہ راست تشدد کرتی ہے۔ نو آباد کاری کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اسٹریکلچرل اور کلچرل وائلنس کی بہت مثالیں ملتی ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی سامراج بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر برطانوی اور یورپین نژاد لوگوں کو فائز کرتا تھا اور مقامی لوگوں کو اہم عہدوں سے دور رکھتا تھا۔ یہ اسٹریکچرل وائلنس کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ برطانوی سامراج یہ بتاتا تھا کہ ہندوستانی لوگ نسلی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ انہیں اہم انتظامی عہدے دیئے جائیں، یہ کلچرل وائلنس کی ایک قسم ہے۔ جب مقامی ہندوستانیوں نے اس استحصال کیخلاف آواز اٹھائی تو ان کو برطانوی سامراج کی ڈائریکٹ وائلنس کو بھی بھگتنا پڑا۔
بلوچوں کے ساتھ بھی مرکزکا رویہ گزشتہ 74 سال سے یہی رہا ہے اور بلوچوں کو تینوں اقسام کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، سب سے پہلے انہیں اسٹریکچرل وائلنس کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ریاستی اداروں کے اہم عہدوں پر نمائندگی نہ ہونے کے برابر دی گئی۔ وفاقی حکومت میں آج کے دور میں بلوچستان کی محض 17 نشستیں ہیں جبکہ حکومت بنانے کیلئے 170 نشستیں درکار ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں نمائندے کبھی بھی وفاق میں اپنی حکومت نہیں بناسکتے اور نہ ہی بلوچستان کے متعلق کوئی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ مرکز تو دور کی بات ہے، بلوچوں کو اپنے صوبے میں بھی اسٹریکچرل وائلنس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ الحاق کے بعد ہی مرکز نے دیگر صوبے سے یہاں آباد کار آباد کئے تھے جو کوئٹہ کی 20 گلیوں میں بیٹھ کر پورے صوبے کا انتظام چلاتے تھے جبکہ ان کا علم بلوچستان کے حوالے سے یہ تھا کہ ان کو بلوچستان کے چار اضلاع کے نام بھی معلوم نہیں تھے۔ اب بھی صوبوں کے اہم عہدوں پر دیگر صوبوں سے آئے ہوئے لوگ تعینات ہیں اور ان کا رویہ مقامی لوگوں کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک (Colonial Settler) نو آباد کار کا ہوتا ہے۔ جب بھی بلوچ رہنماؤں نے مرکز سے اس امتیازی سلوک یا اسٹریکچرل وائلنس کی مذمت کی ہے تو مرکز نے اپنے حب الوطن میڈیا کے ذریعے بلوچوں کے ساتھ کلچرل وائلنس کا بھی استعمال کیا ہے۔ مرکز کے مطابق بلوچوں کی یہ حالت ان کی قبائلی نظام کی وجہ سے ہے اور بلوچ بت پرستوں کی طرح اپنے سردار کی ہر بات مانتے ہیں اور بار بار ان کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھجواتے ہیں۔ مرکز کے مطابق سردار بھی دیگر قبائلی بلوچوں کی طرح نااہل ہیں اور ان میں صوبائی حکومت چلانے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ مرکز، مین اسٹریم میڈیا اور نام نہاد قومی سطح کے صحافیوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بلوچستان کے زمینی حقائق کیا ہیں اور اس کلچرل وائلنس سے بلوچوں کی کتنی دل آزادی ہوتی ہے۔ جب بلوچوں میں ان دو تشدد (کلچرل اور اسٹریکلچرل وائلنس) کیخلاف جدوجہد کیا تو مرکز نے ان پر براہ راست تشدد کا بھی استعمال کیا ہے۔ 1958ء میں ایوب خان، 1973ء میں بھٹو اور 2006ء میں مشرف نے بلوچستان میں بہیمانہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ کچھ روز قبل سماجی میڈیا پر کچھ ویڈیو نظر سے گزری ہیں جس میں سندھ پولیس پرامن بلوچ مظاہرین پر بہیمانہ تشدد کررہی تھی۔
جیک لینج کے مطابق کسی بھی جنگ اور تنازعے کو حل کرنے میں میڈیا ایک کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے، ان کے مطابق اگر میڈیا صرف اکثریتی یا اقلیتی گروہوں کے چند نمائندوں کی براہ راست تشدد کوریج دیگا تو اس سے تنازع اور بڑھے گا۔ ان کی رائے میں میڈیا کو اقلیتی قوم پر ہونے والے اسٹریکلچرل اور کلچرل وائلنس کا بھی ذکر کرنا چاہیے۔ اس سے عوامی رائے پر اثر پڑے گا اور عوامی رائے کے خوف سے بالا دست طبقوں کی اشرافیہ اقلیتی اقوام پر ظلم یا براہ راست تشدد نہیں کرے گی اور مسئلہ امن کی طرف جاسکتا ہے لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ یہاں کا حب الوطن میڈیا کچھ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر کوریج دیتا ہے جبکہ کراچی واقعہ جس میں سرکاری طاقت کا استعمال کیا گیا اسے بلیک آؤٹ کردیتا ہے۔ اسٹریکلچرل وائلنس پر کبھی قومی میڈیا نے کوئی پروگرام نہیں کیا اور بلوچوں کیخلاف کلچرل وائلنس کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا پیس جنرنلزم کے بجائے وار جنرنلزم کو فروغ دے رہا ہے۔ برطانیہ کی جامعہ لندن سکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والی پروفیسر مانسرٹ گبنرنو لکھتی ہیں کہ جب بھی کسی اقلیتی گروہ پر بہیمانہ ریاستی طاقت کا استعمال ہوگا تو اس گروہ کے قومی شعور میں مزید اضافہ ہوگا۔ مرکز اور میڈیا کے عملسے ایسا لگ رہا ہے کہ بلوچستان کا تنازع دیر تک حل ہونے والا نہیں بلکہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس میں مزید تیزی آئے گی اور کراچی جیسے واقعات کی وجہ سے بلوچوں کے قومی شعور میں مزید اضافہ ہوگا۔