الوؤں کی بیٹھک

تحریر:انور ساجدی
اگر جنرل پرویز مشرف واپس پاکستان آئے تو ایک ساتھ دو تدفین ہوگی 1973ء کے آئین کو بھی منوں مٹی تلے دفن کرنا پڑے گا ویسے بھی یہ آئین اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہے حتیٰ کہ اس کی دفعہ 6 ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے جنرل ضیاؤالحق نے پہلی مرتبہ 5 جولائی 1977ء کو آئین توڑا لیکن 1985ء کی نام نہاد اسمبلی نے ان کے اس گناہ کو تحفظ دیا بلکہ ضیاؤالحق نے آئین کے خالق کو تختہ دار پر لٹکا دیا لیکن کبھی کسی نے ان سے کچھ نہیں پوچھاجنرل پرویز مشرف نے دو مرتبہ 12اکتوبر 1999ء اور 3 مئی کو آئین کی دھجیاں بکھیر دیں لیکن کوئی ان کا بال بھی بیکانہ کرسکا وہ کسی احتساب کی زد میں نہیں آئے جب ان کی واپسی پر تعظیم اور بعداز موت تکریم دی جائے گی تو کدھر گیا 1973ء کا آئین برسوں پہلے کی بات ہے کہ جنرل ضیاء نے تہران میں کہا تھا کہ آئین کاغذوں کا ایک پلندہ ہے جسے کسی وقت میں ردّی کی ٹوکری میں پھینکا جاسکتا ہے۔
یہی الفاظ جنرل پرویز مشرف نے بھی کہے تھے آج سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ ہستیاں آئین سے بالاتر ہیں اور آئین ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتا حالانکہ صدیوں سے سنتے آرہے ہیں کہ آئین کسی ملک کی وحدت کی بائنڈنگ فورس ہے اور جن ممالک میں آئین نہیں ہے انہیں ملک بے آئین کہا جاتا ہے اور انہیں ناکام ریاست بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔
تمام اسٹیک ہولڈروں کے نزدیک آئین بے معنی ہوکر رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اوپر سے نیچے تک بحران ہی بحران ہے سب سے بڑا صوبہ پنجاب کئی دنوں سے آئینی بحران کی گرفت میں ہے لیکن فریقین آئین پر عملدرآمد کی بجائے وار لارڈ کی طرح من مانی اور غنڈہ گردی سے کام لے رہے ہیں اسمبلی کے دو دو اجلاس ہورہے ہیں وزیراعلیٰ کی بات کوئی نہیں سنتا اسپیکر اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں لیکن کئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
کئی سال قبل جنرل پرویز مشرف نے امریکہ جیسے جمہوری ملک میں کہا تھا کہ آئین نہیں ملک اہم ہوتا ہے اور ملک کو بچانے کیلئے آئین اور جمہوریت کی قربانی دینا جائز ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہم اسٹیک ہولڈر آئین کی بجائے ملک کو اہم قرار دیتے ہیں اور آئین کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگرآئین فیل ہوجائے تو ریاستیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں اور ان کی سا لمیت باقی نہیں رہتی۔
پاکستان کے باشندے دعا کریں کہ ان کی خیر ہو کیونکہ آئین شکنی پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے والے سابق وزیراعظم نوازشریف نے بالآخرمان لیاہے اگر آئین شکنی طاقتور ہو تو اس کا جرم قابل معافی ہے ہوا کا رُخ دیکھ کر نواز شریف سابق وزیراعظم نے گزشتہ روز کہا کہ ان کی پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں اگر شدید علالت کے باعث ان کو واپس لایا جانا مقصود ہے تو حکومت تمام سہولیات فراہم کرے دراصل یہ بیان دے کر نواز شریف نے اپنی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے اگر آئین کوئی چیز ہوئی تو جنرل پرویزمشرف اتنے زیادہ قابل تعظیم نہ ہوتے اور ان کے سنگین جرم کو یوں آسانی کے ساتھ معاف نہیں کیا جاتا دوسری جانب ایم این اے علی وزیر ضمانت کے باوجود جیل میں بند نہ ہوتے۔
اگر آئین کے بنیادی حقوق کی شقوں کو تسلیم کیا جاتا تو مسنگ پرسنز کے لواحقین کڑی دھوپ میں خوار نہ ہوتے اور سندھ پولیس سے پوچھا جاتا کہ اس نے کس کے حکم پر پرامن مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں خواتین کو گھسیٹا اور گرفتار کیایہ بھی تو آئین شکنی ہے۔
عجیب بات ہے کہ ایک طرف نام نہاد پاکستانی میڈیا بھارت میں مسلمانوں پر مظالم دکھا کر اس کی مذمت کرتا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں خواتین کو بالوں سے گھسیٹ کر بھارت کے مظالم کی تقلیدکی جاتی ہے تو دونوں کے بیچ میں کیا فرق رہ جاتا ہے ایک عجیب بات ہے کہ سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس کا دعویٰ ہے یہاں پر طرز حکمرانی باقی صوبوں سے الگ اور بہتر ہے لیکن عملی طور پر یہاں پر صورتحال یا تو پنجاب جیسی ہے یا اس سے بدتر ہے کئی بار شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ سندھ کے معاملات کوئی غیر مرئی طاقتیں چلارہی ہیں میڈیا کے بارے میں بھی سندھ حکومت کا وہی رویہ ہے جو پورے ملک میں حکومت کا ہے کراچی سمیت سندھ میں پولیس گردی پنجاب جیسی ہے جعلی پولیس مقابلے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا معمول کی بات ہے۔
کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں سب سے زیادہ ماورائے قانون قتل ہوئے ہیں اس کا آغاز 1992 کے آپریشن سے ہوا تھا جس کے بعد ایک پولیس آفیسر راؤانوار کے منہ کو خون لگ گیا لیکن انصاف کا یہ عالم ہے کہ موصوف سخت پہرے میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں اگر یہی حالات رہے تو وہ کسی وقت بھی دوبئی کوچ کرسکتے ہیں جہاں کروڑوں درہم کی دولت ان کی منتظر ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر مل کر اپنی ریاست اپنے آئین اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں جو تماشے اس ملک میں ہورہے ہیں اس کی مثال شاید پوری دنیا میں موجود نہ ہو 75 سال ہونے کو آئے ہیں ابھی تک طے نہ ہوسکا کہ ریاست کو کس سمت لے جانا ہیکبھی یہاں بنیادی جمہوریتوں کا نظام راج ہوتا ہے کبھی ون یونٹ کبھی پیریٹی اور ہر مرتبہ انتخابات میں گڑبڑ کرکے من پسند نتائج حاصل کئے جاتے رہے ہیں 2002ء سے لیکر اب تک کوئی الیکشن شفاف نہیں ہوا 2018ء میں تو حد کردی گئی ایک ایسی جماعت جس کی نشستوں کی تعداد ایک تہائی تھی اسے زبردستی اکثریت دلاکر مسلط کیا گیا فارن پالیسی دیکھئے کہ ساری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو پاکستان کا صحیح معنوں میں دوست ہو پونے چار سال تک عمران خان کو بڑے لاڈ اور پیار کے ساتھ رکھا گیا لیکن اچانک ان سے جی بھر گیا بجائے کہ کوئی طریقے سلیقے کا راستہ اختیار کیا جاتا جلد بازی سے کام لیکر ایک ڈمی حکومت قائم کی گئی پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ وہاں پر اپوزیشن نہیں ایک مزاحیہ فنکار راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا پنجاب کا تو حال برا ہے وہاں پر وزیراعلیٰ کا انتخاب ہی جعلی ہے پنجاب حکومت کو ایوان میں اکثریت حاصل نہیں اس کے باوجود نظام زبردستی چلایا جارہا ہے حالانکہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر اسمبلی تحلیل کی جانی چاہئے لیکن اتحاد ی اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں اسی طرح مرکز میں اتحادیوں نے عمران خان حکومت کی ساری خرابیوں کو اپنے گلے ڈال کر بزرگوں کی عزت بچانے کا جو کام کیا آئندہ انتخابات میں انہیں جوتے پڑیں گے عمران خان ایسا رولا ڈالیں گے کہ انتخابات میں ان کیلئے اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوگا پاکستان میں سیاست ابھی تک نابالغ ہے عمران خان نے اپنے درجنوں جلسوں میں مولانا صاحب کی اتنی بے عزتی کی ہے کہ اس کے بعد ان کے درمیان تعاون دیوانگی معلوم ہوتی ہے لیکن سندھ کے بلدیاتی انتخاب میں جے یو آئی اور تحریک انصاف کے درمیان تعاون چل رہا ہے اس کی وجہ ایک لاڈلہ راشد سومرو ہے جس کی بات کو مولانا نہیں ٹالتے مجموعی طور پر سارے معاملات ایک مزاحیہ ڈرامے کے پارٹ معلوم ہوتے ہیں ہر جگہ ہر مقام پر الوؤں کی بیٹھک دکھائی دیتی ہے بھلا اتنی بڑی ریاست کو 25 کروڑ کی آبادی بغیر منصوبہ بندی بغیر سمت اور بغیرآمدنی کے کیسے چلایا جاسکتا ہے لگتا ہے کہ طویل عرصہ تک بے چارے عوام عذاب کی زندگی جھیلتے رہیں گے اور رولنگ ایلیٹ اپنی حماقتوں کے باوجود سیاہ و سفید کا مالک رہے گا اور ان کی لوٹ مار بھی جاری رہے گی۔
٭٭٭