بھوانی کی ایک رات

تحریر: انور ساجدی

میاں محمدمنشا پاکستان کے سب سے بڑے سرمایہ دار ہیں ان کاروبار پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی پھیلاؤ ہوا ہے انہوں نے نوازشریف کے دوسرے دور میں ایم سی بی بینک کوڑیوں کے مول خریدا تھا کیونکہ وقت کی حکومت ان کے ساتھ تھی نوازشریف ہی نے پنجاب کے دومقامات پر انہیں بجلی پیدا کرنے کے پلاٹ لگانے کی اجازت دی میاں منشا کا گروپ نشاط کہلاتا ہے اور اس نے لاہور میں ایک بڑا مال ایمپوریم کے نام سے بھی بنایا ہے ان کو ایک اور بڑی فضیلت بھی حاصل ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ دنیا بھر میں جہاں کھرب پتی روسا ہیں ان کے بیش بہا بیڈرومز تک میاں صاحب کی رسائی ہے کیونکہ ان کی کمپنی نشاط لینن اٹلی کے بعد دنیا کے سب سے مہنگے اور لگژری چادریں بناتی ہے اس کے ایک ایک سیٹ کی قیمت 30ہزار سے لیکر ڈیڑھ لاکھ روپے ہوتی ہے جبکہ دنیاکے بڑے شہروں میں یہ سیٹ وہاں کی کرنسی کے حساب سے بکتے ہیں لندن ہو پیرس ہو نیویارک یاویانا نشاط لینن کے شوروم ہر مال میں نظرآتے ہیں اور یہ بیڈنگ کی شاندار کمپنی ہے میاں منشا نے کافی سال پہلے ڈیرہ غازی میں سیمنٹ کی فیکٹری خریدی تھی اور اس کا نام ڈی جی خان سیمنٹ رکھا تھا جب یہ کارخانہ لگاتھا تو اس قیمت سمیمنٹ کی سب سے بڑی فیکٹری اٹک سیمنٹ تھی جس کا مالک محمد علی رضا ایک سعودی باشندہ ہے لیکن شیعہ ہونے کے ناطہ وہ اپنے ملک میں نہیں رہتا اپنے قیام کے ساتھ ہی ڈی جی خان سیمنٹ سب سے بڑی فیکٹری بن گئی اس کا قیام ڈی جی خان شہر سے25کلو میٹر دورعمل میں آیا جہاں لائم اسٹون اور دیگر خام مال کی بہتات تھی اس وقت کی حکومت نے سینکڑوں بلوچ خاندانوں کو بے دخل کردیا اور ہزاروں ایکڑ سیمنٹ فیکٹری کی ملکیت قرار دیدیئے میاں منشا نے بعد میں یہ فیکٹری خریدلی اور اس میں بے تحاشہ توسیع کی انہوں نے دوسری فیکٹری حب میں بھوانی کے قریب لگائی بلاشبہ یہ بہت بڑی فیکٹری ہے اور اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی تیار کردہ سیمنٹ ہمسایہ ممالک کے علاوہ امریکی بھی جاتی ہے غالباً سیمنٹ باہر بھیجنے کی خاطر ہی میاں منشا نے حب کی پہاڑیوں کا انتخاب کیا اگرچہ میرے پاس معلومات نہیں ہیں لیکن اندازہ ہے کہ ڈی جی خان سیمنٹ کو ہزاروں ایکڑ اور بہت بڑا پہاری سلسلہ الاٹ کیا گیا ہے یہ فیکٹری بجلی بھی پیدا کرتی ہے اور اپنی ضروریات پوری ہونے کے بعد فاضل بجلی حکومت کو بیچتی ہے اگرچہ فیکٹری کے مقام پر گنجان آبادی نہیں تھی لیکن جو بھی تھی اسے ڈیرہ خان کے علاقہ ”کوری“ کی طرح بے دخل کردیاہوگا۔
بدبختی دیکھئے کہ بلوچستان حکومت کے پاس اپنے شہریوں کو الاٹ کرنے کیلئے ایک پلاٹ تک نہیں ہے لیکن باہر کی آئی کمپنیوں کو اس نے ہزارہا ایکڑ مفت یا کم قیمت پر فراہم کی ہے حبکو پاور بوسیکار بائیکو اور نہ جانے کتنی کمپنیاں ہیں جنہیں گڈانی کی خوبصورت ساحلی اراضی مال مفت کی طرح بخش دی گئی ہے اندازہ ہے کہ ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری کو میلوں تک توسیع دی جائیگی اس کا ایک مقصد تو پیداوار میں اضافہ اور دوسرا مقصد کھربوں روپے کی زمین ہو ہتھیانا ہے ہمیں تو معلوم نہیں کہ سیمنٹ کی ایک بڑی فیکٹری پر کتنی لاگت آتی ہے لیکن 50سے80ارب تو لاگت آتی ہوگی لیکن اگر جب کی فیکٹری کو حکومت نے25ہزار ایکڑ زمین دی ہوگی اور ساتھ میں میلوں لمبی پہاڑی بھی الاٹ کی گئی ہوگی تو اس کا اندازاً مالیت دوکھرب سے زائد ہوگی جبکہ جوخام مال پہاڑی کے اندر موجود ہے وہ کروڑوں ٹن ہے اور اس کی قدر کا کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔
ڈی جی خان سیمنٹ حبکو پاور اور دیگر فیکٹریوں نے بہت آلودگی پھیلادی ہے اور اس کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے یعنی بڑا ”سچا سودا ہے“ اپنی زمین دے کر اس کے بدلے میں موت خریدو اپنے شہریوں کو کینسر ٹی بی اور جلدی امراض کا شکار بناؤ نہ صرف یہ مجھے خدشہ ہے کہ ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری ایک فیکٹری نہیں ہے بلکہ یہ ایک آکاس بیل ہے اس کا پھیلاؤ بہت دور تلک جائیگا ہوسکتا ہے کہ وندرڈیم تک جائے پہلے لوگ خوش تھے کہ حکومت نے ایک ڈیم بنایا ہے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ جلد یا بدیر اس ڈیم کے پانی کو ڈی جی خان سیمنٹ کے استعمال کیلئے لایا جائیگا کیونکہ اس فیکٹری اس کی کالونیوں میں رہائش پذیر ہزاروں نوآبادی اسٹاف کو پورے ایک ڈیم پانی کی ضرورت ہے۔
کوئی بتائے کہ میاں منشا نے پیرس شہر کے وسط میں جو شاندار ہوٹل چوری کے پیسوں سے خریدا ہے کیا وہ بلوچستان کے کسی شخص کو اپنے ہوٹل میں ایک دن ٹھہرائے گابلکہ وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور منتخب نمائندوں کو بھی ایک کمرہ نہیں دے گا میراخیال ہے کہ جام کمال کو جو جمالیاتی ذوق ہے اس کی وجہ سے وہ ضرور میاں منشا کے ہوٹل میں ایک دو راتیں ٹھہرے ہونگے لیکن موجودہ وزیراعلیٰ یاحب کے منتخب نمائندہ اسلم بھوتانی اور محمد صالح تو میاں منشا کے ہوٹل کا دیدار کرنے بھی پیرس نہیں گئے ہونگے۔
یہ بھی معلوم نہیں کہ ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری نے کتنے مقامی لوگوں کو مالی چوکیدار یا چپڑاسی کی نوکری دی ہے زیادہ امکان یہی ہے کہ اس نے اپنا سارا عملہ باہر سے منگوایا ہے کیونکہ نوآبادیاتی سوچ یہی ہے کہ مقامی لوگ مخالف ہوتے ہیں وفادار نہیں ہوتے اور وہ اعتبار کے لائق اور کام کے قابل نہیں ہوتے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ مرکز بلوچستان کے ساتھ ویسا سلوک کرتا ہے جو یورپی آبادکاروں نے امریکہ کے مقامی انڈین باشندوں کے ساتھ کیا تھا یا ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے مقامی باشندوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو مال مفت یا دشمن کا مال سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے نہایت بے رحمی کے ساتھ لوٹا جارہا ہے تمام ساحل اور جملہ وسائل کو اسی طرح ضائع کیاجارہا ہے اگر ان وسائل کو حکمران اپنے ملک کی معاشی بدحالی دور کرنے پر خرچ کرتے تو کوئی بات تھی لیکن ان کا پورا پلان ہے کہ انہیں ضائع کردیاجائے ایک طرف یہ تحکمانہ سلوک ہے تو دوسری طرف توقع کی جارہی ہے کہ ہم جو کریں جو ظلم روا رکھیں انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر کچل دیں تو کوئی اف تک نہ کرے اور خاموشی کے ساتھ ظلم سہتا رہے سوچنے کی بات ہے کہ جو رویہ ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اگر موجودہ لیڈر معمولی عہدوں اورمراعات کے ساتھ سرجھکائے آپ کے قدموں میں کھڑے ہیں تو ضروری نہیں کہ عوام بھی اسی روش پر چلیں مرکز کو اپنے اس غیر فطری اور ظالمانہ طرز عمل پر ضرور غور کرنا چاہئے وسائل ملکی اور غیر ملکی ساہوکاروں کوتفویض کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ بڑھ جائیں گے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے اسٹیک ہولڈر اپنے ملک کے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں ان کے نزدیک عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے ریاست میں دو قوانین ہیں ایک عمران خان جیسے جعلی اشرافیہ کے لئے وہ جو بھی کہیں جو کریں قانون حرکت میں نہیں آتا دوسرا قانون وزیرستان اور بلوچستان کے لوگوں کیلئے ہے جنہیں احتجاج کرنے پر غائب کردیاجاتا ہے یا ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکا جاتا ہے۔ملک کے بعض حصوں کے شہروں کو افضل جبکہ دیگر کو حقیر سمجھا جاتا ہے یہ کام تو انگریز کرتے تھے موجودہ حاکم تو مقامی ہیں انہوں نے کیوں کالونی نظام کو توسیع دے کر برقراررکھاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں